بھلائی

تحریر : سدرہ منیر


ایک دفعہ کا ذکر ہے ۔ایک بطخ دریا کے کنارے رہتی تھی ۔ وہ ہمیشہ بیمار رہتی تھی۔ ایک دن طبیعت زیادہ خراب ہو گئی ۔بندر نے اسے بتایا کہ تم جلد مر جاؤ گی۔ اسے یہ سن کر صدمہ ہوا کیونکہ اس کے انڈے سے جلد ہی بچہ نکلنے والا تھا، وہ پریشان ہو گئی کہ اگر مر گئی تو انڈے کا کیا ہو گا اور بچے کو کون سنبھالے گا۔ لہٰذا وہ اپنے دوستوں کے پاس گئی اور انہیں ساری کہانی سنائی ۔دوستوں نے مدد کرنے سے انکار کر دیا۔ بیچاری بطخ نے کافی منتیں کیں کہ لیکن کسی نے بچے کا ساتھ دینے کی بات نہ مانی ۔ بطخ کو خیال آیا کہ کیوں نہ میں اپنے بھائی مرغے کے پاس جاؤں ، وہ ضرور میری مدد کرے گا ، وہ مرغے کے پاس گئی ، اسے سارا قصہ سناکر منت کی کہ ’’آپ میرے بچے کے ماموں جیسے ہو، پلیز! آپ ہی بچے کو اپنا سایہ دینا‘‘۔

مرغا بولا !   ’’میں تمہارے بچے کو رکھ لیتا لیکن میری مرغی یہ بات نہیں مانے گی ۔ مجھے افسوس ہے ، میں کوئی مدد نہیں کر سکتا ، تم مجھے معاف کر دینا‘‘۔بطخ ادھر سے مایوس ہو کر اپنے دڑبے میں واپس آ گئی اور سوچنا شروع کر دیا کہ اب کیا کیا جائے۔ اچانک اس کے ذہن میں ایک ترکیب آئی اور اس نے موقع ڈھونڈ کر اپنا انڈا مرغی کے انڈوں میں رکھ دیا۔پھرخود ایک درخت کے کنارے بیٹھ گئی۔ اس کے بعد بطخ کی طبیعت ایسی بگڑی کہ اس کی موت واقع ہو گئی۔

جب انڈوں میں سے مرغی کے بچے باہر نکلے تو ان میں ایک بچہ بطخ کا بھی تھا۔ مرغا تو سب جا ن گیا تھا لیکن اس نے مرغی کو بتانا مناسب نہ سمجھا۔ مرغی نے کافی شور شرابہ کیا اور بولی : ’’میرے بچوں کے ساتھ بطخ کا بچہ نہیں رہے گا‘‘۔مرغے نے کافی سمجھایا لیکن مرغی نے اس کا کہنا نہیں مانا اور اپنے بچوں کو بطخ کے بچوں کے ساتھ کھیلنے کودنے سے منع کر دیا۔ دو چوزوں نے اپنی ماں کی بات نہ مانی اور وہ اپنے حصے میں سے کچھ بچا کر بطخ کے بچے کو بھی کھلادیتے تھے۔ مگر مرغی بطخ کے بچے کو دیکھنا بھی پسند نہیں کرتی تھی۔

ایک دن مرغی نے کہا کہ ’’ہم سب مل کرسیر کے لئے  دریا کے کنارے پر جائیں گے اور واپسی پر بطخ کے بچے کو وہیں چھوڑ آئیں گے۔ اس طرح سے جان چھوٹ جائے گی‘‘۔

 وہ سب سیر کو نکلے۔ وہاں پہنچتے ہی ایک چوزہ دریا کے کنارے چلا گیا اور تیز پانی میں ڈوبنے لگا۔ یہ دیکھ کر مرغی زور زور سے چیخنے چلانے لگی چونکہ بطخ کے بچے کو تیرنا آتا تھا ، اس نے فوراً دریا میں جا کر بچے کو بچا لیا۔ جس پر مرغی شرمندہ ہو گئی اور یوں اسے بھی اپنے بچوں جیسا سمجھنے لگی۔ 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

آخرت کی زندگی!

