فلم ’’منزل ہے کہاں تیری۔۔۔۔عابدہ‘‘
1995ء میں سربین جابر حکمرانوں نے بوسنیا ہرزیگو وینا میں لاکھوں مسلمانوں کی نسل کشی کیلئے فوجی آپریشنز شروع کئے جن میں دن بھر سب سے زیادہ سنی جانے والی آواز گولیوں کی بوچھاڑ کی ہوتی تھی اور سب سے زیادہ دیکھی جانے والی چیز مسلمانوں کی لاشیں تھیں، مٹی صحیح معنوں میں سر خ ہو گئی تھی۔ چھوٹا ساگائوں محفوظ تھا نہ بچے ، عورتیں ، بوڑھے ، مریض زخمی یامعذور ....قتل عام کیلئے سرب فوج نے نیم عسکری تنظیم ’’بچھو‘‘ (Scorpions) تشکیل دی تھی۔
اس قتل عام کو کئی سال کی محنت کے بعدایک کہانی کار نے لفظوں کی زبان دی اور ایک فلم بنی جسے 26اپریل کو ہونے والے آسکر انعام میں ’’بہترین فیچر‘‘ کے شعبے میں نامزدکیاگیا ہے، فلم کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکاہے۔ کورونا وباء کی وجہ سے یہ فلم بڑی سکرین کی بجائے لیپ ٹاپ کی چھوٹی سکرین پر دنیا بھر میں ہٹ ہو گئی ۔فلمساز زیبانک کا کہنا ہے کہ انہیں یقین کامل ہے کہ فلم سے سیاسی منظر نامہ کچھ تو بدلے گا۔
’’ سرے برینتزا ‘‘ ایک چھوٹا سا گائوں ہے، چاروں طرف سے خار دار تاروں میں گھرا ہوا۔ ’’بچھوئوں‘‘نے 1995ء میں اس گائوں میں 8 ہزار مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی۔ قتل عام کے بعد ’’بچھوئوں ‘‘نے وڈیو بھی بنائی جس میں بچوں اور بڑوں کی دل دہلا دینے والی چیخ و پکار ہے اور بچھوئوں کے قہقہے .....فلم میں کٹی پھٹی لاشوں کا منظر ہے اور خوفزدہ چہرے ہیں... یہ سب کچھ باقیات ہیں۔ ’’بچھو ‘‘ جہاں جہاں سے بھی گزرے یہی منظر تھا ۔ عالمی عدالت انصاف کے سابق جج فواد ریاض نے بجا طور پر کہا تھا ..... ’’سابقہ یوگوسلاویہ میں جو کچھ بھی ہوا وہ بد نما ترین انسانی تاریخ میں لکھا گیا جہنم کا عکس تھا‘‘ ۔
اس قتل عام کو کئی سال کی محنت کے بعدایک کہانی کار اور ہدایت کار جسمیلا زیبا نک (Jasmila Zbanic) نے لکھا۔ یہ تاریخی فلم پانچ سال کی کوششوں سے مکمل ہوئی ،اس فلم کی تکمیل میں 9ملکوں کے لوگوں نے سرمایہ کاری کی ،فلم نے وینس کے فلمی میلے میں بھی جگہ بنالی تھی۔ کورونا وباء نہ آتی تو فلم بوسنیا میں نسل کشی کے سارے مناظر کھول کر بیان کر دیتی۔
کہانی لکھنے کیلئے وہ خود کئی مرتبہ سرے برینتزا کے گائوں میں گئی۔ وہاں ’’سرے برینتزاکی مائیں ‘‘ نامی تنظیم کی خواتین سے بھی ملی۔ یہ وہ بے سہارا خواتین ہیں جن کے پیارے 8ہزار قتل عام میں اپنی جانیں گنوا بیٹھے ہیں۔ کسی کا بیٹا شہید ہوا تو کسی کا شوہر۔ اور ان سب نے آنسوئوں بھری آنکھوں کے ساتھ انصاف کی دہائی دی۔
