شب قدر ، عبادت کی رات رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتیں اللہ کا بہت بڑا انعام ہیں

تحریر : مفتی منیر احمد


گھر کی خواتین کو بھی عبادت کرنے کی ترغیب دینی چاہیے اور گھر میں بھی عبادت کا ماحول بنانا چاہیے

رمضان المبارک کے آخری عشرے کی تین بڑی فضیلتیں ہیں۔

(1) قرآن کا نزول(2) شب قدر(3)اعتکاف

شب قدر جیسے کہ احادیث میں ثابت ہے کہ آخری عشرے میں ہوتی ہے ، لہٰذا آخری عشرہ بقیہ دونوں عشروں سے افضل ہے، ایک اور فضیلت نزول قرآن کی ہے ۔یہ عشرہ جہنم سے آزادی کا ہے ، جہنم میں لے جانے والے اعمال سے بہت اجتناب کیا جائے ، اب تک غفلت کی اور گناہ نہیں چھوڑے تو اب چھوڑ دینا چاہیئں۔جو اعمال پہلے دو عشروں کے ہیں وہی اس آخری عشرہ کے بھی ہیں البتہ اس آخری عشرہ میں پہلے سے بہت زیادہ محنت اور مجاہدہ کرنا چاہیے(تعلیم الدین)۔حضور اکرم ؐ کا معمول تھاکہ جب رمضان کا آخری عشرہ شروع ہوتا تو رات کا بیشتر حصہ جاگ کر گزارتے اور اپنے گھروالوں کو بھی بیدار کرتے اور (عبادت میں ) خوب محنت کرتے اور کمر کس لیتے۔(مسلم)

حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ حضور اکرمؐ آخری عشرہ میں جتنی محنت کرتے تھے اور دنوں میں اتنی محنت نہیں کرتے تھے۔(مسلم)

رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتیں اللہ کا بہت بڑا انعام ہے۔ اعتکاف کی بڑی غرض شب قدر کی تلاش بھی ہے اور حقیقت میں اعتکاف اس کے لئے بہت ہی مناسب ہے کہ اعتکاف کی حالت میں اگر آدمی سوتا ہوا بھی ہو تب بھی عبادت میں شمار ہوتا ہے ۔ شب قدر کی فضیلت کے بیان کیلئے قرآن مجید میں ایک پوری سورہ ہے ۔ اسی رات میں فرشتوں کی پیدائش ہوئی، اسی رات میں آدم علیہ اسلام کا مادہ جمع ہونا شروع ہوا (مظاہر حق)، اسی رات میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمانوں پر اٹھا لیا گیا(درمنثور)، اسی رات میں بنی اسرائیل کی توبہ قبول ہوئی۔ 

جو شخص لیلتہ القدر میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے (عبادت کے لئے) کھڑا ہوا اس کے پچھلے تمام (صغیرہ) گناہ معاف کردیئے جائیں گے۔(بخاری)

ایک مرتبہ رمضان المبارک کا مہینہ آیا تو حضورؐ نے فرمایا ’’تمہارے اوپر ایک مہینہ آیا ہے جس میں ایک رات ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے جو شخص اس رات سے محروم رہ گیا گویا ساری ہی خیر سے محروم رہ گیا اور اس کی بھلائی سے محروم نہیں رہتا مگر وہ شخص جو حقیقتاً محروم ہی ہے‘‘۔(ابن ماجہ)

بعض صحابہ کرامؓ کاخیال ہے کہ شب قدر رمضان کی ستائیسویں ہی میں ہوتی ہے ۔(معارف الحدیث)

