تحریک انصاف کے اندر تلخیاں
وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کی ملتان میں میڈیا سے گفتگو نے جہانگیر خان ترین کے حوالے سے صورتحال کو مزید گھمبیر کر دیا ہے، لگتا ہے کہ شاہ محمود قریشی کی ناراضی عروج پر ہے ،دوران گفتگو ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وہ جہانگیر خان ترین کے جہاز کی لاگ بک نہیں پڑھتے ، جہاز کا سوال متعلقہ شخص سے پوچھا جائے۔دونوں رہنمائوں کے مابین ماضی میں کبھی ہونے والی صلح اپنا اثر کھو چکی ہے ۔جو سیاسی رہنما جہانگیر خان ترین کی وزیر اعظم عمران خان سے مفاہمت کی امید لگائے بیٹھے تھے ، وہ ان بیانات کے بعد مایوس نظر آرہے ہیں،یہ معاملہ مزید خراب ہوسکتا ہے۔
گزشتہ عام انتخابات میں صوبائی اسمبلی کی نشست پر سلمان نعیم جہانگیر ترین کی حمایت سے جیت گئے تھے۔ سلمان نعیم پی ٹی آئی کا ایک نوجوان تھا جو ٹکٹ نہ ملنے پر آزاد امیدوار کی حیثیت سے کھڑا ہو گیا تھا ، پھر الیکشن جیت کر پی ٹی آئی میں شامل ہوگیا۔ سلمان نعیم جہانگیر خان ترین کے سایہ شفقت میں ہیں۔ یہی معاملہ دونوں رہنمائوں میں سیاسی تنائو کا سبب بنا ، خود سلمان نعیم بھی ایم پی اے بننے کے بعد جہانگیر خان ترین کے مزید قریب ہو گئے ۔ پھر معاملات ٹھیک ہوگئے اور دونوں رہنمائوں میں صلح ہو گئی تھی۔
اب جبکہ جہانگیر خان ترین وزیر اعظم عمران خان سے دور ہوگئے ہیں اور مشکلات میں گھرے ہیںتو ایک مرتبہ پھر انہوں نے اپنے سیاسی دوستوں کو اکھٹا کر لیا ہے جو بظاہر حکومت پر دبائو ڈالنے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں۔ ایم پی اے سلمان نعیم اس ساری گیم میں جہانگیر خان ترین کی حمایت میں پیش پیش ہیں ۔
رواں ہفتے جہانگیر خان ترین اپنے صاحبزادے علی ترین کے ہمراہ ملتان آئے ۔ انہوں نے پی ٹی آئی جنوبی پنجاب کے سابق صدر اسحاق خان خاکوانی کی والدہ کی وفات پر تعزیت کی ، اس موقع پر صوبائی وزیر ملک نعمان لنگڑیال، ارکان اسمبلی سلمان نعیم، زوار وڑائچ، عبدالحئی دستی، راجہ ریاض، ملک اصغر جوئیہ، اعجاز جنجوعہ اور دیگر رہنما بھی ان کے ساتھ تھے ۔ وہ سابق ایم این اے قاسم خان ملیزئی کی وفات پر تعزیت کے لیے بھی گئے جہاں سابق ایم پی طاہر حسین خان ملیزئی بھی موجود تھے ، بعد میں جہانگیر خان ترین نے سلمان نعیم کی جانب سے دئیے گئے ظہرانے میں شرکت کی جس میں ارکان اسمبلی اور اہم سیاسی رہنما موجود تھے ۔ ایسی سیاست جس میں سلمان نعیم آگے آگے ہوں ،مخدوم صاحب کو کیسے بھا سکتی ہے؟ مخدوم شاہ محمود قریشی نے ان رہنمائوں کے جہانگیر خان ترین کے قریب جمع ہونے پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ جب مریم نواز شریف کو عدالتوں میں سیاسی رہنمائوں کے ساتھ جانے کی حمایت نہیں کی جاتی تو بھلا تحریک انصاف کے لوگوں کو عدالتوں میں کسی کے ساتھ جانے کی اجازت کیسے دی جاسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو جہانگیر خان ترین سے کوئی خطرہ نہیں اور نہ ہی ان کے خلاف کوئی انتقامی کارروائی ہورہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر جہانگیر خان ترین کو خدشات ہیں تو عمران خان کے دروازے کھلے ہیں وہ ان سے ملاقات کریں۔ انہوں نے جہانگیر خان ترین کا ساتھ دینے والوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ جو لوگ تحریک انصاف کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے ہیں وہ سب عمران خان کی پالیسیوںپر عمل کرنے کے پابند ہیں، اس صورتحال سے اندازہ ہو رہا ہے کہ یہ تلخی مزید بڑھے گی اور شاید اس کا سبب یہ بھی ہے کہ اسے کم کرانے والا کوئی نہیں۔
ادھر جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کی تشکیل میں مزید پیشرفت ہوئی ہے، وزیر اعظم عمران خان اور وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کے مابین ہونے والی بات چیت سے حکومت کی بڑھتی ہوئی سنجیدگی ظاہر ہوتی ہے ۔ اطلاعات کے مطابق سیکر ٹریٹ کی تعمیر کے لیے ابتدائی رقم بھی منظور کر لی گئی ہے ، وزیر اعظم خود اس کا سنگ بنیاد رکھیں گے۔ رکن قومی اسمبلی ملک احمد حسین ڈیہڑ نے بھی رواں ہفتے وزیر اعلیٰ پنجاب سے ملاقات کی جس میں جنوبی پنجاب کے جاری ترقیاتی منصوبوں پر بات ہوئی ۔ وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ جنوبی پنجاب ہمارا وعدہ ہے اور حکومت اسے نبھائے گی۔ سیکرٹریٹ کے حوالے سے کوئی سازش کامیاب نہیں ہونے دی جائے گی ۔ وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ آئندہ بجٹ میں جنوبی پنجاب کے لیے ترقیاتی منصوبوں کی الگ اے ڈی پی بک بنائیں گے اور اس خطے کی 32 فیصد آبادی کے لیے وسائل فراہم کیے جائیں گے۔
پی ڈی ایم کے ٹوٹتے ہی پیپلز پارٹی اچانک بہت پر امید ہوگئی ہے اور آئندہ انتخابات میں پنجاب میں کامیابی کے دعوے کیے جارہے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل پیپلز پارٹی کے لیے پنجاب میں مشکل حالات تھے لیکن پیپلز پارٹی نے پی ڈی ایم کی سیاست سے بھر پور فائدہ اٹھایا ، جنوبی پنجاب میں اپنے بکھرے کارکنوں کو اکھٹا کیا ،کمزور ونگز کو مضبوط کیا جس سے صورتحال بد ل گئی ۔ سید یوسف رضا گیلانی کے سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر بننے سے پیپلز پارٹی کی ساکھ قدرے بہتر ہوئی ہے ۔ پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب کے صدر مخدوم احمد محمود نے بلاول ہائوس ملتان میں ایک بھر پور پریس کانفرنس کی ، انہوں نے اس موقع پر دعویٰ کیا کہ پیپلز پارٹی آئندہ انتخابات میں جنوبی پنجاب میں بھر پور کامیابی حاصل کرے گی اور کارکنوں کو منظم کرنے کے ساتھ ساتھ تنظیم سازی کا عمل تیز کیا جائے گا۔ مخدوم احمد محمود کو سید یوسف رضا گیلانی پیپلز پارٹی میں لائے تھے ۔ انہوں نے اس جماعت میں آکر مشکل حالات میں پارٹی اور سید یوسف رضا گیلانی کا ساتھ نبھا یا، اب انہیں جہانگیر خان ترین کو پارٹی میں لانے کا ٹاسک دیا گیا ہے ،دیکھنا ہے کہ وہ اس میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں۔