آزاد کشمیر میں کامیابی پر بحث کیوں ۔۔۔؟
آزاد کشمیر میں انتخابات کا مرحلہ کامیابی سے اپنے اختتام کو پہنچ گیا ۔ ماضی کے بر عکس اس بار کشمیر میں انتخابات سے پہلے پاکستان کی تمام بڑی جماعتوں نے بھرپور الیکشن مہم چلائی۔ بے شک سب سے زور دار مہم(ن )لیگ کی نائب صدر مریم نواز نے چلائی بھر پور جلسے کیے اور اپنے والد اور پارٹی قائد نواز شریف کے مزاحمتی بیانیے کو پر زور انداز میں اپنے ووٹرز اور سپورٹرز تک پہنچایا۔ بلاول بھٹو زرداری بھی اپنے لائو لشکر کے ساتھ کشمیر کے مختلف اضلاع میں گئے اور اپنی پیپلزپارٹی کی تاریخ اور اپنے مستقبل کے لائحہ عمل کے بارے میں لوگوں کو بتایا۔اسی دوران کچھ عرصے کیلئے بلاول کو ذاتی مصروفیات کیلئے امریکہ جانا پڑا تو ان کی جگہ آصفہ بھٹو میدان میں موجود رہیں۔ شروع میں حکومتی جماعت کے وزرا ء خاص طور پر علی امین گنڈا پور اور مراد سعید بھی میدان میں موجود رہے۔ انتخابات سے چند دن پہلے وزیراعظم آزادکشمیر گئے اور بھر پور جلسے کیے۔
اب جب کہ انتخابی نتائج آچکے ہیں جس کے تحت تحریک انصاف نہ صرف واحد اکثریتی پارٹی کے طور پر سامنے آئی ہے بلکہ اس کو سادہ اکثریت بھی مل چکی ہے۔ مطلب اس کو حکومت بنانے کیلئے اب کسی دوسری پارٹی کے ساتھ اتحاد کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ سب سے اہم اور حیران کن نتیجہ ان انتخابات کا (ن) لیگ کا تیسرے نمبر پر آنا ہے جو کہ انتہائی حیران کن ہے۔ شہر اقتدار میں آج کل اسی حوالے سے بحث مباحثہ ہو رہا ہے۔ کیا وجہ بنی کہ پیپلزپارٹی نے بھی (ن) لیگ کو مات دیدی ہے۔ آزاد کشمیر انتخابات کے نتائج کی وجوہات اور ان کے ملکی سیاست پر ممکنہ اثرات پر جب مختلف ذرائع سے بات ہوئی تو چند دلچسپ حقائق سامنے آئے۔ سب سے پہلے (ن ) لیگ یہ انتخابات کیوں ہاری۔ چلو ہار تو گئی لیکن اتنی بری طرح کیوں ہاری۔ (ن) لیگ کے حوالے سے سب سے اہم سوال جو ان انتخابات کے بعد پوچھا جا رہا ہے وہ ہے پارٹی صدر شہباز شریف اور ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز کا سین سے غیر معمولی طور پر غائب رہنا۔ اس بارے میں جب (ن )لیگ کے قریبی حلقوں سے بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا’’ اب بھی اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ شہباز شریف اور مریم نواز کے درمیان کوئی سیاسی اختلافات نہیں تو وہ بہت بڑی غلطی پر ہے۔ ظاہر ہے جب لندن سے فیصلہ ہو گیا کہ کشمیر میں انتخابی مہم مریم لیڈ کریں گی تو دونوں باپ بیٹوں کے پاس اس کے علاوہ کوئی اور آپشن نہیں تھا کہ وہ خاموشی کیساتھ سائیڈ پر رہیں۔ حیران کن طور پر دونوں باپ بیٹوں نے ان انتخابات کے حوالے سے کوئی ایک جلسہ تو درکنار کوئی پریس کانفرنس بھی نہیں کی۔ مکمل چپ کا روزہ رکھے رکھا۔ چلیں مریم تو آزادکشمیر میں مصروف تھیں کشمیر مہاجرین کی پاکستان میں12 نشستوں پر ان دونوں باپ بیٹوں کی طرف سے کسی قسم کی کوئی انتخابی مہم نہیں چلائی گئی۔(ن ) لیگ یہ نشستیں لاہور گجرات اور راولپنڈی سے بھی ہار گئی۔ دوسری وجہ جو (ن ) لیگ کی شکست کی وجہ بنی وہ مریم کا مقتدرہ مخالف بیانیہ ہے جس کو لیکر وہ آزادکشمیر میں الیکشن مہم چلاتی رہیں۔ سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ عین الیکشن کے موقع پر نواز شریف کی پاکستان مخالف افغان سکیورٹی مشیر حمد اللہ محب سے لندن میں ملاقات تھی۔ اس کے جواب میں حکومت پاکستان کی طرف سے مسڑ محب سے کسی بھی فورم پر آفیشل رابطہ کرنے سے انکار کر دیا گیا تھا۔ ایسے موقع پر جب پہلے ہی آپ کیخلاف ماحول بنا ہو ا ہواس قسم کی سر گرمیوں سے اجتناب کرنا چاہیے تھا لیکن کیا کریں ہم سے کوئی پوچھے تو ۔‘‘یہ تھا جواب ایک سینئر لیگی رہنما کا۔
مریم نواز نے ضرور کوشش کی کہ اس ملاقات کی وضاحت پیش کی جا سکے لیکن حیران کن طور پرباقی تمام پارٹی نے اس موقع پر لب کشائی کرنے سے اجتناب کیا۔ دوسری طرف حکومتی وزراء کی طرف سے اس ملاقات کو میڈیا پر(ن ) لیگ کے خلاف بڑے مؤثر انداز سے اچھالا گیا۔ (ن )لیگ میں اب یہ رائے مزید تقویت پکڑتی جا رہی ہے کہ پارٹی کے موجودہ مقتدرہ مخالف بیانیے کے ساتھ آئندہ انتخابات لڑنا بہت مشکل ہو جائے گا۔ سب سے اہم سوال جو پارٹی کے اندر آج کل زیر بحث ہے وہ یہی ہے کہ 2023ء کے انتخابات میں پارٹی کس بیانیے کے ساتھ حصہ لے گی۔ اس حوالے سے پارٹی کو کچھ نہ کچھ ضرور فیصلہ کرنا پڑے گا۔ اب دیکھنا یہی ہے کہ شہباز شریف اور حمزہ شہباز کس حد تک پارٹی کے موجودہ مزاحمتی بیانیے کو تبدیل کر پاتے ہیں۔ پیپلزپارٹی 11نشستوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر آئی ہے۔ ملکی سیاست میں بلاول بھٹو آہستہ آہستہ اپنی جگہ بنا رہے ہیں۔ انہوں نے گنے چنے حلقوں پر فوکس کر کے اپنا الیکشن اچھا بنا لیا۔ بلاول اپنی تقریروں میں(ن) لیگ اور تحریک انصاف کو اپنے تنقید کا نشانہ بناتے رہے۔
اب آتے ہیں سب سے اہم سوال کی طرف وہ یہ کہ آزاد کشمیر انتخابی نتائج کے پاکستانی سیاست پر ممکنہ اثرات کیا ہو سکتے ہیں۔آزاد کشمیر انتخابات جیتنے کے بعد تحریک انصاف ملک کی وہ واحد جماعت بن گئی ہے جس کی وفاق سمیت پنجاب، خیبر پختونخوا ، گلگت بلتستان اور بلوچستان میں ایک ہی وقت میں حکومت بن گئی ہے۔ سینیٹ میں وہ سب سے بڑی پارٹی کے طور پر موجود ہے۔ سند ھ میں تحریک انصاف لیڈر آف دی اپوزیشن کی سیٹ پر موجود ہے۔ آئند انتخابات میں جانے سے پہلے تحریک انصاف سسٹم کے اندر ایک بھاری بھرکم پارٹی کے طور پر موجود ہوگی۔ باقی ماندہ 2 سال کے دوران وزیراعظم عمران خان اگر ملکی معاشی حالت کو بہتر کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ ہیلتھ کارڈ کیساتھ ساتھ کسان کارڈ، نوجوان پروگرام اور احساس پروگرام کو اچھے انداز سے لوگوں تک پہنچانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو بہت ممکن ہے عمران خان ملک کے وہ واحد وزیراعظم بننے میں کامیاب ہو جائیں گے جو نہ صرف اپنی مدت مکمل کریں گے بلکہ دوبارہ وزیراعظم بھی بن جائیں ۔ ۔ ۔ سیاست میں حرف آخر کچھ نہیں ہوتا۔ کسی بھی وقت ایک چھوٹا سا واقعہ پورے سیاسی منظر کی تبدیلی کی وجہ بن سکتا ہے۔ لیکن فی الحال ایسا ہی لگ رہا ہے کہ وزیر اعظم اپنے پتے اچھے طریقے سے کھیل رہے ہیں۔