بہرحال ہر شخص کو اپنی ہمت اور وسعت کے موافق تمام سال شب قدر کی تلاش میں کوشش کرنا چاہیے (کیونکہ بعض صحابہ جیسے ابن مسعود ؓ کے نزدیک شب قدر تمام سال میں کسی رات بھی ہو سکتی ہے)۔ آخری عشرے کی طاق راتوں کو ہاتھ سے نہ جانے دینا چاہیے ، اگر خدانخواستہ یہ بھی نہ ہوسکے تو ستائیسویں شب کو بہر حال غنیمت سمجھنا چاہیے کہ اگر تائید ایزدی شامل حال ہے اور کسی خوش نصیب کو میسر ہوجائے تو پھر تمام دنیا کی نعمتیں اور راحتیں اس کے مقابلے میں ہیچ ہیں۔ کوشش کرے کہ اس رات کی دو نمازیں مغرب اور عشاخاص اہتمام کے ساتھ باجماعت ادا کرے، ویسے تو سارا سال ہی تمام نمازیں باجماعت ادا کرنی چاہییں لیکن اس رات یہ دو نمازیں ضرور باجماعت ادا کرے۔(فضائل رمضان)

جس شخص نے عشاء کی نماز باجماعت پڑھی گویا ا س نے آدھی رات عبادت کی اور جو فجر کی نماز بھی جماعت کے ساتھ پڑھ لے گویا اس نے پوری رات عبادت کی۔(مسلم)

شب قدر کی صبح کو جب سورج نکلتا ہے تو اس کی شعاع نہیں ہوتی ۔(مسلم)

اس رات کی منجملہ اور علامتوں میں سے یہ ہے کہ وہ رات کھلی ہوئی چمکدار ہوتی ہے ، صاف شفاف نہ زیادہ گرم نہ زیادہ ٹھنڈی، بلکہ معتدل گویا کہ اس میں (انوار کی کثرت کی وجہ سے) چاند کھلا ہوا ہے ، اس رات میں صبح تک آسمان کے ستارے شیاطین کو نہیں مارے جاتے نیز اس کی علامتوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس کے بعد کی صبح کو آفتاب بغیر شعاع کے طلوع ہوتا ہے ، ایساجیسا بالکل ہموار ٹکیہ کی طرح ہوتا ہے جیسا کہ چودہویں رات کا چاند۔اللہ تعالیٰ نے اس دن کے آفتاب کے طلوع کے وقت شیطان کو اس کے ساتھ نکلنے سے روک دیا۔ جب شب قدر ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ حضرت جبرائیل ؑ کو حکم فرماتے ہیں وہ فرشتوں کے ایک بڑے لشکر کے ساتھ زمین پر اترتے ہیںان کے ساتھ ایک سبز جھنڈا ہوتا ہے جس کو کعبہ کے اوپر کھڑا کرتے ہیں اور حضرت جبرائیل ؑ کے سو بازوہیں جن میں سے دو بازو کو صرف اسی رات کھولتے ہیںجن کو مشرق سے مغرب تک پھیلا دیتے ہیں پھر حضرت جبرائیل فرشتوں کو تقاضا فرماتے  ہیں کہ جو مسلمان آج رات کھڑا ہو یا بیٹھا ہو نماز پڑھ رہا ہو یا ذکر کررہا ہو اس کو سلام کریں اور مصافحہ کریں اور ان کی دعائوں پر آمین کہیں ، صبح تک یہی حالت رہتی ہے ۔ فرشتے حضرت جبرائیل ؑ سے پوچھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد مصطفی ﷺ کی امت کے مومنوں کی حاجتوں اور ضرور تو ں میں کیا معاملہ فرمایا ،وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر توجہ فرمائی اور چار شخصوں کے علاوہ سب کو معاف فرما دیا۔ صحابہ کرام ؓنے پوچھا کہ یارسولؐ للہ وہ چار شخص کون ہیں ۔ ارشاد ہوا کہ ’’ ایک وہ شخص جو شراب کا عادی ہو، دوسرا وہ شخص جو والدین کی نافرمانی کرنے والا ہو، تیسرا وہ شخص جو قطع رحمی کرنے والا اور ناطہ توڑنے والا ہو، چوتھا وہ شخص جو کینہ رکھنے والا ہو اور آپس میں قطع تعلق کرنے والا ہو‘‘۔(فضائل رمضان)

