آزاد کشمیر: پی ٹی آئی اندرونی بحران کا شکار!

تحریر : محمد اسلم میر


آزاد جموں و کشمیر میں حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف میں تقسیم واضح ہوگئی ہے ۔ حکومت پر وزیر اعظم سردار عبدا لقیوم خان نیازی تاحال اپنی گرفت مضبوط نہیں کر سکے۔ کابینہ تقسیم نظر آرہی ہے ۔ سینئر وزیر سردار تنویر الیاس جو کہ پاکستان تحریک انصاف آزاد جموں وکشمیر کے صد ر بھی ہیں پارلیمانی جماعت میں خاموش اکثریت اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ قانون ساز اسمبلی کے اسپیکر چوہدری انوار الحق کو مہاجرین کے ارکان اسمبلی کے علاوہ پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے بعض ممبران کی بھی خاموش حمایت حاصل ہے ۔ وزیر اعظم آزاد جموں و کشمیر سردار عبدا لقیوم نیازی میر پور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے چیئر مین کی تعیناتی میں صدر آزاد جموں و کشمیر بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کے تحفظات کو دور کرنے میں بھی ناکام رہے ہیں۔ میر پور ،صدر آزاد جموں وکشمیر کا آبائی حلقہ ہے اور اس شہر کے اہم ادارے میں چیئر مین کی تقرری پر ان کو اعتماد میں نہ لینے سے پارٹی کے اندر تقسیم مزید واضح ہو گئی ہے۔

 تحریک آزادی کشمیر کو اجاگر کرنے کے لئے قائم سرکاری ادارہ جموں وکشمیر لبریشن سیل میں بھی گریڈ20 کی آسامی پر متنازعہ تقرری کے حوالے سے وزیر اعظم آزاد جموں و کشمیر سردار عبدا لقیوم  سے پارٹی کے سینئر رہنما، کارکنا ن او ر کشمیر لبریشن سیل کے اندر سینئر افسران ناراض ہیں ۔ کشمیر لبریشن سیل کے افسران کا کہنا ہے کہ ایک سرکاری ادارے میں غیر سرکاری تنظیم کے اہلکار کو وزیر اعظم کی طرف سے گریڈ20 کا عہدہ دینا سمجھ سے بالا تر ہے ۔ آزاد جموں وکشمیر میں گزشتہ 25 سال سے تحریک انصاف سے وابستہ مخلص پارٹی کارکنان کی تعیناتیوں کی جگہ سفارشی لوگوں کی بھرتیوں سے پارٹی کے اندر سردار تنویر الیاس کا دھڑا ہر گزرتے دن کے ساتھ مضبوط سے مضبوط تر ہوتا جار ہا ہے ۔

 دوسری جانب وزیر اعظم سردار عبدالقیوم نیازی اور صدر آزاد جموں وکشمیر بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کے درمیان بڑھتی دوریوں سے صدر تحریک انصاف آزاد جموں وکشمیر اور سینئر وزیر سردار تنویر الیاس کے دھڑے کو جماعت کے اندر فائدہ پہنچ رہا ہے ۔ آزاد جموں و کشمیر کی بیورو کریسی کا جھکاو ٔ اس وقت وزیر اعظم سے زیادہ سینئر وزیر اور اسپیکر قانون ساز اسمبلی چوہدری انوار الحق کی طرف ہے بلکہ سول سیکریٹریٹ میں اکثر افسران وزیر اعظم کے دفتر کی بجائے اسپیکر چیمبر میں نظر آتے ہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ بلوچستان میں تبدیلی کے بعد کسی بھی وقت آزاد جموں وکشمیر میں بھی پاکستان تحریک انصاف قائد ایوان تبدیل کرسکتی ہے۔تحریک انصاف کے کارکنان اور انتخابات میں کم ووٹوں سے ہارنے والے امیدواران بھی وزیر اعظم اور صدر سلطان محمود چوہدری کی بجائے سردار تنویر الیاس کے ارد گرد نظر آرہے ہیں۔ جو یہ سمجھنے کے لئے کافی ہے کہ آزاد جموں و کشمیر میں بلوچستان طرز کی تبدیلی کے بعد سردار تنویر الیاس ہی وزیر اعظم کے امیدوار ہوں گے۔

