قرب خداوندی
قربانی کا لفظ بنیادی طور پر 3 الفاظ کا مجموعہ ہے ۔ ق، ر، ب جو کہ عربی میں قرب بنتا ہے ۔ اردو میں یہ لفظ قریب ہونے ، قربت حاصل کرنے کے معانی میں استعمال ہوتا ہے ۔ مثلاً: نماز قربِ خداوندی کا ذریعہ ہے ۔ یعنی نماز بندے کو اپنے خالق سے قریب کردیتی ہے ۔ اسی طرح کہا جاتا ہے فلاں حاکمِ وقت کے مقرب لوگوں میں شامل ہے ۔ یعنی وہ اس کے نہایت قریبی اور خاص لوگوں میں سے ہے ۔ قربانی کا مقصد بھی یہی ہے کہ اس کے ذریعے خدا کی خوشنودی اور اس کا قرب حاصل کیا جائے اور جب کوئی خدا کے قریب ہوتا ہے تو خدا اس کے قریب ہوتا ہے اور خدا جس کے قریب ہوجائے پوری کائنات اس کی ہوجاتی ہے ۔ حضرت ابراہیمؑ کی سیرت سے یہی سبق ملتا ہے کہ جب انہوں نے اﷲ کیلئے ہر طرح کی قربانی دی تو اﷲ تعالیٰ نے انہیں انسانیت کا امام بنا دیا۔ (البقرہ2:124)
قربانی کا حکم اگرچہ ہر امت میں رہا ہے جیسا کہ اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:ترجمہ ’’ ہم نے ہر امت کیلئے قربانی مقرر کی تاکہ وہ چوپایوں ، مخصوص جانوروں پر اﷲ کا نام لیں جو اﷲ تعالیٰ نے انہیں عطا کیے ہیں۔‘‘ (الحج 22، 34) لیکن سیدنا حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسماعیل ؑ کی عظیم قربانی کی وجہ سے یہ سنت ابراہیمی قرار پائی۔ اس قربانی کا آغاز حضرت ابراہیم ؑ کے ایک خواب کے ذریعے ہوا پس جب ان دونوں باپ بیٹے نے خدا کے حکم پر سرِ تسلیم خم کردیا اورحضرت ابراہیمؑ نے پیشانی کے بل اپنے بیٹے کو لٹایا تو ہم نے پکارا اے ابراہیم! تم نے اپنے خواب کو سچ کردکھایا بے شک ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح جزا دیتے ہیں۔ درحقیقت یہ ایک بہت بڑا امتحان تھا اور ہم نے ایک بڑا ذبیحہ اس کے فدیے میں دیدیا اور ہم نے ان کا ذکرِ خیر پچھلوں میں باقی رکھا۔سلامتی ہو ابراہیم پر ہم نیکوکاروں کو اسی طرح بدلہ دیتے ہیں۔ (الصافات37: 102، 110) خدا کوحضرت ابراہیم ؑ کی اپنے حکم پر سر جھکادینے کی یہ ادا اتنی پسند آئی کہ اسے ابراہیمی سنت بنا کر رہتی دنیا تک جاری کردیا۔
سیدناحضرت ابراہیم ؑ کی یہ قربانی محض اپنے ایک بیٹے کی قربانی نہیں تھی بلکہ اس سے پہلے بھی و ہ خدا کی راہ میں مختلف قربانیاں دے چکے تھے اور ہر قربانی دراصل خدا کے حکم کے آگے سرجھکا دینے کا ایک عمل تھا اور یہی سبق ہمیں قربانی کا جانور ذبح کرتے وقت یاد دلایا جاتا ہے کہ یہ محض ایک جانور کی قربانی نہیں بلکہ اپنی خواہشات کو خدا کی مرضی کے آگے قربان کر دینے کا نام ہے ۔ قرآنِ مجید میں جہاں قربانی کا ذکر آیا ہے تو ساتھ ہی اس کا مقصد بھی بتایا گیا ہے کہ درحقیقت اس قربانی کے ذریعے انسانی سیرت و کردار میں تبدیلی مقصود ہے تاکہ انسان کو خدائی احکامات کا پابند بنایا جائے ۔
قربانی کے مقاصد میں سے چند ایک مقاصد یہ ہیں
اخلاص:قربانی کا ایک سبق یہ ہے کہ اس کے ذریعے ہم اپنے اندر اخلاص کا جذبہ پیدا کریں جو بھی نیکی کا کام کریں وہ صرف اور صرف خدا کی رضا اور اس کی خوشنودی کیلئے ہو۔ اسی لیے قرآنِ مجید میں فرمایا گیا ہے کہ’’کہہ دیجیے اے نبی ﷺ بے شک میری نماز، میری قربانی، میرا جینا اور میرا مرنا سب اﷲ رب العالمین کیلئے ہے ۔(الانعام6: 162) جب جانور کے گلے پر چھری پھیری جاتی ہے تو وہ صرف اور صرف خدا کے نام پر ہوتی ہے اگر کسی اور کے نام پر جانور ذبح کیا گیا تو وہ قربانی قبول نہیں ہوگی۔ اسی لیے اﷲ کے علاوہ کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا جانور حرام قرار دیا گیا ہے ۔ (المائدہ5: 3) اس لیے کوئی بھی نیکی کا کام کرنے کیلئے اسلام میں اصل اہمیت نیت کی ہے ۔ ایک حدیث میں نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا:’’بے شک اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے ہر ایک کیلئے وہی ہوگا جس کی اس نے نیت کی ہوگی۔‘‘ (بخاری، 1)
تقویٰ:اسی طرح قربانی کا ایک مقصد یہ ہے کہ ہم اس کے ذریعے اپنے اندر تقویٰ پیدا کریں۔ قربانی کا گوشت، اس کی کھال،اس کا خون خدا تک نہیں پہنچتا بلکہ انسان کا تقویٰ پہنچتا ہے ۔ خدا کو ہر گز جانور کا گوشت اور خون نہیں پہنچتا لیکن تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے ۔(الحج22:37)
امداد باہمی کا جذبہ:قربانی کے مقاصد میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انسان کے دل میں دوسروں کی مدد بالخصوص کمزور طبقات کی مدد کا جذبہ پیدا ہو۔ قرآنِ مجید میں جہاں قربانی کا ذکر آیا ہے وہیں ساتھ ہی یہ بتایا گیا ہے کہ اس جانور کا گوشت خود بھی کھاؤ اور فقیر،تنگدست اور قناعت پسند کو بھی کھلاؤ ۔ (الحج22، 36) اس کا مطلب یہ ہے کہ قربانی کرنیوالا سارا گوشت اکیلے ہی نہ کھا لے بلکہ اسے یہ احساس ہونا چاہیے کہ اس میں دوسروں کا بھی حصہ ہے۔ اور اس میں انہیں وہ شامل بھی کرے ۔