جدوجہد آزادی میں خواتین کا تابندہ کردار،خواتین نے رکاوٹوں کے باوجود سیاسی منظرنامے میں اپنا طاقتور کردار نبھایا

تحریر : طیبہ بخاری


مملکتِ خدادادپاکستان کی جدوجہد آزادی میں خواتین کا سیاسی شعور اور علمی کردار کسی طور کم نہ تھا ،خواتین نے قربانیوں کی وہ تاریخ رقم کی جو ہمیشہ کیلئے امر ہوگئی اورآنیوالے ہردورکی خواتین کیلئے مشعل راہ بن گئی۔ مسلمان خواتین نے ان گنت رکاوٹوں کے باوجود سیاسی منظر نامے میں اپنا طاقتورکر دار نبھایا۔ وہ چار دیواریوں سے باہر آئیں اور علیٰحدہ وطن کے حصول تک جدوجہد کی۔قائداعظمؒ کی بے مثل قیادت میں تحریکِ آزادی میں مردوں کی طرح خواتین نے بھی کلیدی کردار ادا کیا جو تاریخ میں ہمیشہ روشن و تابندہ رہے گا ۔قائد اعظمؒ نے خواتین کارکنوں کی ہمیشہ حوصلہ افزائی کی۔ آپؒ اکثر کہا کرتے کہ قلم اور تلوار کے علاوہ تیسری طاقت بھی ہے اور وہ ہے ’’خواتین ‘‘ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا ۔

 محترمہ فاطمہ علی جناح، بی اماں، بیگم امجدی بانو،بیگم رعنالیاقت علی خان، فاطمہ صغریٰ، بیگم شفیع ، لیڈی ہارون ، بیگم نواب آف بھو پال اور بیگم سلمیٰ تصدق حسین کے شانہ بشانہ بے شمار خواتین تھیں جنہوں نے اپنی زندگیاں جدوجہدِ پاکستان کیلئے وقف کیں۔ ان خواتین کا مسلمانوں کیلئے علیٰحدہ ریاست حاصل کرنے کا جذبہ اپنی مثال آپ تھا،جبر و تشددکا سامناکرتے ہوئے خواتین کی فعال شرکت نے تحریک پاکستان میں ایک نئی روح پھونکی۔یہ وہ خواتین تھیں جو بیسویں صدی میں علمی ، معاشرتی ، تعلیمی ، سیاسی میدان کی جانباز سرگرم اور نڈ رکارکن ثابت ہوئیں ۔ انہوں نے عام گھریلو عورت میں نہ صرف سیاسی شعور بیدار کیا بلکہ علیٰحدہ ملّی تشخص کی تحریک کا جذبہ بھی اجاگر کیا تاکہ خواتین تحریک پاکستان کی جدوجہد میں عملی طاقت بن کر اُبھریں۔ یہی وہ طاقت تھی جس نے خواتین کو اتنا بے خوف ونڈر بنادیا کہ وہ کسی سامراج یا ہندو بنیئے سے نہ ڈریں بلکہ بلا خوف و خطر حب الوطنی کے جذبے سے سرشار عظیم مقصد کی بار آوری کیلئے متحد ہوگئیں۔