  اکثر لوگ پوچھتے ہیں کہ شب قدرمیںکیا عبادت کریں اس کا جواب یہ ہے کہ دن کو تو زیادہ تلاوت میں صرف کرے ، تدبر سے تلاوت کرے اور اگر تجوید نہ آتی ہو تو کم از کم بقدر ضرورت اس کو سیکھ لے اور رات کو بھی حق تلاوت ادا کرے اور لیلتہ القدر میںزیادہ جاگے، کچھ تلاوت میں کچھ نوافل میں مشغول رہے۔ (خطبات تھانوی)۔ جو رات میں دس آیتوں کی تلاوت کرے وہ اس رات اللہ تعالیٰ کی عبادت سے غافل رہنے والوں میں شمار نہیں ہوگا۔(مستدرک حاکم)  

جو شخص رات میں سو آیتوں کی تلاوت کرے وہ اس رات عبادت گزاروں میں شمار کیاجائے گا۔(مستدرک حاکم)

بعض لوگ خاص مواقع پر عبادت کا خوب اہتمام کرتے ہیں مگر گناہوں سے بچنے بچانے کا اہتمام نہیں کرتے، بلکہ آج کل کے مسلمانوں نے بہت سے کبائر کو گناہوں کی فہرست سے ہی نکال دیا ہے ۔ جیسے غیبت کرنا ، جھوٹ بولنا، ڈاڑھی منڈانا،گانا بجانا وغیرہ جب تک ان کبائر سے بچنے بچانے کا اہتمام نہ کیا جائے نفل عبادت خواہ کتنی زیادہ کی جائے ، نجات کے لئے کافی نہیں ۔ بعض لوگ پوری رات نفل نماز پڑھنے ہی کو ضروری سمجھتے ہیں اور بعض تو اس سے بڑھ کر بعض مخصوص سورتوں کے ساتھ خاص انداز سے نماز پڑھنا ضروری خیال کرتے ہیں ، اس رات میں کسی خاص قسم کی عبادت کی تعیین نہیں، نفل نماز پڑھیں ، تلاوت کریں، درود شریف پڑھیں، ذکراللہ کریں، دعا مانگیںیا قلب کو اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ کرکے اس کے احسانات ، انعامات ، عظمت اور شان کو دلوں میں اتارنے اور بڑھانے کی کوشش کریں۔ یہ سب عبادت میں داخل ہے ۔ مساجد کے ساتھ ساتھ گھروں کوبھی ذکر و عبادت سے آباد رکھنے کا حکم ہے ۔گھر کی خواتین کو بھی عبادت کرنے کی ترغیب دینی چاہیے اور گھر میں بھی عبادت کا ماحول بنانا چاہیے ۔ بعض لوگ اس رات کو نفلی عبادت تو کرتے ہیں لیکن فجر کی نماز قضا کردیتے ہیں ۔ یہ بہت بڑی غلطی ہے کہ نفل کی خاطر فرض یا واجب کو چھوڑ دیا جائے یا اس میں کوتاہی کی جائے۔ جب نفلی عبادت سے تھکاوٹ ہوجائے یا نیند کا غلبہ ہو اور دلجمعی نہ رہے جس سے زبان سے کچھ کا کچھ نکلنے کا اندیشہ ہو تو سو جائیں ، اور نماز فجر کی نماز یا جماعت میں ہرگز کوتاہی نہ کریں۔ اس سے یہ مطلب نہ نکال لیا جائے کہ شب قدر کو تھکاوٹ کی وجہ سے سو جائیںنہیں اس شب جاگنے کا خصوصی اہتمام کریں۔اور ایسے افعال دن میں نہ کریں کہ رات کو نیند یا تھکاوٹ کا غلبہ ہو۔بات یہ ہے کہ اس شب کا خصوصی اہتمام کریں۔ اصل چیز یہ ہے کہ دل میں اللہ کی محبت پیدا کرنے کی کوشش کی جائے ، محبت پیدا ہوجائے تو ایک نہیں ہزار راتیں عبادت میں گزاری جاسکتی ہیں ۔  

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

آخرت کی زندگی!

