علامہ اقبال کا خطبہ عید الفطر

تحریر : روزنامہ دنیا


9 فروری 1932ء کو عید الفطر کے موقع پر علامہ اقبال نے بادشاہی مسجد لاہور میں خطبہ دیا۔ لاؤڈ سپیکر کا انتظام تھا۔ذیل میں اس کی مکمل تفصیل شائع کی جا رہی ہے۔’’ملّتِ اسلامیہ!قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے، رمضان کا مہینہ جس میں قرآن اُترا،لوگوں کیلئے ہدایت اور رہنمائی اور فیصلے کی روشن باتیں،تو تم میں جو کوئی یہ مہینہ پائے ضرور اس کے روزے رکھے۔یہی ارشادِ خداوندی ہے جس کی تعمیل میں آپ نے ماہِ رمضان کے پورے مہینے روزے رکھے اور اس اطاعت ِ الٰہی کی توفیق پانے کی خوشی میں آج بحیثیت قوم خدا تعالیٰ کی بارگاہ میں سجدہ شکر بجا لانے کیلئے جمع ہوئے ۔

بے شک مسلم کی عید اور اُس کی خوشی اگر کچھ ہے تو یہ کہ وہ اطاعت ِ حق یعنی عبدیت کے فرائض کی بجاآوری میں پورا نکلے۔ اور قومیں بھی خوشی کے تہوار مناتی ہیں مگر سوائے مسلمانوں کے اور کون سی قوم ہے جو خدائے پاک کی فرمانبرداری میں پورا اترنے کی عید مناتی ہو۔مؤرخین کے بیان کے مطابق سنہ 2ہجری میں رمضان کے روزے فرض ہوئے۔ صدقہ عیدالفطر کا حکم بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی سال جاری فرمایا۔ حضورپاک ﷺ نے پہلے ایک خطبہ دیا، جس میں اس صدقے کے فضائل بیان فرمائے۔ عیدالفطر کی نماز باجماعت عیدگاہ میں اسی سال ادا فرمائی۔ 

اسلام کے ارکان یعنی توحید، نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ جب نبی اُمّی کی زبانِ پاک سے خالقِ اکبر نے بندوں کی اصلاح و فلاح کیلئے ہدایت فرمائے تو مقصود یہ تھا کہ ان کی پابندی سے مسلم بحیثیت فرد وہ انسان بن سکے جسے وحی خداوندی احسن التقویم کے نام سے تعبیر کرتی ہے اور ملّتِ اسلامیہ وہ ملّت بن جائے، جو قرآن پا ک کے الفاظ کے مطابق دنیا کی بہترین امت ہو اور اپنے تمام معاملات میں اعتدال اور میانہ روی کے اصول کو سامنے رکھنے والی ہو۔ اسلام کا ہر رکن انسانی زندگی کی صحیح نشوونما کیلئے اپنے اندر ہزارہا ظاہری اور باطنی مصلحتیں رکھتا ہے۔ مجھے اس وقت صرف اسی ایک رُکن کی حقیقت کے متعلق آپ سے دو ایک باتیں کہنی ہیں جسے صوم کہتے ہیں اور جس کی پابندی کی توفیق کے شکرانے میں آج آپ عید منا رہے ہیں۔روزے پہلی اُمتوں پر بھی فرض تھے گو اُن کی تعداد وہ نہ ہو جو ہمارے روزوں کی ہے اور فرض اس لیے قرار دئیے گئے کہ انسان پرہیز گاری کی راہ اختیار کرے۔ گویا روزہ انسان کو پرہیزگاری کی راہ پر چلاتا ہے۔ اس سے جسم اور جان دونوں تزکیہ پاتے ہیں۔ یہ خیال کہ روزہ ایک انفرادی عبادت ہے، صحیح نہیں بلکہ ظاہر و باطن کی صفائی کا یہ طریق، یہ ضبطِ نفس، یہ حیوانی خواہشوں کو اپنے بس میں رکھنے کا نظام اپنے اندر ملّت کی تمام اقتصادی اور معاشرتی زندگی کی اصلاح کے مقاصد پوشیدہ رکھتا ہے۔