 دوسری جانب اگر موجودہ حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کابینہ کے آخری اجلاس میں نصف سے زائد وزرا غیر حاضر رہے ۔اجلاس میں شرکت نہ کرنے والے وزرا ء  پارٹی صدر تنویر الیاس کے علاوہ کسی اور کی سننے اور ماننے کے لئے تیار نہیں جسکی وجہ سے سردار عبدالقیوم نیازی کی پوزیشن مزید کمزور ہوگئی ہے۔

 پارٹی کے اندر وزیر اعظم سردار عبدالقیوم نیاز ی پر احتساب میں تاخیر پر بھی تنقید کی جارہی ہے۔ گزشتہ ہفتے وزیر اعظم  نے آزاد جموں وکشمیر میں محصولات اکٹھا کرنے والے ادارے سینٹر ل بورڈ آف ریوینو کے چیئرمین کے اختیارات چیف سیکریٹری کو تفویض کئے جس پر وزیر خزانہ عبدالماجد خان نے احتجاجا ً کابینہ کے اجلاس میں شرکت نہیں کی اور وزیر اعظم پر الزام عائد کیا کہ انہوں نے سینئر افسر سے واپس لیکر چیف سیکریٹری کو دے دیا۔ وزیر اعظم پاکستان عمران خان اور پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے خصوصی ہدایات کے باوجود وزیر اعظم سردار عبدالقیوم نیازی سابق آزاد کشمیر حکومت کے خلاف احتساب کے عمل کو تیز کرنے میں غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت اور سابق وزیر اعظم فاروق حیدر نے گزشتہ پانچ سال کے دوران وفاقی حکومت سے ترقیاتی بجٹ کی مد میں دو سو ارب روپے وصول کئے اور اس بجٹ میں آزاد جموں وکشمیر کے ہر ضلع کو بیس ارب روپے کے منصوبے دینے تھے ۔ سرکار ی کاغذات میں  یہ رقم نظر تو آرہی ہے لیکن زمین پر چند ایک کے سوا کوئی منصوبہ موجود نہیں ہے ۔ وزیر اعظم عمران خان نے آزاد کشمیر کی حکومت کو خصوصی ہدایات جاری کیں کہ مسلم لیگ (ن) کے دور میں جو دو سو ارب روپے ترقیاتی منصوبوں کے لئے دیئے گئے تھے وہ کہاں گئے۔ 

وزیر اعظم سردار عبدالقیوم تاحال سابق حکومت کے دو سو ارب روپے کے منصوبوں کی جانچ پڑتال اور احتساب میں سنجیدہ نظر نہیں آرہے ۔ جس کا وفاق نے نہ صرف نوٹس لیا بلکہ مستقبل قریب میں اسی بنیاد پر آزاد کشمیر میں وزیر اعظم کو تبدیل کرنے کا اشارہ بھی دے دیا ہے ۔ آزاد جموں وکشمیر میں وزیر اعظم عمران خان کے نظریے کے مطابق بے رحم احتساب اور بہترین حکمرانی کے لئے ضروری ہے کہ پارٹی کے اندر سے نڈر اور مقبول رہنما کو قائد ایوان بنایا جائے ۔ اس کے بعد ہی آزاد جموں و کشمیر میں کڑے احتساب کے ساتھ ساتھ  تعمیر و ترقی کا پہیہ بھی رواں رکھا جا سکتا ہے ۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

آخرت کی زندگی!

