آزاد کشمیر :پیپلزپارٹی کی بڑھتی مقبولیت

تحریر : محمد اسلم میر


آزاد جموں و کشمیر کے حالیہ انتخابات میں پاکستان پیپلزپارٹی کے صدر چوہدری محمد یاسین نے دو انتخابی حلقوں کوٹلی شہر اور چڑ ھو ئی سے دو نشستیں اپنے نام کی تھیں جن میں سے انہوں نے چڑھوئی و الی نشست چھوڑ کر کوٹلی شہر کی سیٹ اپنے پاس رکھی تھی جس کے بعد اس سیٹ پر دوبارہ انتخاب کرایا گیا۔ پاکستان پیپلزپارٹی نے چڑھوئی سے پارٹی صدر چوہدری محمد یاسین کے بیٹے چوہدری عامر یاسین کو ٹکٹ دیا جو اس وقت پچیس جولائی کے عام انتخابات کے دوران چڑھوئی انتخابی حلقے میں دو افراد کے مبینہ قتل کے الزام میں گرفتار ہیں۔

چڑھوئی کے انتخابی حلقے میں پاکستان پیپلزپارٹی کو ضمنی انتخاب کے دوران سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک طرف پاکستان پیپلز پارٹی کا امیدوار جیل میں تھا دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار شوکت فرید کو وفاقی اور آزاد جموں و کشمیر کی حکومتوں کی خاموش حمایت بھی حاصل تھی لیکن اس کے باوجود وہ اس انتخابی حلقے میں چوہدری محمد یاسین کے بیٹے چوہدری عامر یاسین کو ہرانے میں ناکام رہے ۔

 ضمنی انتخاب میں چڑھوئی کے عوام نے پاکستان پیپلزپارٹی کے امیدوار چوہدری عامر یاسین کو اس کے والد کے مقابلے میں زیادہ ووٹوں سے کامیابی دلوائی۔ اس انتخابی حلقے میں پاکستان تحریک انصاف نے پاکستا ن پیپلزپارٹی کو ٹف ٹا ئم دیا جبکہ مسلم لیگ نواز کے امیدوار کی انتخابی مہم میں پارٹی صدر راجا فاروق حیدر کی موجودگی کے باوجود وہ تیسرے نمبر پر رہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ مسلم لیگ نواز کا ووٹ نواز شریف کی ذات کی حد تک تو موجود ہے ۔ اس جماعت کی آزاد کشمیر کی قیادت عوام میں اپنی مقبولیت تیزی کے ساتھ کھو رہی ہے۔ ضمنی انتخابات کے دوران مسلم لیگ نواز آزاد کشمیر کی قیادت منتشر نظر آئی جس سے یہ واضع ہو گیا کہ اس جماعت میں نظم و ضبط کم ہوتا جارہا ہے۔ 

