اسلام میں کسب حلال کی فضیلت

تحریر : صاحبزادہ ذیشان کلیم معصومی


حضور پاک ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے یعنی دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے بہتر ہے

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے ۔یہ اپنے ماننے والوں کو تن آسان نہیں بناتا کیونکہ اس میں عمل کی بڑی اہمیت ہے۔ حضور نبی کریم ﷺ نے خود عمل بھی کیا کام بھی کیا اور عمل اور محنت کرنے کسبِ حلال کا حکم عطا فرمایا حضور    پاک ﷺ نے فرمایا کہ اگر کوئی شخص لکڑی کا گٹھا اپنی پیٹھ پر لاد کر لائے اور اپنی آبرو بچائے تو یہ اس شخص سے بہتر ہے جو کسی کے سامنے دست سوال دراز کرے۔ ایک دفعہ ایک انصاری صحابی حضور پاک ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور آپؐ سے کچھ مانگا۔ آپؐ نے فرمایا ’’تمہارے پا س کچھ ہے‘‘ انھوں نے کہا ’’صرف ایک بچھونا ہے، جسے آدھا نیچے بچھاتا ہوں اور آدھا اوپر اوڑھ لیتا ہوں اور ایک پانی کا پیالہ ہے آپ ﷺ نے فرمایا ’’دونوں چیزیں لے آئو۔‘‘ وہ جب دونوں چیزیں لے کر آیا تو    آپ ﷺ نے کہا’’ یہ چیزیں کون خریدے گا‘‘ ؟ایک شخص نے دو درہم قیمت پیش کی۔ آپؐ نے یہ چیزیں اس کو دے دیں اور دو درہم انصاری کو دے کر کہا کہ ایک درہم کا سودا خرید کر گھر دے دو اور ایک درہم کا رسہ خرید کر جنگل سے لکڑیاں لائو اور شہر میں فروخت کرو ۔چنانچہ پندرہ دن کے بعد وہ انصاری پھر حاضر ہوئے تو ان کے پاس دس درہم تھے اور وہ بہت خوش تھے۔ حضور پاک ﷺ نے فرمایا کہ یہ حالت اچھی ہے یا قیامت کے دن چہرے پر گدائی کا داغ لے کر آتے۔

حضور پاک ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے یعنی دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔ ایک مرتبہ اللہ کے رسول ؐایک محفل میں جلوہ فرما تھے کہ صحابہ کرام ؓ آپ ﷺکے گرد ہالہ کئے ہوئے تھے۔ ایک صحابیؓ نے عرض کیا’’ اے اللہ کے رسول ﷺ!میرے پیشے کے متعلق کیا ارشاد ہے، اچھا ہے یا برا ہے ؟آپ ﷺ نے پوچھا تم کیا کرتے ہو؟ اس نے عرض کیا’’ درزی ہوں ؟‘‘فرمایا ’’اگر تم دیانت امانت سے کام کرو تو یہ پیشہ ازحد بزرگ ہے۔ قیامت کے دن حضرت ادریس علیہ السلام کی معیت میں جنت میں جائو گے‘‘۔ ایک اور صحابی نے پوچھا’’ اے اللہ کے رسول کریم ﷺ! میرا پیشہ کیسا ہے ؟‘‘فرمایا ’’تم کیا کرتے ہو ؟‘‘عرض کیا ’’معمار ہوں ۔‘‘آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ پیشہ بڑا مبارک اور نفع بخش ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام یہی کام کرتے تھے۔ قیامت کے دن تم ان کے ساتھ جنت میں جائو گے۔ ایک اور صحابیؓ نے عرض کی ’’حضور میرے پیشے کے متعلق آپ کا کیا ارشاد گرامی ہے‘‘ فرمایا’’ تم کیا کرتے ہو ؟‘‘عرض کیا ’’معلم ہوں‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمہارا پیشہ اللہ کو بہت پسند ہے بشرطیکہ خلوص نیت کے ساتھ لوگوں کو پند و نصیحت کرتے رہو ۔ایک اور صحابیؓ نے عر ض کیا’’ اے اللہ کے   رسول ﷺ کچھ میرے پیشے کے متعلق بھی فرمائیے‘‘ آپؐ نے فرمایا’’ تم کیا کرتے ہو‘‘ اس نے عرض کیا ’’سوداگری ‘‘آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر صدق و راستی سے کاروبار کروتو قیامت کے دن میری معیت نصیب ہوگی ۔پھر ارشاد فرمایا کہ محنت مشقت کرکے روزی کمانے والا شخص اللہ کا دوست ہے ۔شرط یہ ہے کہ نماز کے وقت سستی نہ کرے ۔جیسے اذان ہو فوری مسجد پہنچ جائے اور شریعت سے ذرا بھی قدم باہر نہ رکھے ۔

درحقیقت اسلام میں یہ گنجائش ہی نہیں کہ آدمی ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھا رہے بلکہ اس کو حکم ہے کہ اپنی طاقت کے مطابق محنت کرے اور پھر دیکھے کہ اللہ اس کے حالات کو کیسے بدلتا ہے  اللہ نے خود قرآن مجید میں فرمایا کہ جب تک کوئی قوم اپنی حالت بدلنے کی کوشش خود نہیں کرتی اللہ بھی اس کے حالات نہیں بدلتا اور آج کے نازک دور میں ہمیں بحیثیت پوری قوم ا پنی حالت کو بدلنا ہو گا ۔ہم نے محنت کرنا رزق حلا ل کمانا چھوڑ دیا ہے جس کی وجہ سے نہ ہماری عبادات قبول ہوتی ہیں نہ ہمارا دل اللہ کے ذکر میں لگتا ہے۔ ہمارے رزق میں برکت بھی نہیں ہوتی ہے اور ہم طرح طرح کی پریشانیوں میں گرفتار ہیں۔

 اللہ ہمیں رزق حلال اور عشق محمدمصطفی کریم ﷺ عطا فرمائے اور ہمیں کسبِ حلال کی توفیق عطا فرمائے، آمین ۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

35ویں نیشنل گیمز2025:پاک آرمی 29ویں بار فاتح

آرمی نے196گولڈ میڈلز اپنے نام کئے،واپڈا نے84اورنیوی نے36طلائی تمغے جیتے

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔

صحت مند کیسے رہیں؟

٭…روزانہ کم از کم دو بار ہاتھ منہ دھویئے، ناک اور کان بھی صاف کیجئے۔ ٭…روزانہ کم از کم دوبار دانت صاف کیجئے۔

ذرا مسکرائیے

امی (منے سے) :بیٹا دیوار پر نہ چڑھو گر پڑے تو پانی بھی نہ مانگ سکو گے۔ منا: امی! میں پانی پی کر چڑھوں گا۔ ٭٭٭