محترمہ فاطمہ علی جناح: آپ قائداعظم کا نقش ثانی تھیں۔ آپؒ کی باوقار شخصیت کا تصور ہمیں اس دور کی یاددلاتا ہے جب 23 مارچ 1940ء کی قرارداد لاہور کی منظوری کے بعد اس امر کی شدت سے ضرورت محسوس ہورہی تھی کہ برصغیر کی مسلمان خواتین کو  مسلم لیگ کے پرچم تلے مجتمع اور منظم کیا جائے۔بابائے قوم ؒکی خواہش پر اس کارِ عظیم کا بیڑہ مادرِ ملتؒ نے اٹھایا اور شب و روز جدوجہد سے پورے برصغیر کی مسلمان خواتین کو تحریک آزادی میں متحرک کردیا۔ اسکی بدولت قیامِ پاکستان کے کٹر مخالفین کو بھی یقین ہوگیا کہ اب پاکستان کو معرضِ وجود میں آنے سے روکنا ناممکن ہے۔ مادرِ ملتؒ کا یہ کارنامہ اسلامیانِ ہند کی تاریخ میں سنہرے حروف میں قلمبند ہے۔آپؒنے ایثار اور قربانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے عظیم المرتبت بھائی کا ہر مرحلے پر ساتھ دیا۔ اپنا ڈینٹل کلینک بند کر کے قائداعظمؒ کی خدمت کی ذمہ داری اتنے احسن انداز میں سنبھالی کہ بابائے قومؒ تمام تفکرات سے یکسر آزاد ہوگئے اور مکمل یکسوئی کے ساتھ تحریک پاکستان کی قیادت کرنے لگے۔ راست بازی، اصولوں سے محبت اور نصب العین سے لگا ئومادرِ ملت کی شخصیت کے بنیادی ستون تھے، آپؒبرصغیر کی مسلم خواتین کیلئے بہترین نمونہ ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد جمہوریت کی بقا ء و سلامتی کی ملک گیر تحریک میں بھی مادر ملت صف اول کی سپاہی بنیں۔خواتین کیلئے کئی سماجی اور تعلیمی کاموں میں نہ صرف بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی رہیں بلکہ کئی اداروں کی بانی بھی تھیں، آپؒ قوم کیلئے ماں کی حیثیت رکھتی تھیں ، ایسی بہادر تھیں کہ بر صغیر کے عظیم قائدؒکے تمام حوصلے اور سیاسی طاقت آپ ہی کی مرہون منت تھی اور دور اندیش ایسی کہ قائد اعظم نے خود اعتراف کیا کہ میں کوئی بھی سیاسی حتمی فیصلہ اپنی بہن فاطمہ جناح کے مشورے کے بغیر نہیں کرتا۔آپ ؒپاکستانی خواتین کیلئے رول ماڈل ہیں، آپکے نقش قدم پر چل کر ہم اپنے پیارے دیس کو صحیح معنوں میں قائداعظمؒ اور علامہ محمد اقبالؒ کا پاکستان بنا سکتے ہیں۔

بی اماں : تحریک پاکستان میں ’’بی اماں ‘‘ کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں، 27 سال کی عمر میں بیوہ ہوئیں کاندھوں پر 6 بیٹوں اور ایک بیٹی کی ذمے داری تھی۔ زیور بیچ بیچ کر بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائی اور قسمت دیکھیے کہ بچے بھی کون، شوکت علی اور محمد علی، جو آگے چل کر’’علی برادران‘‘ کے نام سے جانے پہچانے گئے۔ بی اماں کا اصل نام آبادی بیگم اور تعلق امروہا سے تھا۔ آپکے والد ملازمت کے سلسلے میں امروہے سے رامپور آئے رامپور میں ہی آپکی شادی عبدالعلی خان سے ہوئی۔شادی سے پہلے آپ پڑھنا لکھنا  نہیں جانتی تھیں ، شادی کے بعد آپ نے اُردو لکھنے اور پڑھنے کی تربیت حاصل کی ۔ آپ بہت اچھی تقریر کیا کرتی تھیں کئی جلسوں میں تقاریر کیں، چند کانفرنسز کی صدارت بھی کی۔ جدوجہد آزادی کو آگے بڑھانے کیلئے چندہ جمع کرنا ہو یا پھر خواتین میں جذبہ ٔحریت کی بیداری، بی اماں ہر جگہ پیش پیش رہیں۔پھر بی اماں کیساتھ ان کی بہومولانا محمد علی جوہر کی زوجہ امجدی بانو بیگم نے بھی پورا پورا ساتھ نبھایا اور جدوجہد آزادی کو منزل تک پہنچایا ۔

