نعت ِ شریف
رہتے تھے ان کی بزم میں یوں با ادب چراغ,جیسے ہوں اعتکاف کی حالت میں سب چراغ,جتنے ضیا کے روپ ہیں، سارے ہیں مستعار
اپنے ہنر سے جلتے ہیں دنیا میں کب چراغ!
گزری جہاں جہاں سے سواری حضور ؐکی
حیراں تھی کہکشائیں تو ششدر تھے شب چراغ
ہر ہر قدم رفیق ہے سنت کی روشنی
جینے کا یوں سکھاتے ہیں دنیا کو ڈھب چراغ
رب سے دعا وہ ؐ کرتے تھے امت کے واسطے
راتوں کو بجھنے لگتے تھے گلیوں کے جب چراغ
دیکھو تو ان میں نور ِ ازل کی ہیں جھلکیاں
یہ جو دکھائی دیتے ہیں رستوں میں اب چراغ
امجدمیرے حضورؐ مجسم تھے روشنی
چہرہ تھا آفتاب تو لگتے تھے لب چراغ
امجد اسلام امجد
…٭٭…
نبی ؐ کاعشق ملا نعت تک رسائی ہوئی
تمام عمر کا حاصل یہی کمائی ہوئی
حرم میں اب بھی اذان ِ بلالی گونجتی ہے
یہ بستی سجدہ گزاروں کی ہے بسائی ہوئی
اسیؐ کے چشم کرم سے دلوں کے قفل کھلے
اسی ؐکے دم سے اسیران کی رہائی ہوئی
اسیؐ کے پاس پڑی تھیں امانتیں ساری
اسیؐ کی جان کو خلق خدا تھی آئی ہوئی
سکوت شب کہیں پاتال میں اترا ہوا
سحر بہار کے مانند چہچہائی ہوئی
قلم سنوارا گیا،لوح کو نکھارا گیا
جمال حرف محبت سے روشنائی ہوئی
یقیں اجال دیا،راستہ بحال کیا
بٹھائی گرد گماں نے جو تھی اڑائی ہوئی
پھر اہل مکہ نے قدموں میں رکھ دئیے دل بھی
فضا اخوت و رحمت کی رنگ لائی ہوئی
دیا وہ آخری خطبہ،وہ آخری دستور
ہر آنے والے زمانے کی رہنمائی ہوئی
اشرف جاوید