رحمت الٰہی سے مایوسی کفر, اللہ کی رحمت سے ناامید ہونا کبیرہ گناہ ہے (صححیح الجامع: 4603)

تحریر : مفتی محمد اویس اسماعیل


’’ اے نبی ﷺ! آپ کہہ دیجیے، اے میرے وہ بندو جو اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے ہو، تم اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، بیشک اللہ سارے گناہ معاف فرمادے گا، وہ یقیناً بڑا بخشنے والا، بہت رحم فرمانے والا ہے‘‘ (سورۃ الزمر، 53)۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔ اس کی ہمیشہ یہ کوشش رہتی ہے کہ کسی بھی طرح انسان کو خدا سے دور کر دے، جب ایک بار وہ انسان کو خدا کے راستے سے بھٹکانے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو پھر اس کی اگلی چال یہ ہوتی ہے کہ انسان کو خدا کی رحمت سے مایوس کردے۔ اس طرح اسے ہمیشہ رب کی نافرمانی والے راستے پر چلاتا رہے لیکن اللہ تعالیٰ نے انسان کو سب سے زیادہ جس چیز کی امید دلائی ہے وہ اس کی رحمت ہی ہے۔ 

قرآن مجید اور احادیث مبارک میں انسانوں کو مختلف پیرایوں اور انداز میں سب سے زیادہ خدا کی رحمت کی امید دلائی گئی ہے۔ رحمت اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ایک صفت ہے جس سے اس نے اپنے آپ کو متصف کیا ہے اور یہ وہ صفت ہے جو کائنات کی ہر چیزپر حاوی ہے۔ پوری کائنات رحمت الٰہی کی مظہر ہے۔ اسی لیے قرآنِ مجید میں ارشاد فرمایا: ’’میری رحمت ہر چیز سے وسیع ہے‘‘ (الاعراف، 156) اور اسی لیے اللہ تعالی نے اپنے آخری رسولﷺ کو سراپا رحمت بنا کر بھیجا (الانبیاء،107)۔ اسی طرح شرعی احکامات میں بھی رحمت کی صفت کو نمایاں حیثیت دی ہے۔ 

ابو الکلام آزاد لکھتے ہیں: قرآن پاک نے خدا کی کسی صفت کو بھی اس کثرت کے ساتھ نہیں دہرایا اور نہ کوئی مطلب اس درجہ اس کے صفحات میں نمایاں ہے جس قدر رحمت ہے۔ اگر قرآن کے وہ تمام مقامات جمع کیے جائیں جہاں ’’رحمت‘‘ کا ذکر کیا گیا ہے تو تین سو سے زائد ہوں گے۔ اگر وہ تمام مقامات بھی شامل کرلیے جائیں جہاں اگر چہ لفظ رحمت استعمال نہیں ہوا لیکن ان کا تعلق رحمت ہی سے ہے، مثلا ربوبیت، مغفرت، رافت،کرم،حلم، عفو وغیرہ تو پھر یہ تعداد اس حد تک پہنچ جاتی ہے کہ کہا جاسکتا ہے: قرآن اوّل سے آخر تک اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ رحمت ِالٰہی کا پیام ہے (اُم الکتاب، ص 126)۔ اس کی رحمت کی کوئی حد اور انتہا نہیں ہے اس لیے کہ یہ اس خدا کی صفت ہے جس کی اپنی کوئی حد نہیں ہے۔

