مجید امجد۔۔۔۔’’احساس کا شاعر ‘‘

تحریر : ڈاکٹرسعادت سعید


انفرادیت، مخصوص تمثال نگاری اور لفظوں کی ملائم ترتیب و تنظیم ان کے اعلیٰ شعری مرتبے کی عکاس ہیں’’مجید امجد نے خارج کی مادی دنیا کو باطن کی غیر مادی دنیا سے مربوط کرنے میں فنی بالیدگی کا ثبوت دیا ہے۔‘‘ڈاکٹروزیر آغا

مجید امجد اپنے مشاہدوں میں آنیوالی تصویروں کو علامتوں میں منتقل کرنے کے ہنر سے بخوبی آگاہ تھے۔اس حوالے سے شب رفتہ کی متعدد نظمیں علامتی ذائقوں سیبھری ہیں۔ان کی نظم کنواں ’’شب رفتہ‘‘ کی بہترین نظموں میں سے ایک ہے۔ اس میں کنوئیں کی علامت کے حوالے سے دنیا کے معاملات و امور کی کروٹوں کا بڑے تجزیاتی انداز میں جائزہ لیا گیا ہے۔ نظم کا کینوس کنوئیں تک محدود نہیں رہتابلکہ تمام تر معاشرتی زندگی کو اپنی گرفت میں لیتا ہے۔ کنواں زندگی کی علامت بنتا ہے جو ازل سے جاری و ساری ہے اور ابد تک جاری و ساری رہے گی۔ امجد زندگی کو امکانات کا ہیر پھیر کہتے ہیں اُن کا خیال ہے کہ انسان کسی بھی لمحے نئے اور عجیب منظروں کے رُو بہ رُو کھڑا ہو سکتا ہے۔ ’’طلوعِ فرض‘‘ معاشرے میں زندگی کے کاروبار کی تفصیل پیش کرتی ہے۔ اس میں معاشرتی طبقے اجاگر ہوتے ہیں۔ شہر کی میکانکی زندگی سے اکتاہٹ اور کرب کا اظہار ملتا ہے۔ امجد کی نظمیں زندگی کے چھوٹے چھوٹے واقعات اور مسائل سے مرتب ہوتی ہیں۔ تحیر ان کی شاعری کا بنیادی وصف ہے۔ تحیر کی مدد سے وہ حیات و کائنات کی مختلف تصویروں تک پہنچتے ہیں۔ ’’دل دریا سمندروں ڈونگھے‘‘ اسی طرزِ اظہار سے مرتب ہوئی ہے۔

شعر میں خیال اجالنے والے شاعر مجید امجد اپنے تخلیقی عمل کی نوعیت پر گہری نظر ڈالتے ہیں تو انہیں نظم کے ایوان کی سلیں تراشنے کے باوجود اظہار کی حسرت ہی کا غم ملتا ہے۔ مختصر زندگی کے دوران ان کا سابقہ جن مسائل، الجھنوں اور داستانوں سے پڑتا ہے، ان کا مرکزی ویرانہ حیرت ہی ٹھہرتا ہے۔ امجد احساس کے شاعر ہیں ان کے حواسِ خمسہ بڑے تیز ہیں، وہ بڑی مہارت اور کاری گری سے انسان اور کائنات کے مشاہدے میں مشغول ہیں۔ امجد دنیا کو جمالیاتی شاہکار بنانا چاہتے ہیں۔ ان کا مسلک ہے کہ انسان ہی کی وجہ سے دنیا کی دیگر اشیا ء میں حسن پیدا ہوتا ہے۔ انسان کا سایہ جب دیگر اشیاء کے وجود پر پڑتا ہے تو ان میں بھی جمال چھلک اٹھتا ہے۔ امجد کی ابتدائی شاعری اردو نظم کی رومانی تحریک سے متاثر ہے مگر انکی نظمیں رومانی شعراء کی نظموں کی نسبت زیادہ منجھی ہوئیں، مزین اور تراش خراش کے قرینے سے معمور ہیں۔ ’’شبِ رفتہ‘‘ میں ’’دم شرر‘‘کے حصے کی سب نظمیں رومانی شعرا کے اثر ہی کا نتیجہ ہیں مگر ان میں امجد کی انفرادیت، مخصوص تمثال نگاری، لفظوں کی ملائم ترتیب و تنظیم اور آہنگ کی مناسبت کی خصوصیات ان کے اعلیٰ شعری مرتبے کی عکاس ہیں۔ان کی نظم ’’برہنہ‘‘ ان کے گلوبل حوالے کو سامنے لاتی ہے۔امجد کی نظموں میں حال سے بے اطمینانی کا احساس تو موجود ہے مگر اس میں شدت نہیں ہے۔ انہوں نے مخصوص تہذیبی معیارات کا خاکہ اپنے ذہن میں بنا رکھا ہے۔ حال کے لمحے ان معیارات سے گریزاں ہیں۔ وہ نظم میں اپنے ذاتی آدرش سے کام لیتے ہوئے اپنے احساسات کو متوازن اور معتدل بناتے ہیں۔ ان کے آدرش میں داخلی طرزِ احساس کی بدولت ایک نئے تمدن اور نئی Approach کی تدوین ملتی ہیںیہ کلچر اور Approach انہیں ورثے میں ملی ہوئی اقدار سے بغاوت کا سبق نہیں سکھاتے اور نہ ہی معاشرے کی زبوں حالی پر نفرت کا رویہ اپنانے کا درس دیتے ہیں۔ 

