بانو قدسیہ کی زندگی کے دلچسپ واقعات

تحریر : ڈاکٹر شاہدہ دلاور شاہ


جہاں بانو قدسیہ کا قلم نثر میں خوب چلا وہاں وہ ایک اچھی شاعرہ بھی تھیں مگر انہوں نے یہ بات کبھی کسی کو محسوس نہ ہونے دی،بانو قدسیہ اور اشفاق احمد کی جوڑی نے مل کر ادب کی کشتی کو سہارا دیا، انہوں نے اپنی شادی کے ایک سال بعد رسالہ’’داستان گو‘‘ کا اجرا کیا

زمانہ، تاریخ اور آدم اسے ہی یاد رکھتے ہیں جو یاد رکھے جانے ک سزاوار ہوتا ہے۔اردو ناول میں قرۃ العین حیدر کے بعد جس خاتون نے فکشن میں نام کمایا ہے اسے بانو قدسیہ کہا جاتا ہے۔اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ شخصیت کے اعتبار سے وہ بہت سادہ، مشفق اور پر خلوص عورت تھیں۔ انہوں نے ناول کو نئی جہت اور نئے زاویے عطا کیے۔ ان کو اپنے بارے میں کوئی دعویٰ نہ تھا۔وہ اکثر اپنے معروف زمانہ ناول’’راجہ گدھ‘‘ کے بارے میں کہتیں کہ میں اس قابل نہ تھیں یہ کسی غیبی قوت نے مجھ سے لکھوایا ہے۔یہ بھی سچ ہے کہ بانو نے ’’راجہ گدھ‘‘ کے لیے علامتی کائنات کے زریعے جس سفر کا آغازِ سخن کیااس سے انصاف نہ کرسکیں یا اس سفر کا حتمی انجام نہ ہو سکا۔جو بھی ہے ،یہ کہنا پڑے گا بانو قدسیہ نے پاکستانی ادب میں جو بھی لکھا جیسا بھی لکھا نثر میں اپنا نام ضرور بنایا ہے اور اس کے صلے میں  وہ ادبی دنیا میں ہمیشہ زندہ رہیں گی ویسے بھی بڑے ادیب مرتے نہیں بس لکھنا چھڑ دیتے ہیںاورجب وہ لکھنا چھوڑ دیتے ہیں نئے ادیب کے ہاتھ قلم آ جاتا ہے یوں اچھا لکھنے والا پچھلے ادیب کے ساتھ آ کر تہذیب سے لکھنا شروع کر دیتا ہے۔بانو قدسیہ کے شوہر اشفاق احمد بھی بڑے لکھاریوں میں شمار ہوتے ہیں۔ ایک بات کہتی چلوں کہ جہاں بانو قدسیہ کا قلم نثر میں خوب چلا وہاں وہ ایک اچھی شاعرہ بھی تھیں مگر انہوں یہ بات کبھی اپنے شوہر کو محسوس نہ ہونے دی کہ وہ ایک عمدہ شاعرہ بھی ہیں۔بانو قدسیہ اور اشفاق احمد کی جوڑی نے مل کر ادب کی کشتی کو سہارا دیا۔ انہوں نے اپنی شادی کے ایک سال بعد رسالہ ’’داستان گو‘‘ کا اجرا کیا جسے چار سال تک بہ احسن انداز نکالتے رہے پھر کسی مجبوری کے باعث اسے بند کر دیا ۔ ان کے دور میں پاکستان ٹیلی وژن کا نیا نیا آغاز ہوا تھا  لہذا ان لوگوں کو لکھنے کا کا ایک وسیع اور بہترین موقع مل گیا۔ یہ لوگ ٹیلی ویژن کے لیے ریگولر بنیادوں پر لکھتے رہے۔ بانو قدسیہ نے جذبات اور اقدار کے بحران کو اپنے ناول راجہ گدھ کا موضوع بنایا اس کے ساتھ ساتھ یہ باور کرایا کہ انسان کی انسان میں عدم دلچسپی، انتشار اور حرام و حلال کے فلسفے کو نہ سمجھنا ہی در اصل اسلامی اخلاقیات سے دوری ہے۔انہوں نے ایک ساتھ ڈرامہ، ناول اور افسانہ نگاری کی ۔وہ اٹھائیس نومبر انیس سو اٹھائیس کو فیروز پور،برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئیں۔ابھی عمر عزیز کا چوتھا سال تھا کہ شفقت پدری سے محروم ہو گئیں۔پاکستان بننے کے بعد اپنے عزیز و اقارب کے ساتھ پاکستان کی طرف ہجرت فرمائی قبل ازیںہما چل پردیش دھرم شالا میں زیر تعلیم رہیں۔بانو قدسیہ نے ایک پڑھی لکھی ماں کی گود میں پرورش پائی۔ وہ معروف سخن کار اشفاق احمد کی اہلیہ تھیں۔اشفاق احمد بھی جانے مانے براڈ کاسٹر، ناول نگار، ڈرامہ نگاراور افسانہ نگار تھے۔