خدا کے نافرمان اور رحمت ِالٰہی 

ہمارے معاشرے میں ایسے افراد بھی موجود ہیں جن کا خیال ہوتا ہے کہ وہ بہت گناہ گار ہیں وہ کیسے نماز کے لیے مسجد جائیں اور خدا کے حضور سجدہ ریز ہوں! یاد رہے کہ یہ شیطانی وسوسہ ہے اور اس طرح کے خیالات کے ذریعے شیطان ہمیں اللہ کے قریب ہونے سے روکنا چاہتا ہے۔ اس لیے ان خیالات کو جھٹک کر فوراً اللہ کے حضور سجدہ کر لینا چاہیے ۔ قرآن مجید میں بڑے سے بڑے گناہ گار کو حتیٰ کہ خدا کو نہ ماننے والوں کو بھی اس کی رحمت کی امید دلا کر خدا کے قریب ہوجانے اور اس کی فرمانبرداری اختیار کرنے کی طرف بلایا گیاہے۔ خدا کی طرف لوٹ آنے پر پچھلے تمام گناہ معاف کر دینے کی نوید سنائی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: اے نبی ﷺآ!پ کہہ دیجیے اے میرے وہ بندوجو اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے ہو تم اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، بیشک اللہ سارے گناہ معاف فرمادے گا،وہ  یقینا بڑا بخشنے والا، بہت رحم فرمانے والا ہے‘‘ (الزمر، 53)۔ اس آیت مبارکہ کو قرآنِ مجید کی امید بھری آیت کہا گیا ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو چاہے وہ مسلمان ہو یا نہ ہو اپنا بندہ کہا ہے اور چاہے وہ بڑے سے بڑا گناہ گار ہی کیوں نہ ہو، صرف ایک دو گناہ کرنے والا نہیں بلکہ گناہوں میں حد پار کر دینے والے کو بھی اس آیت میں مخاطب کیا گیا ہے۔ سب کو یہ امید دلائی کہ تم اس کی رحمت سے مایوس نہ ہو، بے شک وہ تمام گناہ بخش دے گا۔

ابو ہریرہ ؓ ایک حدیث روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جب اللہ نے مخلوق کو پیدا کیا تو اپنی کتاب میں جو اس کے عرش کے پاس رکھی ہوئی ہے اپنے بارے میں لکھا کہ میری رحمت میرے غضب پر غالب رہے گی (بخاری، 7404) یعنی اللہ تعالیٰ کو انسانوں کو سزا دے کر نہیں بلکہ انہیں معاف کرکے خوشی ہوتی ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے کتنی محبت کرتے ہیں اور انہیں اپنی رحمت کی کتنی امید دلاتے ہیں ایک حدیث مبارک میں اللہ کے رسول ﷺ نے اس کو واضح کیا ہے۔ حضرت عمر ؓ یہ حدیث روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺ کے پاس کچھ قیدی لائے گئے۔ ان قیدیوں میں سے ایک عورت ادھر سے ادھر دوڑتی پھر رہی تھی۔ جیسے ہی اسے ایک بچہ نظر آیا اس نے اس بچے کو پکڑ کے اپنے سینے سے لگالیا اور دودھ پلانے لگی۔ رسول اللہ ﷺنے صحابہ کرامؓ سے پوچھا: تمہارا کیا خیال ہے، کیا یہ عورت اپنے بچے کو آگ میں ڈال سکتی ہے؟صحابہ کرام ؓ نے عرض کی نہیں۔ آپﷺ نے ارشادفرمایا: یہ عورت جتنی اپنے بچے پر مہربان ہے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر اس سے بھی زیادہ مہربان ہے (بخاری ، 5999)۔ یہ حدیث رب کے نافرمانوں کو اس کی رحمت کی امید دلاتی ہے اور انہیں رب کی طرف لوٹ جانے کی ترغیب دیتی ہے۔ 

اسی طرح ایک حدیث قدسی ہے (وہ حدیث جس میں رسول اللہ ﷺ رب سے روایت کرتے ہیں) جسے حضرت انس ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے روایت کیا وہ کہتے ہیں کہ: میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، اے ابن آدم! جب تک تو مجھے پکارتا رہے گا اور مجھ سے امیدیں وابستہ رکھے گا تو میں تجھے معاف کرتا رہوں گا۔چاہے تیرے اعمال جیسے بھی ہوں مجھے تیرے گناہوں کی کوئی پروا نہیں، اے ابن آدم! تیرے گناہ آسمان کی بلندیوں تک بھی پہنچ جائیں اور تومجھ سے معافی مانگے تو میں تجھے معاف کردوں گا۔ اے ابن آدم! اگر تو اتنے گناہ لے کر آئے کہ روئے زمین بھر جائے تو میں تب بھی تیری مغفرت کر دوں گا،بشرطیکہ تو نے شرک نہ کیا ہو۔ (ترمذی،3540)۔اسی لیے اللہ تعالیٰ سے اچھاگمان رکھنا واجب ہے۔ بندہ رب کے بارے میں جیسا گمان کرے گا اللہ تعالیٰ اسی طرح اس سے برتاؤ کرے گا۔ حدیث قدسی ہے: ’’اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: میں اپنے بندے کے میرے بارے میں گمان کے مطابق ہوتا ہوں۔ (بخاری، 7505)۔ 