امجد کی نظموں میں نئے عہد کی صنعتی زندگی کے ساتھ ابھرنے والے نئے شہروں کے جغرافیے سے لے کر پرانی قصباتی تہذیب کی متوازن قدروں کے تحفظ تک کے موضوعات معمومی ہیں۔ نیا صنعتی شہر فطرت کی حدود سے گریز کا عمل سکھاتا ہے۔ سائنس اور مادہ پرستی کے اثرات نے انسان میں تنہائی کے شدید احساس کو جنم دیا ہے۔امجد اپنی نظموں میں نئی شہری زندگی اور پرانی قصباتی فضا ء کو ابھار کر اپنے آدرش اور پیغام کو عام کرتے ہیں:

 وہ چھپر اچھے ہیں جن میں ہوں دل سے دل کی باتیں

ان بنگلوں سے جن میں بسیں، گونگے دن بہری راتیں

چھت پر بارش بھیگے اجلے کالر، گدلی انتڑیاں

ہنستے مکھ، ڈکراتی قدریں، بھوکی مایا کے سب مان

 امجد اپنی نظموں میں ایسی تصویروں کی تشکیل کرتے ہیں جو ذہنی، بصری اور محسوساتی ہوتی ہیں۔ ان کی نظموں میں زندگی کی گہما گہمی اور محرومیِ اشیاء کا وافر ذخیرہ موجود ہے۔ ان کی تمثالیں بڑی ملائم، اجلی، نفیس اور متوازن ہوتی ہیں۔ لفظوں کے استعمال میں انہوں نے کلاسیکی رویہ اپنایا جذبے، احساس اور تجربے کے پھیلائو کو مضبوط کرنے کیلئے وہ معتدل، متوازن اور متناسب الفاظ منتخب کرتے ہیں۔ ان کی نظموں کے مصرعوں میں ایک خاص قسم کے ربط، تسلسل اور انضباط کو تلاش کیا جا سکتا ہے۔ ’’آٹو گراف‘‘ ان کے فنی ارتقاء میں کلیدی حیثیت کی حامل ہے۔ اس میں انہوں نے لفظوں کے صوتی تلازمات سے بڑی چابک دستی سے کام لیا ہے۔ کھلاڑی، پھاٹک، شخصیت، بائولر جیسے غیر شعوری لفظ امجد کی ریاضت کی بدولت شعری اظہار کا بہترین نمونہ بن کر ہمارے سامنے آتے ہیں۔ اس نظم میں قافیوں کی تکرار کچھ اس طور سے ہوئی ہے کہ قاری کو ان کا احساس تک نہیں ہوتا۔منٹو، نژادِ نو، زندگی اے زندگی، برہنہ اور ایکٹرس وغیرہ میں بھی یہی انداز موجود ہے۔

منٹو۔۔۔میں نے اس کو دیکھا ہے 

اجلی اجلی سڑکوں پر اک گرد بھری حیرانی میں 

پھیلتی بھیڑ کے اوندھے اوندھے کٹوروں کی طغیانی میں ۔۔۔جب وہ خالی بوتل پھینک کے کہتا ہے ۔۔۔’’دنیا! تیرا حسن، یہی بد صورتی ہے‘‘

دنیا اس کو گھورتی ہے ۔۔۔شور سلاسل بن کر گونجنے لگتا ہے ۔۔۔انگاروں بھری آنکھوں میں یہ تند سوال ۔۔۔کون ہے یہ جس نے اپنی بہکی بہکی سانسوں کا جال ۔۔۔بام زماں پر پھینکا ہے 

کون ہے جو بل کھاتے ضمیروں کے پر پیچ دھندلکوں میں ۔۔۔

روحوں کے عفریت کدوں کے زہر اندوز محلکوں میں ۔۔۔۔لے آیا ہے یوں بن پوچھے اپنے آپ ۔۔۔۔عینک کے برفیلے شیشوں سے چھنتی نظروں کی چاپ ۔۔۔۔کون ہے یہ گستاخ ۔ تاخ تڑاخ!۔۔۔۔

 ڈاکٹر وزیر آغا نے درست لکھا ہے کہ:

’’مجید امجد نے خارج کی مادی دنیا کو باطن کی غیر مادی دنیا سے مربوط کرنے میں فنی بالیدگی کا ثبوت دیا ہے۔‘‘

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

آخرت کی زندگی!