آج کی عید عیدالفطر کہلاتی ہے۔ پیغمبرِ خدا ؐ نے جب عید کیلئے عیدگاہ میں اکٹھا ہونے کا حکم دیا تو ساتھ ہی صدقہ عید الفطر ادا کرنے کا حکم بھی دیا۔ عید کا دن مقرر کرنے کی اصل غرض ہی شارع ﷺ کے نزدیک صدقہ عیدالفطر کا جاری کرنا ہے۔ حق یہ ہے کہ زکوٰۃ اور اصولِ تقسیمِ وراثت کے بعد تیسرا طریق اقتصادی اور معاشرتی مساوات قائم کرنے کا جو اسلام نے تجویز کیا ،صدقات کا تھا اور ان صدقات میں سب سے بڑھ کر صدقہ فطر کاہے۔ اس لیے کہ یہ صدقہ ایک مقررہ دن پر تمام قوم کو ادا کرنا ہوتا ہے۔رمضان کا مہینہ آپ نے اِس اہتمام سے بسر کیا ہے کہ کھانے پینے کے اوقات کی پابندی سیکھ لی، اپنی صحت درست کر لی۔ آئندہ 11مہینے کئی بیماریوں سے محفوظ رہنے کے قابل اپنے آپ کو بنا لیا۔ کفایت شعاری سیکھی، رزق کی قدر و قیمت سیکھی۔ یہ سب ذاتی فائدے تھے صیام کا قومی اور ملّی فائدہ یہ ہے کہ صاحبِ توفیق مسلمانوں کے دل میں اپنی قوم کے مفلس اور محروم افراد کی عملی ہمدردی کا جذبہ پیدا ہو اور صدقہ فطر ادا کرنے سے قوم میں اقتصادی اور معاشرتی مساوات قائم ہو۔

حکم یہ ہے کہ عیدکی نماز میں شرکت سے پہلے ہر صاحبِ توفیق مسلمان صدقۂ فطر ادا کر کے عیدگاہ میں آئے۔ اس سے مقصود یہ نہیں کہ اقتصادی اورمعاشرتی مساوات صرف ایک آدھ دن کیلئے قائم ہو جائے بلکہ ایک مہینہ کا متواتر ضبطِ نفس تم کو اِس لیے سکھایا گیا ہے کہ تم اس اقتصادی اور معاشرتی مساوات کو قائم رکھنے کی کوشش تمام سال کرتے رہو۔باقی رہا یہ امر کہ روزے ماہِ رمضان کے ساتھ ہی کیوں مختص کیے جائیں  سو واضح رہنا چاہیے کہ اسلام نے انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے اسرار کو مدِ نظر رکھ کرصیام کے زمانی تسلسل کو ضروری سمجھا ہے۔ اس تسلسل کیلئے وقت کی تعیین لازم تھی اور چونکہ اسلام کا اصلی مقصود انسانوں کو احکامِ الٰہی کی فرمانبرداری میں پختہ کرنا تھا، اس لیے صیام کو اِس مہینے کے ساتھ مختص کیا گیا جس میں احکامِ الٰہی کا نزول شروع ہوا تھا۔

بالفاظِ دیگر یوں کہو کہ مسلمانوں کو ہر سال پورا مہینے کامل تزکیہ نفس کے ساتھ نزولِ قرآنِ حکیم کی سالگرہ منانے کا حکم دیا گیا ہے تاکہ احکامِ الٰہی کی حرمت و تقدیس ہمیشہ مدِّنظر رہے ۔اصل بات قوم کی اقتصادی اور تمدّنی زندگی کی مجموعی اصلاح کے متعلق تھی۔وہاں ساتھ ہی ملحق بطور ان تمام کے نتیجہ کے یہ حکم بھی دیا:’’اور آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ اور نہ حاکموں کے پاس انکا مقدمہ اس لیے پہنچاؤ کہ لوگوں کا کچھ مال ناجائز طور پر کھا لو جان بوجھ کر‘‘۔