بیگم رعنا لیاقت علی خان:بیگم رعنا لیاقت علی خان کی خدمات کا ذکر کیے بغیربھی تاریخ ادھوری رہیگی ۔ آپ نے قرار دادِ پاکستان کے مسودے کی تیاری کے دوران اہم کردار ادا کیا۔ معاشیات (Economics) میں ماسٹر ز ہونے کے باعث آپ نے جناح کمیٹی میں بطوراقتصادی مشیرخدمات سرانجام دیں  آپ پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کی بیگم تھیں، اس طرح پہلی خاتون اوّل بنیں اس کے علاوہ سندھ کی پہلی خاتون گورنر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ آپ نے مملکتِ خداداد میں عورتوں کو بااختیار بنانے سے متعلق پروگرام کا آغاز کیا 1950ء میں ہالینڈ میں پاکستان کی پہلی سفیر مقرر ہوئیں جبکہ 1960ء میں اٹلی اور بعدازاں تیونس میں بھی بطور پاکستانی سفیر خدمات سرانجام دیں۔1952ء میں اقوام متحدہ میں پاکستان کی پہلی خاتون نمائندہ ہونے کا اعزاز حاصل کیا جبکہ 1973ء سے 1976ء کے دوران پاکستان کی پہلی خاتون گورنر (سندھ)کے طور پرفرائض نبھائے۔ پاکستان ویمن نیشنل گارڈ، ویمن نیول ریزرو ، گھریلو صنعتوں ، تعلیمی اداروں بالخصوص ہوم اکنامکس کی تعلیم کے اداروں کے علاوہ پہلی غیر سرکاری تنظیم اپوا(APWA) قائم کرنے کا اعزاز بھی آپ کو حاصل ہے۔

لیڈی عبداللہ ہارون :ممتاز خاتون رہنما لیڈی عبداللہ ہارون 1886ء میں پیدا ہوئیں ، 1914ء میں سر عبداللہ ہارون سے شادی ہوئی ۔ آپ سندھ میں خواتین کی تنظیم  ’’انجمن خواتین ‘‘ کی بانی تھیں۔ اس تنظیم کا مقصد سندھ کی خواتین ک اقتصادی و سماجی حالت کو درست کرنا تھا۔ آپ عورتوں کی تعلیم کی بڑی حامی تھیں اپنے گھر میں سکول قائم کرکے اپنے علاقے کی عورتوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرتی تھیں۔ بیگم عبداللہ ہارون کا سیاسی کیریئر 1919ء میں اس وقت شروع ہوا جب آپ نے سندھ میں خلافت تحریک کیلئے جدوجہد شروع کی ۔1938ء میں آپ کو آل انڈیا مسلم لیگ خواتین کی سینٹرل سب کمیٹی میں نامزد کیا گیا اور سندھ میں خواتین کی سب کمیٹی کی صدر منتخب ہوئیں۔ آپ نے خواتین کو مسلم لیگ کے جھنڈے تلے متحد کرنے کیلئے دن رات کام کیا 1943ء میں خواتین نیشنل گارڈ کی تقریب ہوئی اس میں 5 ہزار خواتین نے شرکت کی تو قائد اعظم ؒ نے خواتین کی مخاطب کرکے کہا کہ’’ خواتین کو سپاہیوں کی طرح کام کرنا ہوگا۔ تب جاکر ہم پاکستان حاصل کرسکیں گے۔‘‘

