کیسے زمیں کی بات کہیں آسماں سے ہم،اردو ادب کا درخشندہ ستارہ ۔۔۔احمد ندیم قاسمی

تحریر : ڈاکٹر شاہدہ دلاور شاہ


آخر دعا کریں بھی تو کس مدعا کے ساتھ کیسے زمیں کی بات کہیں آسماں سے ہم اردو ادب کی تاریخ میں،بر صغیر پاک و ہند میں جو عظیم شخصیات ہو گزری ہیں ، ان میں ایک بڑا نام احمد ندیم قاسمی کا بھی ہے۔یہ وہ ہمہ جہت شخصیت ہیں جنہوں نے نہ صرف خود بڑی شدو مدسے ادب کی آبیاری کی بلکہ اپنے پیچھے اپنے لگائے ہوئے پودوں کا ایک جہان چھوڑ کر گئے ۔اب وہ پودے خود بھی تنآور درخت بن کر ادب کی خدمت میں حصہ ڈال رہے ہیں۔ احمد ندیم قاسمیؔ ایک ہی وقت میں کئی جہات کی حامل شخصیت تھے ۔ وہ افسانہ نگار،شاعر، نقاد، کالم نگار، استاد، دوست ، رفیق، بہترین باپ، مدیر اوربہترین منتظم تھے ۔ اللہ رب العزت کی جانب سے بعض لوگوں کیلئے موسم تخلیق ہوتے ہیں اور بعض خوبصورت موسموں کیلئے نابغۂ روز گار ہستیاں تخلیق کی جاتی ہیں۔

10جولائی 2006ء کو دنیا سے پردہ کر جانے والی یہ ہستی ہمیشہ ہمیشہ کیلئے میدان ادب میں امر ہو گئی۔قاسمی صاحب نے ادب میں گھنے پیڑ کا روپ اختیار کر کے نظم و نثر کی دنیائیں وسیع کیں آپکی شاعری اور نثر میں معاشرے کا کرب واضح دکھائی دیتا ہے۔ مولا نا الطاف حسین حالیؔ کے سوزو گداز کو دیکھ لیجیے۔ کیسے وہ دلوں کی دھڑکن بنے اور اس دھڑکن کو ہی اپنی حیات کا لازمی حصہ بنا لیا ۔ حضرت علامہ محمد اقبال نے پوری طاقت سے عوام کے دکھ کو محسوس کیا،قوم کو گہری نیند سے جگایا اور اس کی مردہ سوچوں میں پھر سے تازگی بھر دی ۔ اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے احمد ندیم قاسمی صاحب نے ادب میں ایک تحرک پیدا کیا ان کے  حلقے کی ذمے داری کا منتہائے طلب خالص ادب کی آبیاری تھااور کچھ نہ تھاانہوں نے پُر کیف اور پاکیزہ ادبی ماحول کو جنم دیا  انسانیت نوازی اور اصلاحِ بشر کو طرہ امتیاز بنایا۔ وہ ایک ملی شاعر تھے اور لوگوں کے دلوں میں بستے تھے،وہ عہد جدید کیلئے جہدو جستجو کا استعارہ بنے ان کی زندگی امید و جہدسے عبارت تھی انہوں نے اپنے فلسفہ ٔفن سے اہل ادب میں قویٰ مضحمل کی حوصلہ شکنی کی۔ روشنی، بہار ، عمیق سکوت،یقین، جذبہء تعمیر اور محبت جیسی قوتیں انکی ہمسفر رہیں۔ خود اعتمادی اور قوت ارادی کی ہمراہی میں انہوں نے بڑی سہولت سے کہا کہ

