اے این پی کی پی ڈی ایم سے علیٰحدگی کی وجوہات
سینیٹ انتخابات کے دوران گیارہ جماعتوں کے اتفاق کوحکومت کی ایسی نظرلگی ہے کہ اب یہ جماعتیں ایک موقف پر قائم نہیں رہیں۔اسی لئے پی ڈی ایم کی ہانڈی بیچ چوراہے میں پھوٹ گئی ہے۔ اختلافات کے باعث اے این پی کا پی ڈی ایم کے ساتھ اتحاد اپنے منطقی انجام کو پہنچ گیا ہے ، پارٹی کے مرکزی نائب صدر امیرحیدر ہوتی نے گزشتہ روز پی ڈی ایم سے علیحدگی کااعلان کیا اس بات کا فیصلہ عوامی نیشنل پارٹی کی مجلس عاملہ کے اجلاس میں کیاگیا۔ امیر حیدر ہوتی کا کہناتھا کہ اے این پی کسی کو جوابدہ نہیں ہے ان کی جماعت کو پی ڈی ایم میں دیوار سے لگادیاگیا تھااسی لئے اب الگ ہو رہے ہیں۔
یہ توپہلے ہی لگ رہا تھا کہ اے این پی ، پی ڈی ایم کے ساتھ اپنے مختصر سے رومانس کو ختم کرنا چاہتی تھی اور بالآخر انہیں یہ موقع مل بھی گیا۔تاہم انہوں نے اے این پی کے آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان نہیں کیا۔کیا اے این پی بھی جماعت اسلامی کی طرح نیوٹرل رہنے کی کوشش میں اپنے ورکروں کو شش وپنج میں ڈالے رکھے گی یا کوئی واضح لائحہ عمل اپنائے گی؟اس کا جواب بھی آئندہ مالی سال کے بجٹ سے پہلے ہی مل جائے گا۔
اے این پی قوم پرست جماعت ہے جس کا منشور اور نعرہ دیگر جماعتوں سے کافی جدا ہے اگرچہ اے این پی پیپلزپارٹی کے ساتھ خیبرپختونخوا میں اتحادی رہی ہے اور کامیابی سے پانچ سال پورے کئے ہیں لیکن مسلم لیگ (ن) یا جے یو آئی جیسی مذہبی جماعت کے ساتھ اس کا اتحاد غیر فطری سا لگتا تھا ،جے یو آئی اور اے این کی نظریاتی اعتبار سے مخالف کونے پر کھڑے رہے ہیں ۔دوسری طرف پیپلزپارٹی خود کو سیکولر جماعت کہتی ہے ، اے این پی کے نظریات کچھ حد تک اس جماعت سے ملتے جلتے ہیں ۔پی ڈی ایم میں بھی ایسا ہی ہوا۔ اے این پی شروع دن ہی سے مخالف سمت میں چل رہی تھی جس کا متعدد بار ان صفحات میں تذکرہ کیاجاچکا ہے۔ابتداء میں اے این پی کے صوبائی صدر ایمل ولی نے اپنی ہی اتحادی جماعت مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز شریف پر تنقید کے تیر برسا دیئے ،یہ سابق صدر زرداری سے پہلے ایمل ولی نے کسی بھی تحریک چلانے سے قبل نواز شریف کی واپسی کا مطالبہ کیاتھا۔ابھی ایمل ولی کی نواز شریف پر تنقید کا شور تھما ہی تھا کہ ان کی طرف سے ایک اور بیان داغ دیاگیا کہ مولانا فضل الرحمان کو اپنے اثاثوں کا حساب تو دینا ہی ہوگا۔مسلم لیگ( ن) کا الزام ہے کہ اس اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کی ذمہ دار پیپلزپارٹی اور اے این پی ہیں۔ اے این پی میں اسفند یار ولی کے گوشہ نشین ہوجانے کے بعد ایک واضح تفریق نظر آرہی ہے۔