ہمیں اس کی رحمت سے ہرگز مایوس نہیں ہونا چاہیے، اگر وہ چاہے تو کسی کے ایک گناہ پر ایسی پکڑ کرے کہ ساری نیکیاں کم پڑ جائیں اور اگر وہ چاہے تو کسی کو ایک نیکی پر اپنی رحمت سے ایسا نوازے کہ بڑے بڑے گناہوں سے درگزر کر دے۔ یہ رب کی رحمت ہی ہے کہ وہ گناہوں پر فوراً انسان کی پکڑ نہیں کرتا ۔’’اگر اللہ لوگوں کے گناہوں پر ان کی پکڑ شروع کردے تو زمین میں کوئی ذی روح باقی نہ رہے لیکن وہ انسانوں کو ڈھیل دیتا ہے۔‘‘(سورۃ فاطر، 45)

رحمت خدائی صفت اور انسانی کردار

خدا کا ہم سے بھی یہ مطالبہ ہے کہ ہم خدا کی یہ صفت اپنے اندر پیدا کریں اور اس کی مخلوق پر رحم کریں تاکہ اللہ تعالیٰ ہم پر رحم کرے۔ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا:’’رحم کرنے والوں پر رحمن (اللہ تعالیٰ) مہربان ہو گا۔ اس لیے جو زمین پر ہیں ان پر رحم کرو تم پر وہ ذات رحم کریگی جو آسمان میں ہے۔(شعب الایمان، 10537)

 اسی طرح ایک اور حدیث میں ارشاد فرمایا: رحم کرو، تم پر بھی رحم ہوگا، اور بخش دو تمہیں بھی بخش دیا جائیگا (مسند احمد)۔ حضرت جریر ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: جو لوگوں پر رحم نہیں کریگا اللہ بھی اس پر رحم نہیں کریگا(مسند احمد) ۔

رحمت ِالٰہی کے مستحقین 

قرآن و حدیث میں رحمت ِالٰہی کا حقدار بننے کے لیے ہدایات دی گئی ہیں جو بھی ان صفات کو اپنے اندر پیدا کرے گا، خدا اس کو اپنی رحمت کے سائے میں لے لے گا۔ چند مستحقین رحمت درج ذیل ہیں۔

اللہ پر ایمان رکھنے والے (النساء، 175)، اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کرنے والے (آل عمران، 132)، قرآن پر عمل کرنے والے (الانعام، 155)، قرآن مجید کی تلاوت کو بغور سننے والے (الاعراف، 204)، توبہ و استغفار کرنے والے (المائدہ، 39)، تقویٰ اختیار کرنے والے (الانعام، 155)، صبر کرنے والے(النحل، 110)، احسان کرنے والے (الاعراف،56)، صلح کرانے والے (الحجرات، 10)،راہِ خدا میں خرچ کرنے والے (التوبہ، 99)، منکر سے روکنے والے (التوبہ، 17)، درگزر کرنے والے (التغابن، 14)، نبی کریم ﷺ پر درود بھیجنے والے (مسلم، 408)۔

اس لیے زندگی کے کسی بھی مرحلے پر ہمیں خدا کی رحمت سے مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے اور ہم بھی اپنے اندر رحم کرنے کی صفت پیدا کریں تاکہ ہمارے ساتھ بھی اسی طرح کا معاملہ کیا جائے۔ 

(مفتی محمد اویس اسماعیل اسلامی سکالر اور الاخوان مجلسِ افتاء کراچی کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ہیں)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

آخرت کی زندگی!