میر پور شہر کے ضمنی انتخاب میں صدرآزاد جموں و کشمیر بیرسٹر سلطان محمود چوہدری اپنے جواں سال فرزند یاسر سلطان کو قانون ساز اسمبلی میں پہنچانے میں کامیاب ہوگئے ۔ میر پور شہر کی نشست بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کے صدر آزاد جموں وکشمیر بننے کے بعد خالی ہو گئی تھی اور اس انتخابی حلقے میں بھی مسلم لیگ نواز کے امید وار چوہدری محمد سعید بری طرح ہار گئے حالانکہ اس انتخابی حلقے میں صدر مسلم لیگ نواز راجا فاروق حیدر دو ہفتے تک ڈور ٹو ڈور مسلسل انتخابی مہم چلاتے رہے ۔ضمنی انتخاب میں نواز لیگ کے امیدوار25 جولائی کے عام انتخابات سے بھی کم ووٹ حاصل کر سکے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان مسلم لیگ نواز آزاد کشمیر کی قیادت اپنا ووٹ بینک بچانے میں بھی بری طرح ناکام ہو گئی ہے۔ میر پور ڈویژن میں پاکستان پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کے امیدوار وں کی جیت میں ان کی جماعتوں سے زیادہ حصہ ان کی برادریوں کا رہا ہے ۔ بیرسٹر سلطان محمود چوہدری اور چوہدری محمد یاسین آزاد کشمیر کے سب سے بڑے اور خوشحال جاٹ قبیلے کے لیڈر ہیں اور اس قبیلے کے سرخیل اور سیاست میں متعارف کرانے والے بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کے والد چوہدری نور حسین جو مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کے دست راست تھے ۔ چوہدری نور حسین نے اپنے بیٹے بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کے ساتھ ساتھ چوہدری محمد یاسین کو نوے کی دہائی میں عملی سیاست میں متعارف کرایا۔ یوں آپ کہہ سکتے ہیں آزاد جموں وکشمیر کے ان دو ضمنی انتخابات میں دراصل اندرون خانہ جاٹ قبیلہ اس بات پر متفق تھا کہ انہوں نے اپنی تیسری نسل کے نمائندوں کو قانون ساز اسمبلی میں پہنچانا ہے۔ آزاد کشمیر کی سیاسی تاریخ میں ہر سینئر حکمران کی یہ خواہش رہی ہے کہ ان کی اولاد بھی ان کے ہمراہ اسمبلی کا حصہ بنے جس میں چوہدری محمد یاسین اور بیرسٹر سلطان محمود چوہدری اپنے فرزندوں کو قانون ساز اسمبلی میں پہنچانے میں کامیاب ہوئے۔ یاسر سلطان اور عامر یاسین کے علاوہ سابق وزیر اعظم چوہدری عبدالمجید بھی اپنے بیٹے قاسم مجید کو حالیہ انتخابات میں پیپلزپارٹی کے ٹکٹ سے اپنے آبائی حلقے چکسواری سے الیکشن جتوا کر انہیں قانون سازا سمبلی میں پہنچانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔یوں آزاد جموں و کشمیر کی پارلیمانی تاریخ میں پہلی بار جاٹ قبیلے کے تین اہم اور سنیئر لیڈر اپنے تینوں جانشین بیٹوں اور سیاسی ورثا کو قانون ساز اسمبلی میں اپنی زندگیوں میں ہی پہنچانے میں کامیاب ہوئے جس سے یقینا اس قبیلے کے اعتماد اور آزاد جموں و کشمیر کے سیاسی اثر ورسوخ میں دیگر قبائل کے مقابلے میں اضافہ ہو ا ہے ۔ 

اس سے قبل مسلم لیگ نواز کے سیکریٹری جنرل و سابق اسپیکر قانون ساز اسمبلی شاہ غلام قادر نیلم سے خود الیکشن جیتنے کے ساتھ ساتھ اپنے فرزند اسد علیم شاہ کو مہاجرین مقیم پاکستان کی نشست سے مسلم لیگ نواز کے ٹکٹ پر دو ہزار سولہ سے دوہزار اکیس تک قانون ساز اسمبلی میں پہنچانے میں کامیاب ہوئے تھے۔ 

دوسری جانب پاکستان پیپلزپارٹی آزاد جموں و کشمیر کے صدر چوہدری محمد یاسین کی قیادت میں نہ صرف مشکل ضمنی انتخاب جیت گئی بلکہ اس کامیابی سے آزاد جموں و کشمیر میں پارٹی کارکنان کے جوش اور جزبے میں بھی اضافہ ہوا جو کسی بھی اپوزیشن میں رہنے والی سیاسی جماعت کے لئے کسی نعمت سے کم نہیں۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

آخرت کی زندگی!