روزہ رکھ کر مفلسوں سے محض ہمدردی کا احساس پیدا کر لینا کافی نہ تھا۔ عید کے دن غربا ء کو دو چار دن کا کھانا دے دینا کافی نہ تھا۔ طریق وہ اختیار کرنا مقصود تھا جس سے مستقل طور پر دنیاوی مال و متاع سے حہاں تقسیمِ وراثت اور زکوٰۃ سے ملّتِ اسلامیہ کے مال و متاع میں مساوات پیدا ہو، وہاں اس مساوات میں ایک دوسرے کے اموال میں ناجائز تصرّف سے کسی قسم کا خلل نہ آئے۔ 

 باطل طریق پر دوسروں کا مال کھانے کی بدترین روش قرآن کے نزدیک یہ ہے کہ مال و دولت کے ذریعے حکام تک رسائی حاصل کی جائے اور ان کو رشوتوں سے اپنا طرفدار بنا کر اوروں کے مالوں کو اپنے قبضے میں لایا جائے۔

مہینہ بھر روزے رکھنے کی آخری غرض یہ تھی کہ آئندہ تمام سال اس طرح ایک دوسرے کے ہمدرد اور بھائی بن کر رہو کہ اگر اپنا مال ایک دوسرے کو بانٹ کر نہیں دے سکتے تو کم سے کم ’’حکام‘‘ کے پاس کوئی مالی مقدمہ اس قسم کا نہ لے کر جاؤ جس میں اُن کو رشوت دے کر حق و انصاف کے خلاف دوسروں کے مال پر قبضہ کرنا مقصود ہو۔آج کے دن سے تمہارا عہد ہونا چاہئے کہ قوم کی اقتصادی اور معاشرتی اصلاح کی جو غرض قرآن حکیم نے اپنے ان احکام میں قرار دی ہے، اُس کو تم ہمیشہ مدّنظر رکھو گے۔

مسلمانانِ پنجاب اس وقت تقریباً سوا ارب روپے کے قرض میں مبتلا ہیں اور اس پر ہر سال تقریباً 14 کروڑ روپیہ سُود ادا کرتے ہیں۔ کیا اس قرض اور اس سود سے نجات کی کوئی سبیل سوائے اس کے ہے کہ تم احکامِ خداوندی کی طرف رجوع کرو، اور مالی اور اقتصادی غلامی سے اپنے آپ کو رہا کراؤ؟تم اگر آج فضول خرچی چھوڑنے کے علاوہ مال اور جائیداد کے جھوٹے اور بلاضرورت مقدمے عدالتوں میں لے جانا چھوڑ دو تو میں دعوے سے کہتا ہوں کہ چند سال کے اندر تمہارے قرض کا کثیر حصہ از خود کم ہو جائے گا اور تم تھوڑی مدّت کے اندر قرض کی غلامی سے اپنے آپ کو آزاد کر لو گے۔ نہ صرف یہ کہ مالی مقدمات کا تَرک تمہیں اِس قابل بنا دے گا کہ تم وہی روپیہ جو مقدموں اور رشوتوں اور وکیلوں کی فیسوں میں برباد کرتے ہو اسی سے اپنی تجارت اور اپنی صنعت کو فروغ دے سکو گے۔

 کیا اب بھی تم کو رجوع الی القرآن کی ضرورت محسوس نہ ہو گی اور تم عہد نہ کر لو گے کہ تمام دنیاوی امور میں شرعِ قرآنی کے پابند ہو جاؤ گے؟کس انتباہ کے ساتھ رسولِ پاکﷺ نے مسلمانوں کو پکار کر کہا تھا کہ ’’دیکھو قرض سے بچنا۔ قرض رات کا اندوہ اور دن کی خواری ہے۔‘‘

