اسلام میں کسب حلال کی فضیلت
حضور پاک ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے یعنی دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے بہتر ہے
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے ۔یہ اپنے ماننے والوں کو تن آسان نہیں بناتا کیونکہ اس میں عمل کی بڑی اہمیت ہے۔ حضور نبی کریم ﷺ نے خود عمل بھی کیا کام بھی کیا اور عمل اور محنت کرنے کسبِ حلال کا حکم عطا فرمایا حضور پاک ﷺ نے فرمایا کہ اگر کوئی شخص لکڑی کا گٹھا اپنی پیٹھ پر لاد کر لائے اور اپنی آبرو بچائے تو یہ اس شخص سے بہتر ہے جو کسی کے سامنے دست سوال دراز کرے۔ ایک دفعہ ایک انصاری صحابی حضور پاک ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور آپؐ سے کچھ مانگا۔ آپؐ نے فرمایا ’’تمہارے پا س کچھ ہے‘‘ انھوں نے کہا ’’صرف ایک بچھونا ہے، جسے آدھا نیچے بچھاتا ہوں اور آدھا اوپر اوڑھ لیتا ہوں اور ایک پانی کا پیالہ ہے آپ ﷺ نے فرمایا ’’دونوں چیزیں لے آئو۔‘‘ وہ جب دونوں چیزیں لے کر آیا تو آپ ﷺ نے کہا’’ یہ چیزیں کون خریدے گا‘‘ ؟ایک شخص نے دو درہم قیمت پیش کی۔ آپؐ نے یہ چیزیں اس کو دے دیں اور دو درہم انصاری کو دے کر کہا کہ ایک درہم کا سودا خرید کر گھر دے دو اور ایک درہم کا رسہ خرید کر جنگل سے لکڑیاں لائو اور شہر میں فروخت کرو ۔چنانچہ پندرہ دن کے بعد وہ انصاری پھر حاضر ہوئے تو ان کے پاس دس درہم تھے اور وہ بہت خوش تھے۔ حضور پاک ﷺ نے فرمایا کہ یہ حالت اچھی ہے یا قیامت کے دن چہرے پر گدائی کا داغ لے کر آتے۔
حضور پاک ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے یعنی دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔ ایک مرتبہ اللہ کے رسول ؐایک محفل میں جلوہ فرما تھے کہ صحابہ کرام ؓ آپ ﷺکے گرد ہالہ کئے ہوئے تھے۔ ایک صحابیؓ نے عرض کیا’’ اے اللہ کے رسول ﷺ!میرے پیشے کے متعلق کیا ارشاد ہے، اچھا ہے یا برا ہے ؟آپ ﷺ نے پوچھا تم کیا کرتے ہو؟ اس نے عرض کیا’’ درزی ہوں ؟‘‘فرمایا ’’اگر تم دیانت امانت سے کام کرو تو یہ پیشہ ازحد بزرگ ہے۔ قیامت کے دن حضرت ادریس علیہ السلام کی معیت میں جنت میں جائو گے‘‘۔ ایک اور صحابی نے پوچھا’’ اے اللہ کے رسول کریم ﷺ! میرا پیشہ کیسا ہے ؟‘‘فرمایا ’’تم کیا کرتے ہو ؟‘‘عرض کیا ’’معمار ہوں ۔‘‘آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ پیشہ بڑا مبارک اور نفع بخش ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام یہی کام کرتے تھے۔ قیامت کے دن تم ان کے ساتھ جنت میں جائو گے۔ ایک اور صحابیؓ نے عرض کی ’’حضور میرے پیشے کے متعلق آپ کا کیا ارشاد گرامی ہے‘‘ فرمایا’’ تم کیا کرتے ہو ؟‘‘عرض کیا ’’معلم ہوں‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمہارا پیشہ اللہ کو بہت پسند ہے بشرطیکہ خلوص نیت کے ساتھ لوگوں کو پند و نصیحت کرتے رہو ۔ایک اور صحابیؓ نے عر ض کیا’’ اے اللہ کے رسول ﷺ کچھ میرے پیشے کے متعلق بھی فرمائیے‘‘ آپؐ نے فرمایا’’ تم کیا کرتے ہو‘‘ اس نے عرض کیا ’’سوداگری ‘‘آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر صدق و راستی سے کاروبار کروتو قیامت کے دن میری معیت نصیب ہوگی ۔پھر ارشاد فرمایا کہ محنت مشقت کرکے روزی کمانے والا شخص اللہ کا دوست ہے ۔شرط یہ ہے کہ نماز کے وقت سستی نہ کرے ۔جیسے اذان ہو فوری مسجد پہنچ جائے اور شریعت سے ذرا بھی قدم باہر نہ رکھے ۔
درحقیقت اسلام میں یہ گنجائش ہی نہیں کہ آدمی ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھا رہے بلکہ اس کو حکم ہے کہ اپنی طاقت کے مطابق محنت کرے اور پھر دیکھے کہ اللہ اس کے حالات کو کیسے بدلتا ہے اللہ نے خود قرآن مجید میں فرمایا کہ جب تک کوئی قوم اپنی حالت بدلنے کی کوشش خود نہیں کرتی اللہ بھی اس کے حالات نہیں بدلتا اور آج کے نازک دور میں ہمیں بحیثیت پوری قوم ا پنی حالت کو بدلنا ہو گا ۔ہم نے محنت کرنا رزق حلا ل کمانا چھوڑ دیا ہے جس کی وجہ سے نہ ہماری عبادات قبول ہوتی ہیں نہ ہمارا دل اللہ کے ذکر میں لگتا ہے۔ ہمارے رزق میں برکت بھی نہیں ہوتی ہے اور ہم طرح طرح کی پریشانیوں میں گرفتار ہیں۔
اللہ ہمیں رزق حلال اور عشق محمدمصطفی کریم ﷺ عطا فرمائے اور ہمیں کسبِ حلال کی توفیق عطا فرمائے، آمین ۔