میں روشنی کے تسلسل کو  ٹوٹنے ہی  نہ  دو ں 

میں شمع بن کے بجھوں ،آفتاب بن کے جلوں 

اپنی فکر سے کشید کیے ہوئے اجالے سے وہ حزن و ملال کی تیرگی کا گلا گھونٹتے ہیں وہ فطرتاً قناعت پسند، بلند کردار، جہدو استقلال کے داعی ، معتدل مزاج صلح جو،خوش طبع اور انسانوں سے پیار کرنے والے واقع ہوئے۔پرائمری جماعت میں جب وظیفہ ملا تو ان کا پڑھائی میں اور زیادہ حوصلہ بلند ہوا۔آٹھویں جماعت میں ان کا پہلا مضمون صوبے بھر میں پہلے نمبر پر آیا۔1931ء میں مولانا محمد علی جوہر کی وفات پر پہلا نوحہ لکھا  نثر میں قلم ایسا چلا کہ پھر مرتے دم تک رکا نہیں ۔ پہلا افسانہ اختر شیرانی کے پرچے’’ رومان‘‘ میں چھپا تو بہت مقبول ہوا۔ اس کے بعد لکھنے کو ہی اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔جہاں انہوں نے پیار بانٹا وہاں ادیبوں اور ادب نے بھی انہیں مقام عطا کیایہاں تک کہ حکومت پاکستان کو ان کے فن کے اعتراف میں’’ کمال فن‘‘ جیسا ایوارڈ تخلیق کرنا پڑا۔ انہوں نے ہر صفِ سخن میں طبع آزمائی کی انکی لا زوال تحریروں نے اپنے ہم عصروں کومعاصرانہ چشمک کے باوجود متاثر کیے رکھا ۔ جہاں ان کی شاعری بے مثال ہے وہاں ان کی نثر بھی لا زوال سمجھی جاتی ہے۔ان کی تخلیقات میں خارجیت، داخلیت،مقصدیت اور محبت کا راج ہے وہیں معاشرت اور فطرت سے لگائوجو ہر زمانے میں ادب کا حسن ہوتا ہے ۔ دیہی زندگی کی معاشرت کے کینوس پر اپنے قلم کی طاقت سے ایسے نقش و نگارکاڑھے کہ دیہات کے روشن و تاریک سارے پہلو منصہ شہود پر رکھ دئیے  قاسمی صاحب نے ہماری تاریخ کے ان کرداروں اور رویوں کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے امر کر دیا جو مخفی رہنے پر مصر تھے۔ آپ بنیادی طور پر ایک امن پسند قلمکار تھے بربادی کے مخالف تعمیر پر زور دیتے رہے لفظوں کی حرمت جانتے تھے، کردار اور رویوں پر ایسی گرفت تھی جیسا کہ ڈاکٹر سلیم اختر نے کہا:

’’ندیم صاحب منٹو کی مانندچیر پھاڑ میں دلچسپی نہیں رکھتے بلکہ کرداروں کو کانچ کا برتن سمجھتے ہوئے نہایت احتیاط سے انہیں چھوتے ہیں ۔ یہ کرداروں کو کھلونا سمجھتے ہوئے ضائع نہیں کرتے بلکہ ان کا انداز ۔۔۔۔ ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو۔۔۔۔۔ ایسا ہوتا ہے۔اسی لیے تو کرداروں کی اساسی جزئیات کو نفسی اساس بنا کر ان کے ارتقا ء کیلئے تمام افسانہ کا کینوس مخصوص کر دیتے ہیں جس کے نتیجے میں کردار ایک رخی تصویریں معلوم نہیں ہوتے بلکہ بعض اوقات تو کرداروں میں سینما سکوپ کلوز اپ کی وضاحت اور تفصیل ملتی ہے۔شاید اسی لیے منٹو نے ایک مرتبہ از راہ مذاق خود کو ادب میں’’ وزیر داخلہ‘‘ قرار دیتے ہوئے ندیم کو وزارت سونپی تھی وہ اس لیے کہ ندیم کے فن کی کھلی فضاء نے ان کے افسانوں کی تدبیر کاری کو بھی ایک خاص نوع کی وسعت عطا کی۔‘‘   

مجھ کو امکان کے روزن سے نظر آتے ہیں

نت نئے ارض و سما،  ارض و سما سے  آگے  

وہ زندگی کو رواں دواں دیکھنا چاہتے تھے، ناکامیوں سے مایوس نہیں ہوتے تھے بلکہ کہتے تھے کہ رات کے بعد دن کا انتظار کرنا چاہیے کیوں کہ روشنی پھیل جانے کو بے تاب بیٹھی ہوتی ہے۔ وہ بہت پرکاری سے لفظوں کی مالا پروتے تھے۔ جس وقت احمد ندیم قاسمی صاحب ادب میں جستجو ، جذبے اورا مید کا راستہ دکھاتے ہیں اس وقت اسی سوچ کی اشد ضرورت تھی کہ پت جھڑ اور خزاں پر آہ و فغاں کرنے کی بجائے نئے موسموں کی جانب رجوع کیا جائے۔

وہ اپنے فن اور کھیل کے ماہر کھلاڑی کی طرح اپنی آخری سانس تک مسکراہٹ کیلئے لڑنے کے حامی تھے۔وہ انسانوں کے مرجھائے چہرے پر ہنسی دیکھنا چاہتے ہیں اس کیلئے بھلے پوری عمر دائو پر کیوں نہ لگا دی جائے۔ان کیلئے وہ مسکراہٹ کا لمحہ ہی حاصل عمر ہے۔وہ کہتے ہیں:

