سچ جھوٹ

تحریر : زبیدہ عنبرین


بہت عرصہ پہلے کی بات ہے لبنان میں ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ وہاں کے لوگوں کو اپنے بادشاہ سے بہت محبّت تھی۔ بادشاہ بھی رعایا کا بیحد خیال رکھتا تھا۔ وہ اپنے بزرگوں کی تقلید کرتے ہوئے روزانہ سادہ کپڑوں میں شہر کی گلیوں میں گھوم پھر کر لوگوں کے بارے میں معلوم کرتا تھا کہ لوگ کس طرح زندگی گزار رہے ہیں۔ اگر کوئی دُکھی ہوتا تو بادشاہ اس کی مدد بھی کر دیا کرتا۔

ایک رات بادشاہ حسب ِمعمول شہر کی گلیوں میں گھوم رہا تھا۔ چلتے چلتے وہ جیل کے دروازے تک پہنچ گیا۔ جیل کے پاس سپاہی ایک چور کو پکڑ کر اندر لے جا رہا تھا۔ بادشاہ نے سوچا آج جیل کے اندر جا کر دیکھنا چاہیے کہ یہاں کیا ہوتا ہے۔

یہ سوچ کر بادشاہ جیل کے دروازے کے پاس پہنچ گیا۔ بادشاہ کو دیکھتے ہی سپاہیوں نے پہچان لیا اور تعظیم سے سر جھکا دیے۔ بادشاہ نے جب سپاہیوں کو بتایا کہ وہ جیل کا معائنہ کرنا چاہتا ہے تو سپاہی بادشاہ کو لے کر اندر چلے گئے۔

قیدیوں کو جب پتا چلا کہ بادشاہ سلامت خود چل کر اُن سے ملنے آئے ہیں تو وہ سب بادشاہ کے ارد گرد جمع ہو گئے۔ بادشاہ نے باری باری ان سے ان کے حالات پوچھے۔ بادشاہ نے ایک قیدی سے پوچھا، ’’تمہیں کس جرم کی سزا ملی ہے؟‘‘

وہ آدمی کہنے لگا، ’’بادشاہ سلامت! میں نے کوئی جرم نہیں کیا۔ میں بیگناہ ہوں۔ مجھے چوری کے الزام میں پکڑا گیا ہے حالانکہ میں نے زندگی میں کبھی چوری نہیں کی۔‘‘

بادشاہ نے جب دوسرے قیدی سے پوچھا کہ تمہارا قصور کیا ہے؟ تو اُس نے بھی روتے ہوئے بادشاہ سے کہا کہ میں بے قصور ہوں، میں نے کوئی جرم نہیں کیا لیکن سپاہی پھر بھی مجھے پکڑ کر لے آئے ہیں۔ غرض جتنے بھی قیدی تھے سبھی نے بادشاہ کو یہ یقین دلانے کی کوشش کی کہ وہ بیگناہ ہیں۔ بادشاہ سلامت سب کی باتیں سنتے رہے اور مسکراتے رہے۔ اِسی اثنا میں بادشاہ کی نظر ایک ایسے قیدی پر پڑی جو سر جھکائے الگ بیٹھا تھا۔ بادشاہ نے سپاہیوں سے کہا کہ اس آدمی کو میرے پاس لاؤ، یہ کیوں منہ چھپائے بیٹھا ہے؟ سپاہی جب اس آدمی کو بادشاہ کے پاس لائے تو بادشاہ نے پوچھا، ’’اے نوجوان! کیا بات ہے؟ تم منہ چھپائے کیوں بیٹھے ہو؟‘‘

اس آدمی نے روتے ہوئے کہا، ’’بادشاہ سلامت ! میں بیحد گناہ گار ہوں۔ میری  خطائوں نے مجھے اس قابل نہیں چھوڑا کہ میں کسی کو منہ دکھا سکوں۔‘‘

بادشاہ نے کہا، ’’ہمیں بتاؤ تو سہی تم نے کیا جرم کیا ہے؟‘‘

اس شخص نے کہا، ’’میں ایک اچھا آدمی تھا۔ ہمیشہ ایمانداری سے کام کرتا تھا۔ ایک دن نجانے کیوں میرے دل میں شیطان نے گھر کر لیا اور میں نے ایک آدمی کے پیسے چرا لیے اور یوں مجھے جیل بھیج دیا گیا۔‘‘

بادشاہ نے سوچتے ہوئے کہا ’’یہاں یہ سب بے گناہ ہیں سوائے تمہارے۔ صرف تم ہی ایک ایسے آدمی ہو جو  اپنے آپ کو گنا ہگاربتارہاہے۔ لہٰذا اتنے بے گناہ لوگوں میں ایک گناہ گار کو نہیں رکھنا چاہیے۔ میں تمہیں رہا کرتا ہوں۔‘‘

کچھ عرصہ گزر گیا۔ ایک بار پھربادشاہ جیل کا معائنہ کرنے آیا اور باری باری قیدیوں سے ملاقات کی۔ اِس دفعہ ہر قیدی نے بادشاہ کو اپنے جرم کی تفصیل بتائی۔ بادشاہ نے یہ سننے کے بعد حکم جاری کیا کہ یہ لوگ واقعی گناہگار ہیں۔ اِنہیں ابھی تک شرمندگی کا احساس نہیں۔ یہ بڑے فخر اور مزے سے اپنے جرائم کی کہانی سناتے ہیں،اِن کی سزا بڑھا دی جائے۔