سرحد میں خواتین کی عظیم خدمات:سب سے زیادہ خواتین کو صوبہ سرحد میں منظم کرنا مشکل تھا کیونکہ یہاں پردے کی سخت پابندی کی وجہ سے گھروں سے باہر آکر جلسے جلوس کا حصّہبننے کی اجازت نہیں تھی مگر قائد اعظم کی قیادت میں خواتین منظم ہوئیں بلکہ شہر شہر جلسے جلوس منعقد کرنے میں ان خواتین نے انتہائی دلیرانہ کردار ادا کیا مردوں کے بعد سر حد جیسے صوبے میں خواتین کا آزادی کا پرچم تھام کر  اٹھنا برطانوی سامراج کیلئے انتہائی پریشان کن تھا۔ تحریک آزادی کو کچلنے کیلئے خواتین کوزدوکوب کیا جاتا، قیدو بند کی اذیتیں بھی دی گئیں مگر ان کا حوصلہ نہ ٹوٹا۔پنجاب کی فاطمہ کی طرح سرحد کی فاطمہ سردار حیدر نے بھی سیکرٹریٹ کا یونین جیک اُتار کر مسلم لیگ کا جھنڈا بلند کیا۔ بالا حصار پل پر ریل گاڑی روکنے کیلئے خواتین پٹری پر لیٹ گئیں اور بے شمار زخمی بھی ہوئیں مگر زخموں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ریڈیو اسٹیشن پشاور پہنچ گئیں اور عمارت کا گھیرائو کر لیا ان خواتین کے پاس کوئی ہتھیار نہیں تھے فقط جذبہ تھا جس نے انگریزوں کو دن میں تارے دکھادیئے ریفرنڈم کا اعلان جب سرحد میں ہوا تو یہ خواتین ہی تھیں جنہوں نے گھر گھر جاکر  قیام پاکستان کا شعور دیا ، حالانکہ یہاں کانگریس کی وزارت تھی اور پاکستان کیلئے عام لوگوں کی رائے ہموار کرنا کوئی آسان کام نہ تھا مگر خواتین مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے اپنی سیاسی بصیرت اور معاملہ فہمی سے عام لوگوں کی رائے پاکستان کے حق میں ہموار کرنے کیلئے کوشاں رہیں یہی وجہ ہے کہ ووٹنگ کے عمل میں کانگریس کو منہ کی کھانی پڑی اور اس بات کا کریڈٹ سرحد کی خواتین کو جاتا ہے۔ 1935ء کے ایکٹ کے مطابق مسلم خواتین کو ووٹ کا حق حاصل نہ تھالیکن مسلم ویمن ونگ کی خواتین نے اس قانون کی بھرپور مزاحمت کی۔

مولانا حسرت موہانی اپنی آپ بیتی ’’مشاہداتِ زنداں‘‘ میں لکھتے ہیں کہ جون 1908ء کو اپنے رسالہ’’ اردوئے معلی‘‘ میں ایک مضمون شائع کرنے پر بغاوت کے جرم میں مجھے گرفتار کر لیا گیا اور مقدمہ چلا کر 2 سال قید با مشقت اور 50 روپے جرمانے کی سزا سنائی گئی ۔ اپیل کرنے پر سزا ایک سال کر دی گئی اور جرمانے کی رقم بھائی نے ادا کردی۔ گرفتاری کے وقت میری شیرخوار بیٹی نعیمہ بے حد علیل تھی گھر میں میری اہلیہ اور ایک خادمہ کے سوا اور کوئی نہ تھا لیکن اس موقع پر بھی میری اہلیہ نشاط النساء نے بے حد حوصلے اورجرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اگلے ہی روز سپرنٹنڈنٹ جیل کے ذریعے مجھے خط لکھا جس میں یہ کہہ کر حوصلہ بڑھایا:’’تم پر جو افتاد پڑی ہے ، اسے مردانہ وار برداشت کرو، میرا یا گھر کا مطلق خیال نہ کرنا۔ خبردار! تم سے کسی قسم کی کمزوری کا اظہار نہ ہو۔‘‘

لکھنؤ کے ایک جلسے کے دوران قائد اعظم نے مسلم لیگ ویمن ونگ بنانے کی خواہش کا اظہار کیا اور 1938ء کے جلسے کے چند سیشن کے بعد قائداعظمؒ نے فرمایا کہ ہر ڈسٹرکٹ میں عورتوں کا مسلم لیگ ونگ بنایا جائے، ہر شہر کے محلوں میں خواتین نے دورے کر کے  آزادی کیلئے سیاسی شعور بیدار کیا اور دو تین سال کے اندر خواتین کا ہر طبقہ سفر آزادی میں شامل ہو گیا، سرحد (خیبرپختونخوا) میں خواتین کو متحرک کرنے میں بیگم زری سرفراز کا نام قابلِ ذکر ہے ۔ 1940ء میں اپنی والدہ کے ہمراہ زری سرفراز مردان سے لاہور آئیں تاکہ مسلم لیگ کے تاریخ ساز جلسے میں شرکت کریں ، انہوں نے مردان کے جلسے میں قائد اعظم ؒکی خدمت میں چندے کی رقم پیش کی جو انہوں نے بہار کے ہندو مسلم فسادات میں متاثرین کیلئے گھر گھر جا کر جمع کیا تھا۔