قرآن کریم اﷲجل شانہ کی آخری کتاب ہے جو سراپا حق ہے زندگی موت مابعد الموت، زندگی سے پہلے کیا تھا۔ اس زندگی کے بعد کیا ہوگا؟ تمام حقائق کو بڑے واضح آسان اور دل نشیںانداز میں بیان فرماتی ہے، حتمی اور یقینی بات کرتی ہے، جس میں ادنیٰ سا شبہ بھی نہیں۔

اسلام میں یتیموں کے حقوق

’’یتیم‘‘ اُس نابالغ بچے یا بچی کو کہا جاتا ہے کہ جس کے سر پرسے اُس کے باپ کا سایہ اُٹھ گیا ہو۔ اسلام نے مسلمانوں کو یتیم بچوں کے حقوق ادا کرنے اور اُن کے حقوق کی نگہبانی کرنے کی بڑی سختی سے تاکید کی ہے۔ یتیم بچوں کو اپنی آغوش محبت میں لے کر اُن سے پیار کرنا، اُن کو والد کی طرف سے میراث میں ملنے والے مال و اسباب کی حفاظت کرنا، اُن کی تعلیم و تربیت کی فکر کرنا، سن شعور کو پہنچنے کے بعد اُن کے مال و اسباب کا اُن کے حوالے کرنا اور انہیں اِس کا مالک بنانا اور بالغ ہونے کے بعد اُن کی شادی بیاہ کی مناسب فکر کرکے کسی اچھی جگہ اُن کا رشتہ طے کرنا، اسلام کی وہ زرّیں اور روشن تعلیمات ہیں جن کا اُس نے ہر ایک مسلمان شخص کو پابند بنایا ہے۔

سید الشہداء سیدنا حضرت امیر حمزہ ؓ

سید الشہداء سیدنا حضرت امیر حمزہ اسلام کے ان جانثاروں میں سے ہیں جن کی خدمات مینارہ نور اور روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔ جب تک آپؓ حیات رہے آپؓ نے عملی طور پر سرکاردوعالمﷺ کے نائب کا کردار ادا فرمایا۔ غزوہ احد وبدر میں آپؓ اسلامی لشکر کے سالار رہے۔ بعثت کے چھٹے سال سے لے کر 3ہجری تک،اعلان اسلام سے لے کر غزوہ احد میں سید الشہداء کا بلند مقام ملنے تک آپؓ کی پوری حیات مستعار حفاظت مصطفی کریم ﷺ میں بسر ہوئی۔

مسائل اور ان کا حل

باجماعت نماز میں امام کی قرات میں مختلف آیات کا جواب دینے کی شرعی حیثیت سوال :امام صاحب اگرباجماعت نمازمیں اگرایسی آیات تلاوت کریں جس میں دعا کا ذکر ہویااللہ تعالیٰ کی کبریائی بیان ہویاجس میں عذاب الٰہی کا ذکرہواورمقتدی دعاکی صورت میں ’’آمین، سبحان اللہ، یا اعوذ باللہ‘‘ دل میں کہے ،کیاایساکرناجائزہے؟

حکومتی اعتماد میں اضافے کے دلائل

21 اپریل کے ضمنی انتخابات کے بعد حکومت کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ 8 فروری کے انتخابات کے بعد جب مسلم لیگ (ن) اور اس کے اتحادیوں کی حکومت قائم ہو ئی تو شہباز شریف کو ووٹ دینے والوں کو شبہ تھا کہ یہ حکومت زیادہ عرصہ نہیں چل پائے گی کیونکہ مشکل فیصلے کرنے ہوں گے ، معیشت سنبھالنا انتہائی کٹھن ہو گا، بانی پی ٹی آئی کی مقبولیت حکومت کیلئے مسلسل درد سر رہے گی، یہی وجہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے شہباز شریف کو وزارت عظمیٰ کا ووٹ تو دیا مگر اہم ترین اتحادی جماعت وفاقی کابینہ کا حصہ نہیں بنی۔

ضمنی انتخابات کا معرکہ(ن) لیگ نے سر کر لیا

ضمنی انتخابات کے حوالے سے عمومی رائے یہ رہی ہے کہ ان میں حکمران جماعت کو فائدہ ملتا ہے مگر 2018ء کے بعد اس تاثر کو دھچکا لگا ۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اپوزیشن جماعتیں اپنے ووٹرز میں تحریک پیدا کرکے انہیں پولنگ سٹیشنز تک لے آتی تھیں،مگر حالیہ ضمنی انتخابات میں حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) نے ضمنی انتخابات کا معرکہ سر کر لیا۔