مسلم لیگ(ن)کا سیاسی بیانیہ ۔۔۔؟

تحریر : سلمان غنی


آزاد کشمیر کے انتخابات میں پی ٹی آئی کی جیت یقینی تھی کیونکہ کہا یہی جاتا ہے کہ جس کی بھی اسلام آباد میں حکومت ہوگی وہی جماعت عملًا آزاد کشمیر کے انتخابات میں کامیابی حاصل کرتی ہے ۔لیکن اس انتخاب کی اہم بات مسلم لیگ( ن) جس کی آزاد کشمیر میں حکومت تھی اس کا تیسری پوزیشن پر آنا ہے ۔ ان کے مقابلے میں پیپلز پارٹی حیران کن طور پر 11نشستیں حاصل کرگئی ہے اور سب ہی اس بات پر حیران ہیں کہ مسلم لیگ( ن) جس نے وہاں مریم نواز کی قیادت میں نہ صرف بھرپور انتخابی مہم چلائی بلکہ سب سے بڑے عوامی جلسے بھی کیے مگر ان کو انتخابات میں تیسری پوزیشن حاصل ہوئی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان آزاد کشمیر کے انتخابات کے بعد مسلم لیگ( ن )میں کافی مایوسی پائی جاتی ہے ۔ اگرچہ مسلم لیگ( ن) کی قیادت نے آزاد کشمیر میں انتخابی شکست کو ایک بڑی انتخابی دھاندلی سے جوڑا ہے اور ان کے بقول ہمیں خاص سازش کے تحت انتخابی میدان میں دیوار سے لگایا گیا ہے ۔