بانوں قدسیہ کو بچپن سے لکھنے پڑھنے کا شوق تھا ۔وہ مختلف ادبی جرائد اور رسائل میں چھپتی رہیں۔ کنیئرڈ کالج برائے خواتین لاہورسے ریاضیات اور اقتصادیات میں گریجویشن کیا اور پھر گورنمنٹ کالج لاہور سے 1951میں نمایاں نمبروں سے ایم اے اردو پاس کیا۔ وہ اردو اور پنجابی دونوں زبانوں میں لکھتی رہیں۔ان کے ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے ڈراموں نے بہت شہرت پائی۔حکومت پاکستان کی جانب سے انہیں 1983 میں ستارہء امتیاز ، دوہزاردس میں ہلال امتیاز، 2012میں کمال فن ایوارڈ اور2016میں اعزازِ حیات (life time achievement award) سے نوازا گیا۔وہ چار فروری دوہزار سترہ کو شام پانچ بج کر پندرہ منٹ پر اٹھاسی سال کی عمر میں اپنے خالق حقیقی سے جاملیں۔ یوں وہ اٹھاسی سال دو ماہ سات دن زندہ رہیں۔ اب وہ ماڈل ٹائون لاہور میں آسودہ خاک ہیں۔ان کی تخلیقات میں آتشِ زیر پا، آدھی بات، ایک دن، امر بیل، آسے پاسے، بازگشت، چہار چمن، چھوٹا شہر بڑے لوگ ، دست بستہ، دوسرا دروازہ، دوسرا قدم، حاصل گھاٹ، فٹ پاتھ کی گھاس، ہجرتوں کے درمیان، کچھ اور نہیں، لگن اپنی اپنی، موم کی گلیاں، پیا نام کا دیا، پروا، ناقابلِ ذکر، راجہ گدھ، سامان وجود، شہر بے مثال، شہر لا زوال آباد ویرانے، سدھراں، سورج مکھی، تماثیل، توجہ کی طالب، پھر اچانک یوں ہوا ، اور راہواں شامل ہیں۔انہوں نے جتنا بھی لکھا ، معیاری اور دلوں میں اتر جانے والا ادب تحریر کیا۔جس گھر میں کوئی دوسرا فرد یا ذرا سا سینئر للھنے والا موجود ہو تا ہے وہاں عموماً جونیئر شخصیت سینئر کے اثر تلے دب جاتی ہے مگر بانو قدسیہ نے ایسا نہیں ہونے دیااگرچہ اس سلسلے میں انہیں بہت تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ لوگوں نے ان کے بارے میں یہاں تک کہہ دیا کہ بانو قدسیہ کو کوئی اور لکھ کر دیتا ہے۔ اصل میں ان لوگوں نے یہ اشارہ یہاں سے اٹھایاکہ بانو قدسیہ نے خود کہہ رکھا ہے کہ وہ اشفاق صاحب کی شاگردہیں، انہوں نے ان کو دیکھ کر لکھنا پڑھنا سیکھااور یہ کہ میں ان کو اپنا ستاد مانتی ہوں۔دوسری جانب اشفاق احمد یہ کہتے نہ تھکتے تھے کہ بانو مجھ سے بہتر لکھتی ہے میں کیسے اس کو لکھ کر دے سکتا ہوں۔ کئی ناقدین بانو قدسیہ کے حق میں کہتے ہیں کہ یہ طویل تحریر’’راجہ گدھ‘‘اشفاق احمد کی نہیں بلکہ بانو قدسیہ کی اپنی سوچ ہے، اتنی لمبی سانس والی تخلیق بانو کا ہی خاصہ ہے، اشفاق احمد نے تو ڈرامے ، افسانے ، فیچرز اور مضامین لکھے ہیں جو سانس توڑ توڑ کر لکھے جاتے ہیں یہ ان کا اسلوب ہی نہیں۔ بانو ایک عورت تھیں اس لیے ان کا موضوع بھی عورت تھا۔ دو درجن سے زیادہ ان کی کتابیں ہیں ان میں سے ’’راجہ گدھ‘‘ جو گزشتہ نصف صدی کا مقبول ترین ناول ہے۔ یہ ناول 1981 سے اب تک برابر مشہور ہے۔بانو قدسیہ نے احساس، روایت او ر فکر کے مرکب سے زندگی کی کہانی بُنی ہے ۔انہوں نے اپنا اسلوب خود گھڑا، وہ اس ہنر سے اپنے پڑھنے والوں کو راستہ بتاتی ہیں۔بانو قدسیہ نے فیمینزم اور فلسفے کی انگلی پکڑ کر لکھنے کو ترجیح دی۔ وہ اشفاق احمد کے علاوہ ممتاز مفتی اور قدرت اللہ شہاب سے بھی متاثر تھیں۔قدرت اللہ شہاب پر تو انہوں نے اپنی ایک کتاب بھی لکھی ہے جس کا نام’’مردابریشم‘‘ ہے۔