میں نے اِس خطبے میں مسلمانوں کی معاشرتی زندگی کے صرف اقتصادی پہلو ہی پر نظر ڈالی ہے۔ شاید عیدالاضحیٰ کے موقع پر اسی قسم کے ایک اور خطبے میں اسلامی زندگی کے ایک اور اہم پہلو پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی جائے گی۔فی الحال میں حضور سرورِ کائنات ﷺکی ایک حدیث پر اِس خطبے کو ختم کرتا ہوں جو ایک نہایت لطیف پیرائے میں رشد و ہدایت کی تمام شاہ راہوں کو انسان پر کھول دیتی ہے،’’مجھے میرے ربّ نے 9 باتوں کا حکم دیا ہے۔ ظاہر و باطن میں اخلاص پر کاربند رہنا۔ غضب و رضا دونوں حالتوں میں انصاف کو ہاتھ سے نہ دینا۔ فقر و تونگری میں میانہ روی۔ جو شخص مجھ پر زیادتی کرے اُس کو معاف کر دوں۔ جو مجھ سے قطعِ رحم کرے میں اُس سے صلہ رحم کروں۔ جو مجھے محروم کرے میں اُس کو اپنے پاس سے دُوں۔ میرا بولنا ذکرِ الٰہی کیلئے ہو۔ میری خاموشی غور و فکر کیلئے ہو، اور میرا دیکھنا عبرت کیلئے ہو۔‘‘

(علامہ اقبال ؒکا یہ خطبہ 1350ھ / 1932ء کی عید الفطر کے موقع پر انجمن اسلامیہ پنجاب لاہور نے فیروز پرنٹنگ ورکس لاہور سے پمفلٹ کی صورت میں تقسیم کرایا تھا)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

با با ناظر اور بونے

بابا ناظر ایک بوڑھا موچی تھا جو سارا دن سخت محنت کر کے جوتے بنایا کرتا تھا۔ایک بار سردیاں آئیں تو بابا ناظر ٹھنڈ لگ جانے کے باعث بیمار پڑ گیا۔اس کی بیماری اس قدر بڑھ گئی کہ وہ کوئی کام کرنے کے قابل نہیں رہا۔

کیمرا کیسے کام کرتا ہے؟

جو لوگ کیمرے سے تصویریں بناتے ہیں، ان میں سے اکثر لوگوں کو اس بات کا علم نہیں ہوتا کہ تصویر کھینچنے کا عمل کس طرح واقع ہوتا ہے۔

ذرامسکرائیے

اُستاد (شاگرد سے): ’’پنجاب کے پانچ دریائوں میں سے کوئی سے چار کے نام بتائو؟ شاگرد: ’’پہلے کا نام بتا کر،جناب دوسرا میں آپ سے پوچھنے والا تھا،تیسرا مجھے یاد نہیں اور چوتھا میری کتاب سے مِٹاہوا ہے‘‘۔٭٭٭

پہیلیاں

ایک بڈھے کے سر پر آگ گاتا ہے وہ ایسا راگ اس کے منہ سے نکلیں ناگجو تیزی سے جائیں بھاگ٭٭٭

ننھا گرمی سے گھبرایا

ننھا گرمی سے گھبرایا اُس دن شدت کی گرمی تھی دھوپ میں ہر اک شے جلتی تھی

حرف حرف موتی

٭…سچائی ایسی دوا ہے جس کی لذت کڑوی لیکن تاثیر شہد سے زیادہ میٹھی ہوتی ہے۔ ٭…سب سے زیادہ جاہل وہ ہے جو گناہ سے باخبر ہوتے ہوئے بھی گناہ کرے۔ ٭…عزت کمانا دولت کمانے سے زیادہ مشکل ہے جبکہ عزت گنوانا دولت گنوانے سے زیادہ آسان ہے۔