برصغیر کی مسلم خواتین کے جذبۂ جوش آزادی کا اندازہ اس حقیقت سے بھی ہوتا ہے کہ انہوں نے نہ صرف اپنے آپ کو متحد کیا بلکہ فکری و علمی اصلاح کیلئے درس و تدریس کے میدان میں سر شار ہو کر کام کیا۔یہاں ہم آپ کو یہ بھی بتاتے چلیں کہ فاطمہ بیگم قائداعظم کے فرمان پر اپنی نوکری کو خیر باد کہہ کر بمبئی سے لاہو آئیں تاکہ یہاں کی خواتین کو سیاسی حلقے میں شامل کر کے منظم کریں۔ فاطمہ بیگم نے آزادی کے مشن کو آگے بڑھانے کیلئے ایک اور مثبت قدم اٹھایا اورمسلم خواتین کی دوسری تنظیم ’’انجمن خواتین اسلام ‘‘کی بنیاد 1908ء میں رکھی اسکی بانی لیڈی شفیع تھیں جنہوں نے خواتین میں تعلیم کا شوق پیدا کرنے اور سیاسی بیداری کیلئے نمایاں کردار ادا کیا -بیگم شفیع نے اپنی تقریروں اور علمی مقالات و خطبات سے نہ صرف معاشرے کی خواتین کو باشعور بنا کر سفرِ آزادی کیلئے تیار کیا بلکہ اپنی بیٹیوں جہاں آراء شاہنواز اور گیتی آراء بیگم کو بھی مسلم لیگ کا سرگرم کارکن بنایاجنہوں نے قائداعظم کا بے حد ساتھ دیا اور بے لوث جذبہ و عقیدت کے ساتھ پاکستان کے قیام کو اپنا نصب العین سمجھا انہوں نے اپنی خدمات کو اپنی کتاب سوانح عمری بعنوان (daughter and father )میں قلمبند کر کے خواتین کے کردار کو زندہ و جاوید بنادیا تاکہ اس کو پڑھ کر آج کل کی بہنیں وبیٹیاں ومائیں اسی جذبے سے سرشارہوکہ اپنے پاکستان کی خدمت کریں۔ یہ واقعہ بھی قابل ستائش ہے کہ 1946ھ میں آل انڈیا ویمن کانفرنس ہوئی جس کی صدر بیگم نواب بھو پال تھیں اس کانفرنس میں سائمن کمیشن کے چیئر مین نے مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے شرکت کی، وہ خواتین کی تقاریر سننے کے بعد انگشت بدندان ہوگیا اور اس نے اپنی رپورٹ میں لکھا: ’’ ہندوستان کی آزادی اور اس میں کامیابی کی کنجی اس کی عورتوں کے ہاتھ میں ہے‘‘۔ ایسا ہی اعتراف گاندھی نے کیا ’’عدم تشدد کا سبق میں نے اپنی بیوی سے سیکھا۔‘‘

تحریک پاکستان میں خواتین کی فعال شرکت نے ہمیں آزادی سے ہمکنار کیا۔ہمارا سلام ان تمام خواتین پر جن کا تاریخ میں نام آیا یا نہیں آ سکا لیکن ان سب کی عظیم قربانیوں کی بدولت ہمیں آزادی کا انمول تحفہ ملا ۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

آخرت کی زندگی!