اس سے پہلے کہ حشر آنے لگے

کاش  انسان  مسکرانے  لگے

جس طرح منیر نیازی نے خوف ، ڈر اور خاموشی وغیرہ کو اپنی طاقت بنا رکھا تھااسی طرح احمد ندیم قاسمی صاحب نے یاس کے روزن سے امید و حوصلہ تلاش کیا اور پھر اسی امید اور حوصلے سے مایوسی کا قلع قمع کیا۔

 آپ صلح جو ہونے کیساتھ ساتھ ایک دلیر آدمی بھی تھے جہاں ادب سے پیار کرنے والوں سے پیار کیا وہاں ان کے دلوں میں سچا اور خالص ادب تخلیق کرنے کی جوت بھی جگائی ، لگے بندھے اور روایتی مغالطے بھی دور کیے۔ایک بار کسی نے پوچھا کہ شاعروں کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ وہ حالات کے ستائے ہوتے ہیں یا پھر انہیں عشق کی چوٹ لگی ہوتی ہے جس کے باعث وہ شعر کہنے لگتے ہیں اس بارے میں آپ کے کیا تجربات ومشاہدات ہیں ؟یہ سوال سننا تھا کہ آپ کے ماتھے پر بل پڑ گئے اور پسینے کے ننھے ننھے قطرے پیشانی پر نمایاں ہوئے ۔غصے کے باوجود نہایت نرمی سے گویا ہوئے کہ’’ پہلے میں اس بات کی وضاحت کر دوں کہ شاعری برے حالات مفلسی یا عشق سے پیدا نہیں ہوتی بلکہ یہ قوت تو قدرت کی طرف سے ودیعت ہوتی ہے۔ ہم میں سے کون ہے جسے کبھی عشق ومحبت کا کوئی تجربہ نہیں ہوا مگر سبھی شاعر تو نہیں ہوتے۔رہی یہ بات کہ برے حالات میں اچھی شاعری کی جا سکتی ہے تو یہ محض ایک پراپیگنڈہ ہے جو بڑے با شعور طریقے سے پھیلایا گیا ہے۔در اصل یہ نظریہ ٔاستحصالی قوتوں کا پھیلایا ہوا ہے کہ اہلِ قلم ہمیشہ برے حالات میں ہی رہتے ہیں اور اگر انہیں اچھے حالات میسر بھی آ جائیں تو وہ اس سے دست کش ہو کر دوبارہ بد حالی کی زندگی بسر کرنے لگتے ہیں جبکہ دنیائے ادب میں بے شمار ایسی مثالیں ہیں کہ نہایت اچھے حالات میں بھی اچھا ادب تخلیق کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً جرمنی کا گوئٹے ایک نوابزادہ تھالیکن اس نے جو کچھ تخلیق کیا وہ آپ سب کو معلوم ہے۔حتیٰ کہ ہمارے علامہ اقبال ؒنے بھی اس کا نوٹس لیا۔بھئی شاعری تو قدرت کی طرف سے ودیعت ہوتی ہے البتہ حالات ایسے ہونے چاہئیں کہ انسان اپنے اندر کی تخلیقی قوت کو سامنے لا سکے۔میں نے دیکھا ہے کہ ہمارے ان پڑھ لوگ ایسی کمال کی گفتگو کرتے ہیں کہ جس کا تصور ایک پڑھا لکھا آدمی بھی نہیں کر سکتا۔مگر شہر کے لوگ اس لیے دیہات والوں کو اہمیت نہیں دیتے کہ وہ احساسِ برتری میں مبتلا ہوتے ہیں۔ حالاں کہ دیہاتی لوگ اپنی دانائیاں ایسے سیدھے سادے الفاظ میں بیان کر جاتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے ۔ وہ لوگ تو آسمان پر ستاروں کو دیکھ کر بتا سکتے ہیں کہ کل کا موسم کیسا ہو گا۔ ان سے تو کسی بھی اچھی بات کی توقع کی جا سکتی ہے۔‘‘مختصر یہ کہ جہاں احمد ندیم قاسمی ریتوں رسموں ، اخلاق ضابطے کے آدمی تھے وہیں انہوں نے آنیوالے زمانوں کیلئے بھی کئی رجحانات متعارف کرائے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

آخرت کی زندگی!