بوسنین زبان میں فلم کا نام ’’Quo Vadis, Aida?‘‘ رکھا گیا ہے۔ ’’Quo Vadis‘‘ کا مطلب ہے ’ منزل ہے کہاں تیری ؟‘ جبکہ ’’Aida‘‘ (آہدہ )ایک عورت کا نام ہے۔ اردو زبان میں اسے عابدہ (پاکباز) بھی کہہ سکتے ہیں ،دونوں نام ہم معنی ہیں۔اس دکھ کی منظر کشی ہالی ووڈ کی معروف زمانہ فلم ’’Gone with the wind‘‘کی طرز پر کی گئی ہے۔ بے تحاشا ہجوم کی کوریج کیلئے انتہائی طاقتور اور وسیع المنظر کشی کرنے والے کیمرے اور مائیک جگہ جگہ نصب کیے گئے ،حتیٰ کہ وہ دل کی دھڑکنوں کو سن سکتے تھے۔
ایک کارکن نتاشا کانجک (Natasa Kandic) اس قتل عام سے واقف تھی، وڈیو بھی اس کو ملی جو اس نے جنگی جرائم کے ٹریبونل کو ہیگ بھجوادی تھی ۔ اسی نے قتل عام کی فلم بندی کا معاملہ انسانی حقوق کے رہنمائوں کے روبرو اٹھایا تھا۔یہ وڈیو ’’عالمی کمیٹی برائے مسنگ پرسنز ‘‘تک بھی پہنچی تھی۔یہ وڈیو فلمی کہانی کی روح ہے ۔ وڈیو میں جتنے بھی چہرے تھے، فلم ساز خاتون نے ان سب کے گھروں میں بچے کھچے افراد سے رابطہ کیا اور کہانی کے تانے بانے بنے!
فلم کی کہانی ایک لڑکی آہدہ (عابدہ)کے گرد گھومتی ہے۔ اسے بھاگتے دوڑتے چیختے چلاتے روتے پکارتے لوگوں میں اپنی ماں کی تلاش ہے ۔ وہ زور زور سے ماں کو پکارتی ہے۔ مگر بے سود ۔ یہ سبھی لوگ سربین نسل پرستوں سے بچنے کیلئے اپنے اپنے بچائو کی سمت میں بھاگ رہے تھے اور بچی جانتی تھی کہ اس کی چیخ و پکار بے معنی ہے، اس کے لفظوں کی کوئی قیمت نہیں ، سچ سراپا جھوٹ میں کہیں چھپا ہوا ہے۔وہ اپنے ماں اور باپ کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے تھک چکی تھی۔ قدرے مایوس تھی۔ وقت تیزی سے گزر رہاتھا ۔ اورآہدہ وقت کے ساتھ ساتھ دوڑنے کی کوشش میں تھی۔ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ اس کے خاندان کے بارے میں امیدیں دم توڑ رہی تھیں ۔
منظر بدلتا ہے! اس گائوں میں بے بس بوسنین مردوں، لڑکوں،جوانوں اور بوڑھوں کو خار دار تاروں سے گھرے ہوئے ایک وسیع میدان میں اتارا جا رہا ہے،ٹرک سے نکالتے ہی ان پر وحشیانہ تشدد کیا گیا، ہر جانب پانی پانی کی پکارتھی۔ زندگی کی بھیک کی آواز تھی۔اتنے میں ایک بچھو غرایا .... ’’اے مسلم !تمہیں انتظار کس بات کا ہے؟تم سب اپنے اپنے سائز کی قبریں کھودو!...بڑی ہوں نہ چھوٹی‘‘۔
ہر لڑکے اور بڑے نے اپنے ہاتھوں سے وہ مٹی کھودی جسے ان بچھوئوں نے قبر قرار دیا تھا ۔ انہیں قبروں میں دفن کرنے کا وقت نہیں ملا۔جب 8 ہزار افراد پر گولیوں کی بوچھاڑ ہوئی تو کوئی کہیں گرا او رکوئی کہیں ۔ اس لئے بچھوئوں کو قبرمیں دفنانے کا وقت نہیں ملا۔لاشوں کے ڈھیر لگ گئے ۔اسی ڈھیر میں دبنے والے 15 لڑکے زندہ بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔
اسی فلم کی ایک کردار شہر ’’تزلہ‘‘ میں مقیم سنیرا بھی ہے۔وہ 1995ء میں بارہ برس کی تھی جب اس نے اپنے والدکو آخری مرتبہ جنگل کی جانب جاتے دیکھا تھا۔وہ اپنے ابو سے ناراض تھی، انہیں بار بار روک رہی تھی لیکن ابو نہ مانے۔ سنیرااپنے ابو کو جنگل کی جانب جاتے دیکھتی رہی، دیر تک کھڑکی میں کھڑی سایہ دیکھتی رہی۔حتیٰ کہ وہ ننھا سا ہوکر جنگل میں کہیں کھو گیا۔ابو نے مڑ کر نہیں دیکھا لیکن ابو کی پیاری بارہ سالہ سنیرادور سے ہاتھ ہلا ہلا کر انہیں خدا حافظ کہہ رہی تھی۔وہ سوچ رہی تھی کہ کاش کہیں سے ابو نکل آئیں ، جھانک کر دیکھیں اور وہ ا نہیں واپس بلا لے. . .. مگر نہیں۔وہ جنگل میں ایسے گم ہو گئے کہ پھر کبھی نہ ملے ۔
ایک دن ’’بچھو‘‘ کی وڈیو سنیرا نے دیکھی ۔ وڈیو میں پانی ،پانی، پانی.....سنائی دے رہا تھا۔ مگر نہیں ملا۔اور پھر بارہ سالہ لڑکی نے اپنے باپ کے قتل کا وحشت ناک منظر دیکھا ،وڈیو میں بچھو قتل عام کر رہے تھے۔ سنیرااس آدمی کا چہرہ نہ دیکھ سکی، خون میں لت پت ایک جانب گرا ہوا تھامگر وہ پینٹ سے اپنے ابو کو پہچان گئی ۔یہ آخری یاد گار تھی کیوں نہ دیکھتی ،دل پر پتھر رکھ کر دیکھا ،آنکھوں کو آنسوئوں میں چھپا کر دیکھا......
فلم ساز خاتون سراجیوو کے کچے مکان میں نوری (Nurijaja Alispahic) سے بھی ملی ۔ نوری نے اپنے دو بیٹے اور شوہر کھو دیئے تھے ، بچھوئوں نے تینوں کو مار ڈالا تھا۔ چھوٹا بیٹا 16برس کا تھا، ’’مجھے اسی وقت سکون ملے گا جب میں مر جائوں گی‘‘....دکھی ممتا بولی۔
فلم کا ایک کردار ملا الدین اورچ (Mevludin Oric) بھی ہے۔وہ کزن کے مردہ جسم کے نیچے دب گیا تھا،کزن نے اپنی جان دے کر اسے بچا لیاتھا۔ یہ احسان وہ کیسے چکائے ۔وہ کہتا ہے ......’’ تاریکی پھیلنے لگی تو ’لاش کدے ‘ سے نکلا،اور ایک جگہ چھپ گیا۔جاتا بھی کہاں.... ہر روز سونے سے پہلے اور صبح اٹھنے کے بعدایک ہی آواز سننے کو ملتی تھی.......تڑ ،تڑ، تڑ، تڑ، تڑ..... زمین کبھی خشک نہ ملی، مٹی ہو یا سڑک، خون کے لوتھڑے جمے ہوئے ملتے۔
فلم کی نامزدگی پر وہ کتنی خوش تھی ، آنسو تھم نہیں رہے تھے۔ وہ پریشان تھی کہ امریکہ اور مغربی یورپ کے اکثر ممالک اس گائوں میں 8ہزار مسلمانوں کے قتل عام سے ناواقف تھے۔ بوسنین سرب آرمی نے ملازو وچ کی سربراہی میں چنگیز خان اور ہلاکو خان کی تاریخ دہرائی ۔
زیبانک کا کہنا ہے کہ گائوں کے اکثر لوگ مسلمان ہیں۔انہوں نے یک زبان ہو کر کہا کہ فلم کی کہانی اور انعامات کے لیے دعاگو ہیں۔ حتیٰ کہ کیتھولک مسیحیوں نے بھی مسلمانوں جیسے نیک خیالات کا اظہار کیا۔ اس چھوٹے سے گائوں میں ایک ہزار لوگ اب بھی لاپتہ ہیں ۔ ان کی تلاش اقوام متحدہ نے کی نہ انسانی حقوق کے کمیشن نے۔ 26سال بعد بھی ایک ہزار افراد کی گمشدگی ان ہزاروں خاندانوں میں دکھ کا باعث ہے۔