کہا جاتا ہے کہ پیر کی حد تک شوہر کو پوجنے والی ، اس کی وفات کے بعد لکھنا پڑھنا ہی بھول گئی۔ انہیں کوئی بھی موضوع اب اچھا نہ لگتا۔ اگر کسی پرانے تخلیق کار پر بات کرنے کے لیے اسے دعوت فکر دی جاتی تو وہ معذرت کر لیتیں اور صاف کہہ دیتیں کہ وہ صرف اشفاق احمد پر ہی بات کرسکتی ہیں۔ 

بانو قدسیہ نے ایک روائتی مشرقی ملنسار اور محبت و احترام کے رشتوں میں گندھی ہوئی بیوی کا ثبوت دیا ہے ۔ وہ اس بات کا برملا اظہار کرتی ہیں کہ ان کا پہلا اور آخری ادبی حوالہ ان کے شوہر نامدار اشفاق احمد ہیں۔اس احسان مندی پر وہ اپنی عمر کے آخری دن تک قائم رہیں۔وہ انہیں شادی کے بعد شوہر نہیں بلکہ استاد جی کہتی ہوئی نظر آئیں۔ وہ خود اعتراف کرتی ہیں :

’’میرا ادیب ہونا اچنبھے کی بات ہے۔37 سال سے لکھ رہی ہوںاور جب بھی لکھنا شروع کرتی ہوں تو مجھے یہ خیال ہوتا ہے کہ میں ایک ڈیڑھ صفحہ سے زائدہ نہ لکھ پائوں گی۔ لیکن ڈرامہ یا افسانہ لکھا جاتا ہے۔ اور بات بن جاتی ہے۔ اشفاق احمد نے بطورا ستاد میری بڑی مدد کی اور رہنمائی بھی۔ورنہ شائد میں ایسے افسانے لکھتی جو عام خواتین لکھتی ہیں۔ اشفاق صاحب نے استاد کی حیثیت سے مجھے لکھنے کی تکنیک سمجھائی۔اور میں ان کے بتائے ہوئے اصولوں پر چلی۔‘‘ 