قرآن کریم اﷲجل شانہ کی آخری کتاب ہے جو سراپا حق ہے زندگی موت مابعد الموت، زندگی سے پہلے کیا تھا۔ اس زندگی کے بعد کیا ہوگا؟ تمام حقائق کو بڑے واضح آسان اور دل نشیںانداز میں بیان فرماتی ہے، حتمی اور یقینی بات کرتی ہے، جس میں ادنیٰ سا شبہ بھی نہیں۔

اسلام میں یتیموں کے حقوق

’’یتیم‘‘ اُس نابالغ بچے یا بچی کو کہا جاتا ہے کہ جس کے سر پرسے اُس کے باپ کا سایہ اُٹھ گیا ہو۔ اسلام نے مسلمانوں کو یتیم بچوں کے حقوق ادا کرنے اور اُن کے حقوق کی نگہبانی کرنے کی بڑی سختی سے تاکید کی ہے۔ یتیم بچوں کو اپنی آغوش محبت میں لے کر اُن سے پیار کرنا، اُن کو والد کی طرف سے میراث میں ملنے والے مال و اسباب کی حفاظت کرنا، اُن کی تعلیم و تربیت کی فکر کرنا، سن شعور کو پہنچنے کے بعد اُن کے مال و اسباب کا اُن کے حوالے کرنا اور انہیں اِس کا مالک بنانا اور بالغ ہونے کے بعد اُن کی شادی بیاہ کی مناسب فکر کرکے کسی اچھی جگہ اُن کا رشتہ طے کرنا، اسلام کی وہ زرّیں اور روشن تعلیمات ہیں جن کا اُس نے ہر ایک مسلمان شخص کو پابند بنایا ہے۔

سید الشہداء سیدنا حضرت امیر حمزہ ؓ

سید الشہداء سیدنا حضرت امیر حمزہ اسلام کے ان جانثاروں میں سے ہیں جن کی خدمات مینارہ نور اور روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔ جب تک آپؓ حیات رہے آپؓ نے عملی طور پر سرکاردوعالمﷺ کے نائب کا کردار ادا فرمایا۔ غزوہ احد وبدر میں آپؓ اسلامی لشکر کے سالار رہے۔ بعثت کے چھٹے سال سے لے کر 3ہجری تک،اعلان اسلام سے لے کر غزوہ احد میں سید الشہداء کا بلند مقام ملنے تک آپؓ کی پوری حیات مستعار حفاظت مصطفی کریم ﷺ میں بسر ہوئی۔

مسائل اور ان کا حل

باجماعت نماز میں امام کی قرات میں مختلف آیات کا جواب دینے کی شرعی حیثیت سوال :امام صاحب اگرباجماعت نمازمیں اگرایسی آیات تلاوت کریں جس میں دعا کا ذکر ہویااللہ تعالیٰ کی کبریائی بیان ہویاجس میں عذاب الٰہی کا ذکرہواورمقتدی دعاکی صورت میں ’’آمین، سبحان اللہ، یا اعوذ باللہ‘‘ دل میں کہے ،کیاایساکرناجائزہے؟

حکومتی اعتماد میں اضافے کے دلائل

21 اپریل کے ضمنی انتخابات کے بعد حکومت کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ 8 فروری کے انتخابات کے بعد جب مسلم لیگ (ن) اور اس کے اتحادیوں کی حکومت قائم ہو ئی تو شہباز شریف کو ووٹ دینے والوں کو شبہ تھا کہ یہ حکومت زیادہ عرصہ نہیں چل پائے گی کیونکہ مشکل فیصلے کرنے ہوں گے ، معیشت سنبھالنا انتہائی کٹھن ہو گا، بانی پی ٹی آئی کی مقبولیت حکومت کیلئے مسلسل درد سر رہے گی، یہی وجہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے شہباز شریف کو وزارت عظمیٰ کا ووٹ تو دیا مگر اہم ترین اتحادی جماعت وفاقی کابینہ کا حصہ نہیں بنی۔

ضمنی انتخابات کا معرکہ(ن) لیگ نے سر کر لیا

ضمنی انتخابات کے حوالے سے عمومی رائے یہ رہی ہے کہ ان میں حکمران جماعت کو فائدہ ملتا ہے مگر 2018ء کے بعد اس تاثر کو دھچکا لگا ۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اپوزیشن جماعتیں اپنے ووٹرز میں تحریک پیدا کرکے انہیں پولنگ سٹیشنز تک لے آتی تھیں،مگر حالیہ ضمنی انتخابات میں حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) نے ضمنی انتخابات کا معرکہ سر کر لیا۔