قرآن کریم اﷲجل شانہ کی آخری کتاب ہے جو سراپا حق ہے زندگی موت مابعد الموت، زندگی سے پہلے کیا تھا۔ اس زندگی کے بعد کیا ہوگا؟ تمام حقائق کو بڑے واضح آسان اور دل نشیںانداز میں بیان فرماتی ہے، حتمی اور یقینی بات کرتی ہے، جس میں ادنیٰ سا شبہ بھی نہیں۔

اسلام میں یتیموں کے حقوق

’’یتیم‘‘ اُس نابالغ بچے یا بچی کو کہا جاتا ہے کہ جس کے سر پرسے اُس کے باپ کا سایہ اُٹھ گیا ہو۔ اسلام نے مسلمانوں کو یتیم بچوں کے حقوق ادا کرنے اور اُن کے حقوق کی نگہبانی کرنے کی بڑی سختی سے تاکید کی ہے۔ یتیم بچوں کو اپنی آغوش محبت میں لے کر اُن سے پیار کرنا، اُن کو والد کی طرف سے میراث میں ملنے والے مال و اسباب کی حفاظت کرنا، اُن کی تعلیم و تربیت کی فکر کرنا، سن شعور کو پہنچنے کے بعد اُن کے مال و اسباب کا اُن کے حوالے کرنا اور انہیں اِس کا مالک بنانا اور بالغ ہونے کے بعد اُن کی شادی بیاہ کی مناسب فکر کرکے کسی اچھی جگہ اُن کا رشتہ طے کرنا، اسلام کی وہ زرّیں اور روشن تعلیمات ہیں جن کا اُس نے ہر ایک مسلمان شخص کو پابند بنایا ہے۔

سید الشہداء سیدنا حضرت امیر حمزہ ؓ

سید الشہداء سیدنا حضرت امیر حمزہ اسلام کے ان جانثاروں میں سے ہیں جن کی خدمات مینارہ نور اور روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔ جب تک آپؓ حیات رہے آپؓ نے عملی طور پر سرکاردوعالمﷺ کے نائب کا کردار ادا فرمایا۔ غزوہ احد وبدر میں آپؓ اسلامی لشکر کے سالار رہے۔ بعثت کے چھٹے سال سے لے کر 3ہجری تک،اعلان اسلام سے لے کر غزوہ احد میں سید الشہداء کا بلند مقام ملنے تک آپؓ کی پوری حیات مستعار حفاظت مصطفی کریم ﷺ میں بسر ہوئی۔

مسائل اور ان کا حل

باجماعت نماز میں امام کی قرات میں مختلف آیات کا جواب دینے کی شرعی حیثیت سوال :امام صاحب اگرباجماعت نمازمیں اگرایسی آیات تلاوت کریں جس میں دعا کا ذکر ہویااللہ تعالیٰ کی کبریائی بیان ہویاجس میں عذاب الٰہی کا ذکرہواورمقتدی دعاکی صورت میں ’’آمین، سبحان اللہ، یا اعوذ باللہ‘‘ دل میں کہے ،کیاایساکرناجائزہے؟

حکومتی اعتماد میں اضافے کے دلائل

21 اپریل کے ضمنی انتخابات کے بعد حکومت کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ 8 فروری کے انتخابات کے بعد جب مسلم لیگ (ن) اور اس کے اتحادیوں کی حکومت قائم ہو ئی تو شہباز شریف کو ووٹ دینے والوں کو شبہ تھا کہ یہ حکومت زیادہ عرصہ نہیں چل پائے گی کیونکہ مشکل فیصلے کرنے ہوں گے ، معیشت سنبھالنا انتہائی کٹھن ہو گا، بانی پی ٹی آئی کی مقبولیت حکومت کیلئے مسلسل درد سر رہے گی، یہی وجہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے شہباز شریف کو وزارت عظمیٰ کا ووٹ تو دیا مگر اہم ترین اتحادی جماعت وفاقی کابینہ کا حصہ نہیں بنی۔

ضمنی انتخابات کا معرکہ(ن) لیگ نے سر کر لیا

ضمنی انتخابات کے حوالے سے عمومی رائے یہ رہی ہے کہ ان میں حکمران جماعت کو فائدہ ملتا ہے مگر 2018ء کے بعد اس تاثر کو دھچکا لگا ۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اپوزیشن جماعتیں اپنے ووٹرز میں تحریک پیدا کرکے انہیں پولنگ سٹیشنز تک لے آتی تھیں،مگر حالیہ ضمنی انتخابات میں حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) نے ضمنی انتخابات کا معرکہ سر کر لیا۔