بانو قدسیہ کے قلم میں توانائی، روانی، شگفتگی، تخیل کی تازگی اور کردار سازی کا ہنر موجود تھا۔ ا سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ حقیقت پسندی کو اپنایا جائے اور توتے کی طرح چشم پوشی سے بچا جائے۔ مافوق الفطرت اور الف لیلوی مخلوق میں تو ماورائے عقل کا فلسفہ چل سکتا ہے مگر گوشت پوست کے انسانوں کو گوشت پوست کے انسانوں کی مثالیں درکار ہوتی ہیں۔ممتاز مفتی، قدرت اللہ شہاب، اشفاق احمد، بانو قدسیہ ، بابا یحییٰ، عمیرہ احمداور نمرہ احمد کا فلسفہ اور عشق حقیقی، ادب اور عہد موجود کے روشن ذہن قاری کی ادبی تشفی سے عدم تعاون کرتا ہے۔اس طرح کچے اذہان الجھنوں، اوہام اور گمراہی کی جانب قدم بڑھانا شروع کر دیتے ہیں۔ موجودہ ادب اس بات کا متقاضی ہے کہ وہ حقیقی صورت حال کو اگر مجاز میں بھی پیش کرے تو معروضیت اپنے پورے وجود کے ساتھ پیش آتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ مستعار کی آئیڈیالوجی اور عشق میں ناکامی کی جذباتیت کے شیرے سے تیار کی جانے والی مصنوعی منظر کشی پر آج نہیں تو کل۔۔۔۔۔متن پر سوال تو اٹھیں گے۔ جو ادب گرمیوں میں یخ بستہ ٹھنڈے اور سردیوں میں سمندر کے پانیوں سے نہا کر نکلے گا وہ چائنہ کے سستے اور غیر معیاری کھلونوں کی مانند جلد اپنا وجود کھو دے گا۔ کہا جاتا ہے کہ جس طرح ممتاز مفتی نے قدرت اللہ شہاب لکھا اسی طرح بانو قدسیہ نے ’’مرد ابریشم‘‘ لکھ کر ایک بیوروکریٹ کے احسانات کا احسان اتارا ہے۔بانوقدسیہ نے کہا کہ اشفاق احمد جس ’’باباجی‘‘کا اپنی تحریروں میں ذکر کرتے وہ یا تو واصف علی واصف تھے یا پھر’’ قدرت اللہ شہاب ‘‘ ۔ ۔

بانو قدسیہ نے عورت کے ساتھ ساتھ مرد کی نفسیات کے بارے میں بھی لکھا ہے  ان کی فکر، مختلف موضوعات اور ان کی کئی کئی جہات، حقیقت پسندانہ تخیل اور سوچ کی سادگی قاری کو اپنے قریب لے جاتی ہے ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

با با ناظر اور بونے

بابا ناظر ایک بوڑھا موچی تھا جو سارا دن سخت محنت کر کے جوتے بنایا کرتا تھا۔ایک بار سردیاں آئیں تو بابا ناظر ٹھنڈ لگ جانے کے باعث بیمار پڑ گیا۔اس کی بیماری اس قدر بڑھ گئی کہ وہ کوئی کام کرنے کے قابل نہیں رہا۔

کیمرا کیسے کام کرتا ہے؟

جو لوگ کیمرے سے تصویریں بناتے ہیں، ان میں سے اکثر لوگوں کو اس بات کا علم نہیں ہوتا کہ تصویر کھینچنے کا عمل کس طرح واقع ہوتا ہے۔

ذرامسکرائیے

اُستاد (شاگرد سے): ’’پنجاب کے پانچ دریائوں میں سے کوئی سے چار کے نام بتائو؟ شاگرد: ’’پہلے کا نام بتا کر،جناب دوسرا میں آپ سے پوچھنے والا تھا،تیسرا مجھے یاد نہیں اور چوتھا میری کتاب سے مِٹاہوا ہے‘‘۔٭٭٭

پہیلیاں

ایک بڈھے کے سر پر آگ گاتا ہے وہ ایسا راگ اس کے منہ سے نکلیں ناگجو تیزی سے جائیں بھاگ٭٭٭

ننھا گرمی سے گھبرایا

ننھا گرمی سے گھبرایا اُس دن شدت کی گرمی تھی دھوپ میں ہر اک شے جلتی تھی

حرف حرف موتی

٭…سچائی ایسی دوا ہے جس کی لذت کڑوی لیکن تاثیر شہد سے زیادہ میٹھی ہوتی ہے۔ ٭…سب سے زیادہ جاہل وہ ہے جو گناہ سے باخبر ہوتے ہوئے بھی گناہ کرے۔ ٭…عزت کمانا دولت کمانے سے زیادہ مشکل ہے جبکہ عزت گنوانا دولت گنوانے سے زیادہ آسان ہے۔