یہ سن کر وہ لوگ بہت حیران ہوئے اور بادشاہ کے جانے کے بعد اُس کے وزیر سے پوچھنے لگے کہ جب اس شخص نے اپنے گناہ کا اعتراف کیا تھا تو بادشاہ نے اسے چھوڑ دیا تھا ، جب ہم نے گناہ کا اعتراف کیا ہے تو بادشاہ نے ہمیں مزیدسزا دی ہے۔ یہ سن کر بادشاہ کا وزیر جو بیحد عقلمند تھا اور بادشاہ کے مزاج کو سمجھتا تھا، کہنے لگا ’’پہلے آدمی کو اس لیے چھوڑا گیا کہ اس نے جرم کا اعتراف اس لیے نہیں کیا تھا کہ وہ آزاد ہونا چاہتا تھا بلکہ اس لیے کیا تھا کہ وہ اپنے کیے پہ نادم تھا۔ لیکن تم لوگوں نے پہلی دفعہ بادشاہ کو اپنی بیگناہی کی کہانی سنائی تاکہ وہ تمہیں آزاد کر دے۔ اس دفعہ گناہ کا اعتراف بھی اس لیے کیا کہ شاید بادشاہ تمہیں چھوڑ دے، اس لیے بادشاہ نے تمہیں آزاد نہیں کیا۔‘‘

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

آخرت کی زندگی!

قرآن کریم اﷲجل شانہ کی آخری کتاب ہے جو سراپا حق ہے زندگی موت مابعد الموت، زندگی سے پہلے کیا تھا۔ اس زندگی کے بعد کیا ہوگا؟ تمام حقائق کو بڑے واضح آسان اور دل نشیںانداز میں بیان فرماتی ہے، حتمی اور یقینی بات کرتی ہے، جس میں ادنیٰ سا شبہ بھی نہیں۔

اسلام میں یتیموں کے حقوق

’’یتیم‘‘ اُس نابالغ بچے یا بچی کو کہا جاتا ہے کہ جس کے سر پرسے اُس کے باپ کا سایہ اُٹھ گیا ہو۔ اسلام نے مسلمانوں کو یتیم بچوں کے حقوق ادا کرنے اور اُن کے حقوق کی نگہبانی کرنے کی بڑی سختی سے تاکید کی ہے۔ یتیم بچوں کو اپنی آغوش محبت میں لے کر اُن سے پیار کرنا، اُن کو والد کی طرف سے میراث میں ملنے والے مال و اسباب کی حفاظت کرنا، اُن کی تعلیم و تربیت کی فکر کرنا، سن شعور کو پہنچنے کے بعد اُن کے مال و اسباب کا اُن کے حوالے کرنا اور انہیں اِس کا مالک بنانا اور بالغ ہونے کے بعد اُن کی شادی بیاہ کی مناسب فکر کرکے کسی اچھی جگہ اُن کا رشتہ طے کرنا، اسلام کی وہ زرّیں اور روشن تعلیمات ہیں جن کا اُس نے ہر ایک مسلمان شخص کو پابند بنایا ہے۔

سید الشہداء سیدنا حضرت امیر حمزہ ؓ

سید الشہداء سیدنا حضرت امیر حمزہ اسلام کے ان جانثاروں میں سے ہیں جن کی خدمات مینارہ نور اور روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔ جب تک آپؓ حیات رہے آپؓ نے عملی طور پر سرکاردوعالمﷺ کے نائب کا کردار ادا فرمایا۔ غزوہ احد وبدر میں آپؓ اسلامی لشکر کے سالار رہے۔ بعثت کے چھٹے سال سے لے کر 3ہجری تک،اعلان اسلام سے لے کر غزوہ احد میں سید الشہداء کا بلند مقام ملنے تک آپؓ کی پوری حیات مستعار حفاظت مصطفی کریم ﷺ میں بسر ہوئی۔

مسائل اور ان کا حل

باجماعت نماز میں امام کی قرات میں مختلف آیات کا جواب دینے کی شرعی حیثیت سوال :امام صاحب اگرباجماعت نمازمیں اگرایسی آیات تلاوت کریں جس میں دعا کا ذکر ہویااللہ تعالیٰ کی کبریائی بیان ہویاجس میں عذاب الٰہی کا ذکرہواورمقتدی دعاکی صورت میں ’’آمین، سبحان اللہ، یا اعوذ باللہ‘‘ دل میں کہے ،کیاایساکرناجائزہے؟

حکومتی اعتماد میں اضافے کے دلائل

21 اپریل کے ضمنی انتخابات کے بعد حکومت کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ 8 فروری کے انتخابات کے بعد جب مسلم لیگ (ن) اور اس کے اتحادیوں کی حکومت قائم ہو ئی تو شہباز شریف کو ووٹ دینے والوں کو شبہ تھا کہ یہ حکومت زیادہ عرصہ نہیں چل پائے گی کیونکہ مشکل فیصلے کرنے ہوں گے ، معیشت سنبھالنا انتہائی کٹھن ہو گا، بانی پی ٹی آئی کی مقبولیت حکومت کیلئے مسلسل درد سر رہے گی، یہی وجہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے شہباز شریف کو وزارت عظمیٰ کا ووٹ تو دیا مگر اہم ترین اتحادی جماعت وفاقی کابینہ کا حصہ نہیں بنی۔

ضمنی انتخابات کا معرکہ(ن) لیگ نے سر کر لیا

ضمنی انتخابات کے حوالے سے عمومی رائے یہ رہی ہے کہ ان میں حکمران جماعت کو فائدہ ملتا ہے مگر 2018ء کے بعد اس تاثر کو دھچکا لگا ۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اپوزیشن جماعتیں اپنے ووٹرز میں تحریک پیدا کرکے انہیں پولنگ سٹیشنز تک لے آتی تھیں،مگر حالیہ ضمنی انتخابات میں حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) نے ضمنی انتخابات کا معرکہ سر کر لیا۔