مریم نواز جو اس وقت عملی طور پر مسلم لیگ (ن) کی قیادت کررہی ہیں اوران کی مقبولیت پر بھی کوئی شک نہیں لیکن گلگت بلتستان کے انتخابات ہوں یا آزاد کشمیر کا انتخابی معرکہ ان  میں مریم نواز کا ’’سیاسی جادو‘‘ ووٹوں کی سیاست پرنہیں چل سکا ۔ اس کی ایک بڑی وجہ جو کہی جارہی ہے وہ مسلم لیگ (ن) کا سیاسی بیانیہ ہے جس میں عملًا مزاحمت او راداروں سے ٹکرائو کی پالیسی ہے ۔ مسلم لیگ( ن) میں اس وقت دو طرح کے سیاسی بیانیے چل رہے ہیں ایک بیانیہ اداروں سے ٹکرائو کا ہے جسے نواز شریف اور مریم نواز کی حمایت حاصل ہے جبکہ دوسرا بیانیہ شہباز شریف کا ہے جو اداروں سے ٹکرائو کی بجائے مفاہمت کی سیاست کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں ۔ شہباز شریف کافی عرصے سے مفاہمت کی سیاست کو آگے بڑھانے کی بات کررہے ہیں او ران کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتحال میں ٹکرائو کی پالیسی کسی کے مفاد میں نہیں ۔ لیکن ابھی تک نواز شریف او رمریم نواز کی جارحانہ پالیسی شہباز شریف کے مفاہمتی فارمولہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے ۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ شہباز شریف بھی اسی وجہ سے گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کی انتخابی مہم میں براہ راست حصہ لینے سے گریز کرتے رہے او رمریم نواز کو آزادی دی کہ وہ اپنی مرضی سے انتخابی مہم چلائیں ،لیکن اب جب نتائج نہیں مل رہے تو مسلم لیگ (ن) میں یہ بحث چل پڑی ہے کہ عام انتخابات سے قبل اگر دو مختلف بیانیوں میں سے مفاہمت کے بیانیہ کو فوقیت نہیں دی گئی تو ہمیں عام انتخابات میں بھی شکست کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اب شہباز شریف پر دبائو بڑھ رہا ہے کہ وہ آگے بڑھ کر پارٹی کے معاملات خود سنبھالیں اور پارٹی کو سیاسی طور پر بچائیں ۔ لیکن مسئلہ نواز شریف اور مریم نواز کا ہے جو ابھی تک یا تو مفاہمت کی سیاست کیلئے تیار نہیں یا سیاسی معاملات کو خود ہی اپنی حکمت عملی کے تحت چلانا چاہتے ہیں ۔اصل میں شہباز شریف خود بھی پارٹی میں کوئی ٹکرائو پیدا نہیں کرنا چاہتے۔ ان کی خواہش ہے کہ نواز شریف او ر مریم نواز سمیت پارٹی اتفاق رائے سے آگے بڑھے او رہمیں مفاہمت کی سیاست کو بنیاد بنا کر آگے بڑھنے کی حکمت عملی اختیار کرنا چاہیے یہی ملک او رپارٹی کے مفاد میں ہے ۔ دراصل اب یہ امتحان نواز شریف ، شہباز شریف اور مریم نواز کا ہے کہ وہ 2023ء کے عام انتخابات سے قبل پارٹی کو تضاد کی سیاست سے باہر نکالیں اورایک حکمت عملی کے تحت پارٹی کو چلائیں تاکہ پارٹی کے تمام لوگوں میں ایک ہی مؤقف آگے بڑھے ۔اس میں اصل کردار نواز شریف کو ادا کرنا چاہیے کہ وہ حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے تدبر سے پارٹی کے فیصلے کریں کیونکہ پارٹی کی اس اندرونی لڑائی کا فائدہ پیپلز پارٹی اٹھارہی ہے او رخود کو مقتدرہ کے سامنے مسلم لیگ (ن) کے مقابلے میں ایک متبادل قیادت کے طور پر پیش کررہی ہے ۔ آزاد کشمیر کے انتخابات کے نتائج پیپلز پارٹی کے حق میں ہیں او ر یہی وجہ ہے کہ وہ مسلم لیگ (ن) کی اندرونی لڑائی سے فائدہ اٹھارہے ہیں ۔آصف علی زرداری پنجاب میں آنا چاہتے ہیں اور وہ خود کہہ رہے ہیں کہ ہم پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کے مقابلے میں ایک بڑا اتحاد بنانا چاہتے ہیں ۔ ایسے میں مسلم لیگ (ن) کو زیادہ بہتر طور پر اپنی پارٹی حکمت عملی کو وضع کرنا چاہیے کیونکہ اگر ایسا نہیں ہوتا تو اس کا فائدہ یقینی طور پر تحریک انصاف او رپیپلز پارٹی کو ہوگا اور وہی خود کو متبادل کے طور پر پیش کریں گے ۔ نواز شریف ، مریم نواز اور شہباز شریف اگر ایک حکمت عملی کے تحت چلتے ہیں تو اس سے شریف خاندان سمیت مسلم لیگ( ن) بطو رپارٹی بھی مضبوط ہوگی او رانتخابی نتائج بھی ان کے حق میں ہونگے ۔ اس لیے گیند بنیادی طور پر نواز شریف کی کورٹ میں ہے کہ وہ موجودہ صورتحال میں ایسا فیصلہ کریں جو پارٹی کے مفاد میں ہو۔