اس وقت اے این پی دو گروپوں میں بٹی ہوئی ہے ایک گروپ کے سرخیل امیرحیدر ہوتی ہیں میاں افتخار بھی امیر حیدر ہوتی ہی کے ہمنوا ہیں جبکہ دوسرا گروپ ایمل ولی کا ہے جن کو اپنے والد کی آشیرباد بھی حاصل ہے ،یوں اگریہ کہا جائے کہ اے این پی کی رشتہ داروں میں بندر بانٹ کردی گئی ہے تو بے جا نہ ہوگا اس تقسیم کا واضح اثر سینیٹ انتخابات میں بھی نظر آیا جب اپوزیشن لیڈر کیلئے ایمل ولی نے اپنے دونوں سینیٹرز کو یوسف رضاگیلانی کی حمایت کیلئے کہا لیکن امیر حیدر ہوتی کو اس فیصلے سے اختلاف تھا اور ذرائع کے مطابق وہ پی ڈی ایم کے فیصلے کے ساتھ چلنا چاہتے تھے لیکن مرکزی قیادت کی مرضی کے بغیر یہ ووٹ پیپلزپارٹی کی جھولی میں ڈال دیئے گئے۔
ایک طرف اے این پی کے مرکزی سینئر نائب صدر امیر حیدر ہوتی اور مرکزی سیکرٹری جنرل میاں افتخار حسین پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے مرکزی حکومت کو للکار رہے ہوتے ہیں تو دوسری جانب ایمل ولی ان کے بالکل برعکس بیانات دیتے ہیں۔ صوبائی قیادت ایمل ولی کے پاس ہے جبکہ مرکزی باگ ڈور امیر حیدر ہوتی سنبھال رہے ہیں۔ میاں افتخار جو صوبائی قیادت کے مضبوط امیدوار تھے ۔ انہیں سیکرٹری جنرل کا عہدہ سونپ دیاگیا ، اے این پی کا ووٹ بنک بھی زیادہ ترخیبرپختونخوا میں ہے لہٰذا صوبائی قیادت کے پاس اختیارات یا فیصلہ سازی کی قوت بھی زیادہ ہوتی ہے ۔ ایمل ولی کو ہارون بلور کی بیوہ ایم پی اے ثمر ہارون بلور کا بھی بھرپور اعتماد حاصل ہے ۔ نوشہرہ کے ضمنی انتخابات میں بھی اسی گروپ نے پی ڈی ایم کے مقابلے میں اپنا امیدوار کھڑا کیاتھا ۔
صوبائی حکومت کی جانب سے رمضان المبارک میں سستے بازاروں کے انعقاد کا بھی فیصلہ کیاگیا ہے لیکن سستے بازار دراصل کاغذوں میں لگائے جاتے ہیں۔ لیکن اب مہنگائی اور غربت کے مارے عوام کو سستے بازاروں کا لالی پاپ مزید نہیں دیاجاسکتا ۔ گرانفروشوں کے ساتھ ذخیرہ اندوزوں کے خلاف سخت ترین ایکشن لینا ہوگا ۔اس بار بھی سبزیوں اور پھلوں کی قیمتوں میں بتدریج اضافہ ہورہا ہے چینی کی قیمت کو تو پہلے ہی پر لگ چکے ہیں ۔
پشاور اس وقت کوروناسے شدید متاثر ہے یہاں کورونا سے متاثرہ افراد کی اوسط چھبیس تک پہنچ گئی ہے جو غالباََ ملک بھر میں سب سے زیادہ ہے ، پشاور کے تینوں بڑے ہسپتال کورونا کے مریضوں سے بھر چکے ہیں ۔ لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں ہنگامی بنیادوں پر پانچ سو بیڈز پر مشتمل نئے سٹیٹ آف دی آرٹ بلاک کو کورونا کے مریضوں کیلئے مختص کردیاگیا ہے جس کی وجہ سے اس ہسپتال میں قدرے گنجائش پیدا ہو گئی ہے تاہم دیگر متاثرہ اضلاع میں صورتحال تشویشناک ہوتی جارہی ہے۔ محکمہ صحت کے اعدادوشمار کے مطابق این سی او سی کی طرف سے خیبرپختونخوا کو ایک لاکھ اکیانوے ہزار ویکسین موصول ہوئی ہیں جس میں سے ایک لاکھ 26ہزار ویکسین تمام اضلاع میں تقسیم کی گئی ہیں۔اب تک صرف 53 ہزار 514بزرگ شہریوں کو ویکسین لگائی جاچکی ہے۔