قرآن کریم اﷲجل شانہ کی آخری کتاب ہے جو سراپا حق ہے زندگی موت مابعد الموت، زندگی سے پہلے کیا تھا۔ اس زندگی کے بعد کیا ہوگا؟ تمام حقائق کو بڑے واضح آسان اور دل نشیںانداز میں بیان فرماتی ہے، حتمی اور یقینی بات کرتی ہے، جس میں ادنیٰ سا شبہ بھی نہیں۔

اسلام میں یتیموں کے حقوق

’’یتیم‘‘ اُس نابالغ بچے یا بچی کو کہا جاتا ہے کہ جس کے سر پرسے اُس کے باپ کا سایہ اُٹھ گیا ہو۔ اسلام نے مسلمانوں کو یتیم بچوں کے حقوق ادا کرنے اور اُن کے حقوق کی نگہبانی کرنے کی بڑی سختی سے تاکید کی ہے۔ یتیم بچوں کو اپنی آغوش محبت میں لے کر اُن سے پیار کرنا، اُن کو والد کی طرف سے میراث میں ملنے والے مال و اسباب کی حفاظت کرنا، اُن کی تعلیم و تربیت کی فکر کرنا، سن شعور کو پہنچنے کے بعد اُن کے مال و اسباب کا اُن کے حوالے کرنا اور انہیں اِس کا مالک بنانا اور بالغ ہونے کے بعد اُن کی شادی بیاہ کی مناسب فکر کرکے کسی اچھی جگہ اُن کا رشتہ طے کرنا، اسلام کی وہ زرّیں اور روشن تعلیمات ہیں جن کا اُس نے ہر ایک مسلمان شخص کو پابند بنایا ہے۔

سید الشہداء سیدنا حضرت امیر حمزہ ؓ

سید الشہداء سیدنا حضرت امیر حمزہ اسلام کے ان جانثاروں میں سے ہیں جن کی خدمات مینارہ نور اور روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔ جب تک آپؓ حیات رہے آپؓ نے عملی طور پر سرکاردوعالمﷺ کے نائب کا کردار ادا فرمایا۔ غزوہ احد وبدر میں آپؓ اسلامی لشکر کے سالار رہے۔ بعثت کے چھٹے سال سے لے کر 3ہجری تک،اعلان اسلام سے لے کر غزوہ احد میں سید الشہداء کا بلند مقام ملنے تک آپؓ کی پوری حیات مستعار حفاظت مصطفی کریم ﷺ میں بسر ہوئی۔

مسائل اور ان کا حل

باجماعت نماز میں امام کی قرات میں مختلف آیات کا جواب دینے کی شرعی حیثیت سوال :امام صاحب اگرباجماعت نمازمیں اگرایسی آیات تلاوت کریں جس میں دعا کا ذکر ہویااللہ تعالیٰ کی کبریائی بیان ہویاجس میں عذاب الٰہی کا ذکرہواورمقتدی دعاکی صورت میں ’’آمین، سبحان اللہ، یا اعوذ باللہ‘‘ دل میں کہے ،کیاایساکرناجائزہے؟

حکومتی اعتماد میں اضافے کے دلائل

21 اپریل کے ضمنی انتخابات کے بعد حکومت کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ 8 فروری کے انتخابات کے بعد جب مسلم لیگ (ن) اور اس کے اتحادیوں کی حکومت قائم ہو ئی تو شہباز شریف کو ووٹ دینے والوں کو شبہ تھا کہ یہ حکومت زیادہ عرصہ نہیں چل پائے گی کیونکہ مشکل فیصلے کرنے ہوں گے ، معیشت سنبھالنا انتہائی کٹھن ہو گا، بانی پی ٹی آئی کی مقبولیت حکومت کیلئے مسلسل درد سر رہے گی، یہی وجہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے شہباز شریف کو وزارت عظمیٰ کا ووٹ تو دیا مگر اہم ترین اتحادی جماعت وفاقی کابینہ کا حصہ نہیں بنی۔

ضمنی انتخابات کا معرکہ(ن) لیگ نے سر کر لیا

ضمنی انتخابات کے حوالے سے عمومی رائے یہ رہی ہے کہ ان میں حکمران جماعت کو فائدہ ملتا ہے مگر 2018ء کے بعد اس تاثر کو دھچکا لگا ۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اپوزیشن جماعتیں اپنے ووٹرز میں تحریک پیدا کرکے انہیں پولنگ سٹیشنز تک لے آتی تھیں،مگر حالیہ ضمنی انتخابات میں حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) نے ضمنی انتخابات کا معرکہ سر کر لیا۔