دوسری جانب پنجاب میں سپریم کورٹ کے حکم پر بلدیاتی اداروں کو بحال کردیا گیا ہے ۔لیکن ابھی تک عملی طور پر یہ ادارے بحال نہیں ہوسکے اور پنجاب حکومت ان معاملات میں تاخیری حربے اختیار کررہی ہے ۔اگرچہ سپریم کورٹ کو مطمئن کرنے کے لیے پنجاب حکومت نے مختلف سطحو ں پر مختلف کمیٹیاں تشکیل دے دی ہیں جن میں منتخب افراد بھی شامل ہیں تاکہ اس تاثر کو قائم کیا جاسکے کہ ہم ان اداروں کی بحالی میں سنجیدہ ہیں ۔ لیکن تجزیہ یہ کہتا ہے کہ پنجاب حکومت ان کمیٹیوں کی مدد سے دسمبر تک کا وقت گزارنا چاہتی ہے ۔ پنجاب حکومت نے میاںمحمود الرشید کو محکمہ بلدیات کی ذمہ داری دے دی ہے اور وہی اب ان معاملات کی براہ راست نگرانی کررہے ہیں ۔ اصل مسئلہ پنجاب میں مضبوط مقامی حکومتوں کے اداروں کی بحالی او ر تشکیل کا ہے ۔ اسی حوالے سے لاہور میں پچھلے دنوں لوکل کونسل ایسوسی ایشن پنجاب اور ادارہ برائے جمہوری تعلیم اینڈ ایڈوکیسی )آیڈیا(نے ایک اہم کانفرنس کی ، اس کانفرنس میں پنجاب کے 12 اضلاع کے منتخب چیئرمین ، سول سوسائٹی ، قانونی ماہرین اور میڈیا کے سرکردہ افراد شامل تھے ۔ اس بحث کا مقصد ہی پنجاب سمیت ملک بھر میں مقامی حکومتوں کے نظام کو مضبوط بنانا تھا ۔ کانفرنس میں اس بات پر کافی تشویش کا اظہار کیا گیا کہ تحریک انصاف جس نے مقامی حکومتوں کے مضبوط نظام کیلئے سب سے زیادہ دعوے کیے تھے وہ پنجاب اورخیبر پختونخوا میں مقامی اداروں کے انتخابات بھی نہیں کرواسکی اور پنجاب کے پہلے سے موجود مقامی اداروں کو بھی ختم کردیا گیا ۔ اب جبکہ سپریم کورٹ نے ان اداروں کو بحال کردیا ہے تو ان کی بحالی میں بھی رکاوٹیں پیدا کی جارہی ہیں ۔ کانفرنس میں سب کا مشترکہ اتفاق تھا کہ چاروں صوبائی حکومتوں کو 18ویں ترمیم کے تحت سیاسی ، انتظامی او رمالی اختیارات کو صوبوں سے ضلعوں میں منتقل کیا جائے او راس سلسلے میں ان مقامی اداروں کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی طرزپر آئین میں قانونی تحفظ بھی فراہم کیا جائے ۔ کیونکہ پاکستان میں جو گورننس کا بحران ہے اس بحران کا سب سے بڑا حل ہی مضبوط مقامی حکومتوں کا نظام ہے اور جب تک صوبائی حکومتیں مقامی اداروں کو مضبوط نہیں بنائیں گی اس ملک میں نہ تو گورننس کا بحران حل ہوگا اور نہ ہی ملک میں سیاست اور جمہوریت کو مضبوطی مل سکے گی ۔جمہوریت کی مضبوطی کے لیے مقامی حکومتوں کا نظام ایک بنیادی ترجیح ہونی چاہیے ۔لیکن بدقسمتی سے ہماری سیاسی قیادت مقامی حکومتوں کے نظام کو ترجیح دینے کے لئے تیار نہیں اور یہی ہماری سیاست کا سب سے بڑا المیہ ہے ۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

آخرت کی زندگی!

قرآن کریم اﷲجل شانہ کی آخری کتاب ہے جو سراپا حق ہے زندگی موت مابعد الموت، زندگی سے پہلے کیا تھا۔ اس زندگی کے بعد کیا ہوگا؟ تمام حقائق کو بڑے واضح آسان اور دل نشیںانداز میں بیان فرماتی ہے، حتمی اور یقینی بات کرتی ہے، جس میں ادنیٰ سا شبہ بھی نہیں۔