قرآن کریم اﷲجل شانہ کی آخری کتاب ہے جو سراپا حق ہے زندگی موت مابعد الموت، زندگی سے پہلے کیا تھا۔ اس زندگی کے بعد کیا ہوگا؟ تمام حقائق کو بڑے واضح آسان اور دل نشیںانداز میں بیان فرماتی ہے، حتمی اور یقینی بات کرتی ہے، جس میں ادنیٰ سا شبہ بھی نہیں۔

اسلام میں یتیموں کے حقوق

’’یتیم‘‘ اُس نابالغ بچے یا بچی کو کہا جاتا ہے کہ جس کے سر پرسے اُس کے باپ کا سایہ اُٹھ گیا ہو۔ اسلام نے مسلمانوں کو یتیم بچوں کے حقوق ادا کرنے اور اُن کے حقوق کی نگہبانی کرنے کی بڑی سختی سے تاکید کی ہے۔ یتیم بچوں کو اپنی آغوش محبت میں لے کر اُن سے پیار کرنا، اُن کو والد کی طرف سے میراث میں ملنے والے مال و اسباب کی حفاظت کرنا، اُن کی تعلیم و تربیت کی فکر کرنا، سن شعور کو پہنچنے کے بعد اُن کے مال و اسباب کا اُن کے حوالے کرنا اور انہیں اِس کا مالک بنانا اور بالغ ہونے کے بعد اُن کی شادی بیاہ کی مناسب فکر کرکے کسی اچھی جگہ اُن کا رشتہ طے کرنا، اسلام کی وہ زرّیں اور روشن تعلیمات ہیں جن کا اُس نے ہر ایک مسلمان شخص کو پابند بنایا ہے۔

سید الشہداء سیدنا حضرت امیر حمزہ ؓ

سید الشہداء سیدنا حضرت امیر حمزہ اسلام کے ان جانثاروں میں سے ہیں جن کی خدمات مینارہ نور اور روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔ جب تک آپؓ حیات رہے آپؓ نے عملی طور پر سرکاردوعالمﷺ کے نائب کا کردار ادا فرمایا۔ غزوہ احد وبدر میں آپؓ اسلامی لشکر کے سالار رہے۔ بعثت کے چھٹے سال سے لے کر 3ہجری تک،اعلان اسلام سے لے کر غزوہ احد میں سید الشہداء کا بلند مقام ملنے تک آپؓ کی پوری حیات مستعار حفاظت مصطفی کریم ﷺ میں بسر ہوئی۔

مسائل اور ان کا حل

باجماعت نماز میں امام کی قرات میں مختلف آیات کا جواب دینے کی شرعی حیثیت سوال :امام صاحب اگرباجماعت نمازمیں اگرایسی آیات تلاوت کریں جس میں دعا کا ذکر ہویااللہ تعالیٰ کی کبریائی بیان ہویاجس میں عذاب الٰہی کا ذکرہواورمقتدی دعاکی صورت میں ’’آمین، سبحان اللہ، یا اعوذ باللہ‘‘ دل میں کہے ،کیاایساکرناجائزہے؟

حکومتی اعتماد میں اضافے کے دلائل

21 اپریل کے ضمنی انتخابات کے بعد حکومت کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ 8 فروری کے انتخابات کے بعد جب مسلم لیگ (ن) اور اس کے اتحادیوں کی حکومت قائم ہو ئی تو شہباز شریف کو ووٹ دینے والوں کو شبہ تھا کہ یہ حکومت زیادہ عرصہ نہیں چل پائے گی کیونکہ مشکل فیصلے کرنے ہوں گے ، معیشت سنبھالنا انتہائی کٹھن ہو گا، بانی پی ٹی آئی کی مقبولیت حکومت کیلئے مسلسل درد سر رہے گی، یہی وجہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے شہباز شریف کو وزارت عظمیٰ کا ووٹ تو دیا مگر اہم ترین اتحادی جماعت وفاقی کابینہ کا حصہ نہیں بنی۔

ضمنی انتخابات کا معرکہ(ن) لیگ نے سر کر لیا

ضمنی انتخابات کے حوالے سے عمومی رائے یہ رہی ہے کہ ان میں حکمران جماعت کو فائدہ ملتا ہے مگر 2018ء کے بعد اس تاثر کو دھچکا لگا ۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اپوزیشن جماعتیں اپنے ووٹرز میں تحریک پیدا کرکے انہیں پولنگ سٹیشنز تک لے آتی تھیں،مگر حالیہ ضمنی انتخابات میں حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) نے ضمنی انتخابات کا معرکہ سر کر لیا۔