قرآن کریم اﷲجل شانہ کی آخری کتاب ہے جو سراپا حق ہے زندگی موت مابعد الموت، زندگی سے پہلے کیا تھا۔ اس زندگی کے بعد کیا ہوگا؟ تمام حقائق کو بڑے واضح آسان اور دل نشیںانداز میں بیان فرماتی ہے، حتمی اور یقینی بات کرتی ہے، جس میں ادنیٰ سا شبہ بھی نہیں۔

اسلام میں یتیموں کے حقوق

’’یتیم‘‘ اُس نابالغ بچے یا بچی کو کہا جاتا ہے کہ جس کے سر پرسے اُس کے باپ کا سایہ اُٹھ گیا ہو۔ اسلام نے مسلمانوں کو یتیم بچوں کے حقوق ادا کرنے اور اُن کے حقوق کی نگہبانی کرنے کی بڑی سختی سے تاکید کی ہے۔ یتیم بچوں کو اپنی آغوش محبت میں لے کر اُن سے پیار کرنا، اُن کو والد کی طرف سے میراث میں ملنے والے مال و اسباب کی حفاظت کرنا، اُن کی تعلیم و تربیت کی فکر کرنا، سن شعور کو پہنچنے کے بعد اُن کے مال و اسباب کا اُن کے حوالے کرنا اور انہیں اِس کا مالک بنانا اور بالغ ہونے کے بعد اُن کی شادی بیاہ کی مناسب فکر کرکے کسی اچھی جگہ اُن کا رشتہ طے کرنا، اسلام کی وہ زرّیں اور روشن تعلیمات ہیں جن کا اُس نے ہر ایک مسلمان شخص کو پابند بنایا ہے۔

سید الشہداء سیدنا حضرت امیر حمزہ ؓ

سید الشہداء سیدنا حضرت امیر حمزہ اسلام کے ان جانثاروں میں سے ہیں جن کی خدمات مینارہ نور اور روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔ جب تک آپؓ حیات رہے آپؓ نے عملی طور پر سرکاردوعالمﷺ کے نائب کا کردار ادا فرمایا۔ غزوہ احد وبدر میں آپؓ اسلامی لشکر کے سالار رہے۔ بعثت کے چھٹے سال سے لے کر 3ہجری تک،اعلان اسلام سے لے کر غزوہ احد میں سید الشہداء کا بلند مقام ملنے تک آپؓ کی پوری حیات مستعار حفاظت مصطفی کریم ﷺ میں بسر ہوئی۔

مسائل اور ان کا حل

باجماعت نماز میں امام کی قرات میں مختلف آیات کا جواب دینے کی شرعی حیثیت سوال :امام صاحب اگرباجماعت نمازمیں اگرایسی آیات تلاوت کریں جس میں دعا کا ذکر ہویااللہ تعالیٰ کی کبریائی بیان ہویاجس میں عذاب الٰہی کا ذکرہواورمقتدی دعاکی صورت میں ’’آمین، سبحان اللہ، یا اعوذ باللہ‘‘ دل میں کہے ،کیاایساکرناجائزہے؟

حکومتی اعتماد میں اضافے کے دلائل

21 اپریل کے ضمنی انتخابات کے بعد حکومت کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ 8 فروری کے انتخابات کے بعد جب مسلم لیگ (ن) اور اس کے اتحادیوں کی حکومت قائم ہو ئی تو شہباز شریف کو ووٹ دینے والوں کو شبہ تھا کہ یہ حکومت زیادہ عرصہ نہیں چل پائے گی کیونکہ مشکل فیصلے کرنے ہوں گے ، معیشت سنبھالنا انتہائی کٹھن ہو گا، بانی پی ٹی آئی کی مقبولیت حکومت کیلئے مسلسل درد سر رہے گی، یہی وجہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے شہباز شریف کو وزارت عظمیٰ کا ووٹ تو دیا مگر اہم ترین اتحادی جماعت وفاقی کابینہ کا حصہ نہیں بنی۔

ضمنی انتخابات کا معرکہ(ن) لیگ نے سر کر لیا

ضمنی انتخابات کے حوالے سے عمومی رائے یہ رہی ہے کہ ان میں حکمران جماعت کو فائدہ ملتا ہے مگر 2018ء کے بعد اس تاثر کو دھچکا لگا ۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اپوزیشن جماعتیں اپنے ووٹرز میں تحریک پیدا کرکے انہیں پولنگ سٹیشنز تک لے آتی تھیں،مگر حالیہ ضمنی انتخابات میں حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) نے ضمنی انتخابات کا معرکہ سر کر لیا۔