قرآن کریم اﷲجل شانہ کی آخری کتاب ہے جو سراپا حق ہے زندگی موت مابعد الموت، زندگی سے پہلے کیا تھا۔ اس زندگی کے بعد کیا ہوگا؟ تمام حقائق کو بڑے واضح آسان اور دل نشیںانداز میں بیان فرماتی ہے، حتمی اور یقینی بات کرتی ہے، جس میں ادنیٰ سا شبہ بھی نہیں۔

اسلام میں یتیموں کے حقوق

’’یتیم‘‘ اُس نابالغ بچے یا بچی کو کہا جاتا ہے کہ جس کے سر پرسے اُس کے باپ کا سایہ اُٹھ گیا ہو۔ اسلام نے مسلمانوں کو یتیم بچوں کے حقوق ادا کرنے اور اُن کے حقوق کی نگہبانی کرنے کی بڑی سختی سے تاکید کی ہے۔ یتیم بچوں کو اپنی آغوش محبت میں لے کر اُن سے پیار کرنا، اُن کو والد کی طرف سے میراث میں ملنے والے مال و اسباب کی حفاظت کرنا، اُن کی تعلیم و تربیت کی فکر کرنا، سن شعور کو پہنچنے کے بعد اُن کے مال و اسباب کا اُن کے حوالے کرنا اور انہیں اِس کا مالک بنانا اور بالغ ہونے کے بعد اُن کی شادی بیاہ کی مناسب فکر کرکے کسی اچھی جگہ اُن کا رشتہ طے کرنا، اسلام کی وہ زرّیں اور روشن تعلیمات ہیں جن کا اُس نے ہر ایک مسلمان شخص کو پابند بنایا ہے۔

سید الشہداء سیدنا حضرت امیر حمزہ ؓ

سید الشہداء سیدنا حضرت امیر حمزہ اسلام کے ان جانثاروں میں سے ہیں جن کی خدمات مینارہ نور اور روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔ جب تک آپؓ حیات رہے آپؓ نے عملی طور پر سرکاردوعالمﷺ کے نائب کا کردار ادا فرمایا۔ غزوہ احد وبدر میں آپؓ اسلامی لشکر کے سالار رہے۔ بعثت کے چھٹے سال سے لے کر 3ہجری تک،اعلان اسلام سے لے کر غزوہ احد میں سید الشہداء کا بلند مقام ملنے تک آپؓ کی پوری حیات مستعار حفاظت مصطفی کریم ﷺ میں بسر ہوئی۔

مسائل اور ان کا حل

باجماعت نماز میں امام کی قرات میں مختلف آیات کا جواب دینے کی شرعی حیثیت سوال :امام صاحب اگرباجماعت نمازمیں اگرایسی آیات تلاوت کریں جس میں دعا کا ذکر ہویااللہ تعالیٰ کی کبریائی بیان ہویاجس میں عذاب الٰہی کا ذکرہواورمقتدی دعاکی صورت میں ’’آمین، سبحان اللہ، یا اعوذ باللہ‘‘ دل میں کہے ،کیاایساکرناجائزہے؟

حکومتی اعتماد میں اضافے کے دلائل

21 اپریل کے ضمنی انتخابات کے بعد حکومت کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ 8 فروری کے انتخابات کے بعد جب مسلم لیگ (ن) اور اس کے اتحادیوں کی حکومت قائم ہو ئی تو شہباز شریف کو ووٹ دینے والوں کو شبہ تھا کہ یہ حکومت زیادہ عرصہ نہیں چل پائے گی کیونکہ مشکل فیصلے کرنے ہوں گے ، معیشت سنبھالنا انتہائی کٹھن ہو گا، بانی پی ٹی آئی کی مقبولیت حکومت کیلئے مسلسل درد سر رہے گی، یہی وجہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے شہباز شریف کو وزارت عظمیٰ کا ووٹ تو دیا مگر اہم ترین اتحادی جماعت وفاقی کابینہ کا حصہ نہیں بنی۔

ضمنی انتخابات کا معرکہ(ن) لیگ نے سر کر لیا

ضمنی انتخابات کے حوالے سے عمومی رائے یہ رہی ہے کہ ان میں حکمران جماعت کو فائدہ ملتا ہے مگر 2018ء کے بعد اس تاثر کو دھچکا لگا ۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اپوزیشن جماعتیں اپنے ووٹرز میں تحریک پیدا کرکے انہیں پولنگ سٹیشنز تک لے آتی تھیں،مگر حالیہ ضمنی انتخابات میں حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) نے ضمنی انتخابات کا معرکہ سر کر لیا۔