قرآن کریم اﷲجل شانہ کی آخری کتاب ہے جو سراپا حق ہے زندگی موت مابعد الموت، زندگی سے پہلے کیا تھا۔ اس زندگی کے بعد کیا ہوگا؟ تمام حقائق کو بڑے واضح آسان اور دل نشیںانداز میں بیان فرماتی ہے، حتمی اور یقینی بات کرتی ہے، جس میں ادنیٰ سا شبہ بھی نہیں۔

اسلام میں یتیموں کے حقوق

’’یتیم‘‘ اُس نابالغ بچے یا بچی کو کہا جاتا ہے کہ جس کے سر پرسے اُس کے باپ کا سایہ اُٹھ گیا ہو۔ اسلام نے مسلمانوں کو یتیم بچوں کے حقوق ادا کرنے اور اُن کے حقوق کی نگہبانی کرنے کی بڑی سختی سے تاکید کی ہے۔ یتیم بچوں کو اپنی آغوش محبت میں لے کر اُن سے پیار کرنا، اُن کو والد کی طرف سے میراث میں ملنے والے مال و اسباب کی حفاظت کرنا، اُن کی تعلیم و تربیت کی فکر کرنا، سن شعور کو پہنچنے کے بعد اُن کے مال و اسباب کا اُن کے حوالے کرنا اور انہیں اِس کا مالک بنانا اور بالغ ہونے کے بعد اُن کی شادی بیاہ کی مناسب فکر کرکے کسی اچھی جگہ اُن کا رشتہ طے کرنا، اسلام کی وہ زرّیں اور روشن تعلیمات ہیں جن کا اُس نے ہر ایک مسلمان شخص کو پابند بنایا ہے۔

سید الشہداء سیدنا حضرت امیر حمزہ ؓ

سید الشہداء سیدنا حضرت امیر حمزہ اسلام کے ان جانثاروں میں سے ہیں جن کی خدمات مینارہ نور اور روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔ جب تک آپؓ حیات رہے آپؓ نے عملی طور پر سرکاردوعالمﷺ کے نائب کا کردار ادا فرمایا۔ غزوہ احد وبدر میں آپؓ اسلامی لشکر کے سالار رہے۔ بعثت کے چھٹے سال سے لے کر 3ہجری تک،اعلان اسلام سے لے کر غزوہ احد میں سید الشہداء کا بلند مقام ملنے تک آپؓ کی پوری حیات مستعار حفاظت مصطفی کریم ﷺ میں بسر ہوئی۔

مسائل اور ان کا حل

باجماعت نماز میں امام کی قرات میں مختلف آیات کا جواب دینے کی شرعی حیثیت سوال :امام صاحب اگرباجماعت نمازمیں اگرایسی آیات تلاوت کریں جس میں دعا کا ذکر ہویااللہ تعالیٰ کی کبریائی بیان ہویاجس میں عذاب الٰہی کا ذکرہواورمقتدی دعاکی صورت میں ’’آمین، سبحان اللہ، یا اعوذ باللہ‘‘ دل میں کہے ،کیاایساکرناجائزہے؟

حکومتی اعتماد میں اضافے کے دلائل

21 اپریل کے ضمنی انتخابات کے بعد حکومت کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ 8 فروری کے انتخابات کے بعد جب مسلم لیگ (ن) اور اس کے اتحادیوں کی حکومت قائم ہو ئی تو شہباز شریف کو ووٹ دینے والوں کو شبہ تھا کہ یہ حکومت زیادہ عرصہ نہیں چل پائے گی کیونکہ مشکل فیصلے کرنے ہوں گے ، معیشت سنبھالنا انتہائی کٹھن ہو گا، بانی پی ٹی آئی کی مقبولیت حکومت کیلئے مسلسل درد سر رہے گی، یہی وجہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے شہباز شریف کو وزارت عظمیٰ کا ووٹ تو دیا مگر اہم ترین اتحادی جماعت وفاقی کابینہ کا حصہ نہیں بنی۔

ضمنی انتخابات کا معرکہ(ن) لیگ نے سر کر لیا

ضمنی انتخابات کے حوالے سے عمومی رائے یہ رہی ہے کہ ان میں حکمران جماعت کو فائدہ ملتا ہے مگر 2018ء کے بعد اس تاثر کو دھچکا لگا ۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اپوزیشن جماعتیں اپنے ووٹرز میں تحریک پیدا کرکے انہیں پولنگ سٹیشنز تک لے آتی تھیں،مگر حالیہ ضمنی انتخابات میں حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) نے ضمنی انتخابات کا معرکہ سر کر لیا۔