اسلام میں یتیموں کے حقوق

’’یتیم‘‘ اُس نابالغ بچے یا بچی کو کہا جاتا ہے کہ جس کے سر پرسے اُس کے باپ کا سایہ اُٹھ گیا ہو۔ اسلام نے مسلمانوں کو یتیم بچوں کے حقوق ادا کرنے اور اُن کے حقوق کی نگہبانی کرنے کی بڑی سختی سے تاکید کی ہے۔ یتیم بچوں کو اپنی آغوش محبت میں لے کر اُن سے پیار کرنا، اُن کو والد کی طرف سے میراث میں ملنے والے مال و اسباب کی حفاظت کرنا، اُن کی تعلیم و تربیت کی فکر کرنا، سن شعور کو پہنچنے کے بعد اُن کے مال و اسباب کا اُن کے حوالے کرنا اور انہیں اِس کا مالک بنانا اور بالغ ہونے کے بعد اُن کی شادی بیاہ کی مناسب فکر کرکے کسی اچھی جگہ اُن کا رشتہ طے کرنا، اسلام کی وہ زرّیں اور روشن تعلیمات ہیں جن کا اُس نے ہر ایک مسلمان شخص کو پابند بنایا ہے۔

سید الشہداء سیدنا حضرت امیر حمزہ ؓ

سید الشہداء سیدنا حضرت امیر حمزہ اسلام کے ان جانثاروں میں سے ہیں جن کی خدمات مینارہ نور اور روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔ جب تک آپؓ حیات رہے آپؓ نے عملی طور پر سرکاردوعالمﷺ کے نائب کا کردار ادا فرمایا۔ غزوہ احد وبدر میں آپؓ اسلامی لشکر کے سالار رہے۔ بعثت کے چھٹے سال سے لے کر 3ہجری تک،اعلان اسلام سے لے کر غزوہ احد میں سید الشہداء کا بلند مقام ملنے تک آپؓ کی پوری حیات مستعار حفاظت مصطفی کریم ﷺ میں بسر ہوئی۔

مسائل اور ان کا حل

باجماعت نماز میں امام کی قرات میں مختلف آیات کا جواب دینے کی شرعی حیثیت سوال :امام صاحب اگرباجماعت نمازمیں اگرایسی آیات تلاوت کریں جس میں دعا کا ذکر ہویااللہ تعالیٰ کی کبریائی بیان ہویاجس میں عذاب الٰہی کا ذکرہواورمقتدی دعاکی صورت میں ’’آمین، سبحان اللہ، یا اعوذ باللہ‘‘ دل میں کہے ،کیاایساکرناجائزہے؟

حکومتی اعتماد میں اضافے کے دلائل

21 اپریل کے ضمنی انتخابات کے بعد حکومت کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ 8 فروری کے انتخابات کے بعد جب مسلم لیگ (ن) اور اس کے اتحادیوں کی حکومت قائم ہو ئی تو شہباز شریف کو ووٹ دینے والوں کو شبہ تھا کہ یہ حکومت زیادہ عرصہ نہیں چل پائے گی کیونکہ مشکل فیصلے کرنے ہوں گے ، معیشت سنبھالنا انتہائی کٹھن ہو گا، بانی پی ٹی آئی کی مقبولیت حکومت کیلئے مسلسل درد سر رہے گی، یہی وجہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے شہباز شریف کو وزارت عظمیٰ کا ووٹ تو دیا مگر اہم ترین اتحادی جماعت وفاقی کابینہ کا حصہ نہیں بنی۔

ضمنی انتخابات کا معرکہ(ن) لیگ نے سر کر لیا

ضمنی انتخابات کے حوالے سے عمومی رائے یہ رہی ہے کہ ان میں حکمران جماعت کو فائدہ ملتا ہے مگر 2018ء کے بعد اس تاثر کو دھچکا لگا ۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اپوزیشن جماعتیں اپنے ووٹرز میں تحریک پیدا کرکے انہیں پولنگ سٹیشنز تک لے آتی تھیں،مگر حالیہ ضمنی انتخابات میں حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) نے ضمنی انتخابات کا معرکہ سر کر لیا۔