فیضان عید
کرم بالائے کرم ہے کہ اللہ نے ہمیں رمضان کے فوراً بعد عید الفطر کی نعمت عظمیٰ سے سرفراز فرمایا زندگی کا بہترین دستور العمل (قرآن ) پاکر اور ایک مہینے کے سخت امتحان میں کامیاب ہوکر مسلمان کا خوش ہونا فطری بات ہے
رمضان المبارک رحمت و مغفرت اور جہنم سے آزادی کا مہینہ ہے ، لہٰذا س رحمت ، مغفرت اور دوزخ سے آزادی کے انعامات کی خوشی میں ہمیں عید سعید کی خوشی منانے کا موقع فراہم کیا جاتاہے ۔ عید الفطر کے روز خوشی کا اظہار کرنا سنت ہے لہٰذا ادائے سنت کی نیت سے ہمیں بھی اللہ عزوجل کے فضل ورحمت پر ضروراظہار مسرت کرنا چاہیے کہ اللہ عزوجل کے فضل ورحمت پر خوشی کرنے کی ترغیب تو ہمیں خود اللہ عزوجل کاسچا کلا م بھی دے رہا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہوتاہے۔ترجمہ کنزالایمان :’’ تم فرمائو اللہ ہی کے فضل اور اسی کی رحمت ، اسی پر چاہیے کہ خوشی کریں۔‘‘ ( پ 11سورۃ یونس آیت 58)
دیکھئے نا ! جب کوئی ملک کسی ظالم حکومت کے چنگل سے آزادی پاتا ہے تو ہر سال اسی ماہ کی اسی تاریخ کو اس کی یادگار کے طور پر منایا جاتا ہے نیز جب کوئی طالبعلم امتحان میں کامیاب ہوتاہے تو وہ کس قدر خوش ہوتا ہے۔ ماہ رمضان المبارک کی برکتوں اوررحمتوں کے تو کیا کہنے ! یہ تو وہ عظیم الشان مہینہ ہے ۔ جس میں بنی نوع انسان کی فلاح و بہبودی، اصلاح وترقی اور نجات اخروی کیلئے ایک ’’خدائی قانون ‘‘یعنی قرآن نازل ہوا۔ یہ وہ مہینہ ہے جس میں ہر مسلمان کی حرارت ایمان کا امتحان لیا جاتا ہے ۔ پس زندگی کا ایک بہترین دستور العمل پاکر اور ایک مہینہ کے سخت امتحان میں کامیاب ہوکر ایک مسلمان کا خوش ہونا فطری بات ہے۔
اللہ عزوجل کا کرم بالائے کرم ہے کہ اس نے ماہ رمضان المبارک کے بعد فوراً ہی عید الفطر کی نعمت عظمیٰ سے ہمیں سرفراز فرمایا۔ اس عید سعید کی بے حد فضیلت ہے ۔ چنانچہ ایک طویل حدیث میں جسے حضرت عبداللہ ابن عباس ؓنے روایت کیا ہے کہ ’’جب عید الفطر کی مبارک رات آتی ہے تو اسے’’ لیلۃ الجائزہ‘‘ یعنی ’’انعام کی رات‘‘ کے نام سے پکارا جاتاہے۔ جب عید کی صبح ہوتی ہے تو اللہ اپنے معصوم فرشتوں کو تمام شہروں میں بھیجتا ہے، چنانچہ وہ فرشتے زمین پر تشریف لاکر سب گلیوں اور راہوں کے سروں پر کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ اور اس طرح ندا دیتے ہیں۔ ’’ اے امت محمد! ﷺ اس رب کریم کی بارگاہ کی طرف چلو! جو بہت ہی زیادہ عطا کرنے و الا اور بڑے سے بڑا گناہ معاف فرمانے والا ہے‘‘۔پھر اللہ اپنے بندوں سے اس طرح مخاطب ہوتاہے:’’اے میرے بندو! مانگو کیا مانگتے ہو؟ میری عزت وجلال کی قسم ! آج کے روز اس (نماز عیدکے ) اجتماع میں اپنی آخرت کے بارے میں جو کچھ سوال کرو گے وہ پورا کروں گا اور جو کچھ دنیا کے بارے میں مانگوگے اس میں تمہاری بھلائی کی طرف نظر فرمائوں گا۔( یعنی اس معاملہ میں وہ کروں گا جس میں تمہاری بہتری ہو۔) میری عزت کی قسم ! جب تک تم میرا لحاظ رکھوگے میں بھی تمہاری خطائوں پر پردہ پوشی فرماتا رہوں گا میری عزت وجلال کی قسم ! میں تمہیں حد سے بڑھنے والوں (یعنی مجرموں ) کے ساتھ رسوا نہ کروں گا۔ بس اپنے گھروں کی طرف مغفرت یافتہ لو ٹ جائو۔ تم نے مجھے راضی کردیا اورمیں بھی تم سے راضی ہوگیا ۔ ‘‘ (الترغیب و الترھیب ج 2 ص30)
سبحان اللہ !خدائے رحمن ہم گنہگاروں پر کس قدر مہربان ہے۔ ایک تو رمضان المبارک میں سار امہینہ و ہ ہم پر اپنی رحمتیں نا زل فرماتاہے پھر جونہی یہ مہینہ ہم سے جدا ہوتا ہے فوراً ہمیں عید سعید کی خوشیاں عطا فرماتاہے۔چنانچہ تاجدار مدینہ ﷺ کا فرمان عالی شان ہے ’’جس نے عیدین کی رات (یعنی شب عید الفطر،اورشب عید الاضحی طلب ثواب کیلئے) قیام کیا ، اس دن اس کا دل نہیں مرے گا، جس دن لوگوں کے دل مرجائیں گے۔‘‘ ( ابن ماجہ ج 2 ص 365)
حضرت عبداللہ ابن عباس ؓکی روایت کردہ طویل حدیث پاک(جو آگے گزری ہے) میں یہ بھی مضمون ہے کہ عید کے روز معصوم فرشتے اللہ کی عطائوں اور بخششوں کا اعلان کرتے ہیں اور اللہ خود بھی بے حد کرم فرماتاہے اور ماہ رمضان المبارک میں عبادت کرنے والے تمام مسلمانوں بھائیوں اور مسلمان بہنوں کی مغفرت فرما دیتاہے۔ گویا عام معافی کا اعلان کردیا جاتاہے۔ مزید برآں اس کی طرف سے یہ بھی فرمایا جاتاہے کہ جسے جو کچھ دنیا اور آخرت کی خیر مانگنی ہے وہ سوال کرے، اس پر ضرور کرم کیا جائے گا۔