بلوچستان میں سیاسی تبدیلی کے وفاق پر اثرات
وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال کے استعفے کے ساتھ ہی ملک میں سیاسی چہ مگوئیوں کا سلسلہ پھر سے شروع ہو گیا ہے۔ خاص طور پر اس حوالے سے اسلام آباد میں ہر طرف اب ایک ہی موضوع زیر بحث ہے اور وہ یہ کہ کیا بلوچستان میں اس تبدیلی کی ہوا کا وفاق پر بھی کچھ اثر پڑے گا ؟ کیا اب حزب اختلاف کی جماعتیں خاص طور پرن لیگ اور پاکستان پیپلز پارٹی تبدیلی کی ہوا سے کچھ فائدہ اٹھانے کیلئے کسی متفقہ لائحہ عمل کا سوچ سکتی ہیں؟پیپلزپارٹی تو شروع سے ہی ن لیگ کو تجویز دیتی رہی ہے کہ وہ پنجاب میں سردار عثمان بزدار کیخلاف تحریک عدم اعتماد لائیں۔ اگر پنجاب میں کامیابی ملتی ہے تو اس کے بعد وزیراعظم عمران خان کے خلاف بھی ایسی ہی تحریک لائی جا سکتی ہے۔ اگر پنجاب تحریک انصاف کے ہاتھوں سے جاتا ہے تو وفاق کا ٹھہرنا مشکل ہو جائے گا۔ اگر پنجاب اور وفاق میں بلوچستان والی صورتحال نہیں بھی بنتی تو کیا جام کمال کے جانے کا کچھ اثر اسلام آباد پر پڑ سکتا ہے؟
ان سوالوں کے جواب ڈھونڈنے کے لیے جب ہمارا رابطہ راولپنڈی اور اسلام آباد میں متعلقہ لوگوں سے ہوا تو ان کے مطابق حالات ایسے نہیں ہیں جیسے میڈیا کے ایک خاص سیکشن سے ہمیں سننے اور پڑھنے کو ملتے ہیں۔ ایک سینئر وفاقی وزیر جو بلوچستان میں جاری سیاسی کشیدگی کے بارے میں کافی معلومات رکھتے ہیں کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کا اس سارے معاملے سے کچھ زیادہ لینا دینا نہیں۔ ہم سات ارکان کے ساتھ ایک اتحادی کے طور پر ضرور موجود ہیں لیکن اصل لڑائی بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کے بڑوں کے درمیان ہے۔ تین سال گزرنے کے بعد (باپ) کے لوگوں کا خیال ہے کہ جام کمال صاحب نے اس طرح ڈلیور نہیں کیا جس طرح ان سے توقع تھی۔ اس لیے ان کو باقی ماندہ دو سالوں کے دوران کوئی نیا تجربہ کرنا چاہیے ۔ ایک اور سوال کے جواب میں وزیر موصوف کا کہنا تھا کہ اگر نئے وزیر اعلیٰ (باپ) کے علاوہ کسی اور پارٹی جس میں مولانا صاحب کی جے یوائی( ایف) ہے یا پھر بی این پی مینگل گروپ میں سے ہوتا ہے تو کہا جا سکتا ہے اس کا اثر تحریک انصاف کی حکومت پرپڑے گا۔ لیکن فی الحال ایسا نہیں لگ رہا۔
اسلام آباد میں موجود ایک اور انتہائی معتبر ذریعے کے مطابق وزیر اعلیٰ جام کمال کی تبدیلی کے حوالے سے وزیر اعظم عمران خان کو اعتماد میں لیا گیا تھا۔ ان کی منظوری کے بعد ہی پارٹی کے سینئر رہنما اور وزیر دفاع پرویز خٹک کوئٹہ گئے تھے اور اس سارے معاملے کی ذاتی طور پر نگرانی کی۔ تحریک انصاف کے ایک اور پارٹی رہنما سے جب اس بابت سوال کیا کہ بظاہر تو لگتا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان سابقہ وزیر اعلیٰ سے کافی خوش تھے، انہیں کافی پسند بھی کرتے تھے تو وہ ان کی تبدیلی پر کیوں کر راضی ہوئے؟جواب میں وزیر صاحب کا کہنا تھا حقیقت میں وزیر اعظم صاحب جام کمال سے کافی خوش تھے لیکن جب (باپ) میں اکثریتی رائے جام کمال کے خلاف آئی تو پھر اس پر تحریک انصاف کا ضد کرنا بنتا نہیں تھا۔ اس لیے ہمارا اس پر سیدھا سادہ موقف تھا کہ جس طرح (باپ) والے فیصلہ کریں ہم ان کے ساتھ ہیں۔
ایک اوراہم سوال جو کہ اسلام آباد کے ایوانوں میں پوچھا جا رہا ہے کہ مقتدر حلقوں کا اس تبدیلی پر کیا رد عمل ہے؟ کم و بیش پچھلی تین چار دہائیوں سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ جب تک مقتدر حلقے کسی نام کی کلیئرنس نہیں دیتے، بلوچستان میں اس سطح کی ردوبدل نہیں ہوتی۔ اس حوالے سے جب ہماری بات چند متعلقہ لوگوں سے ہوئی تو ان کا بھی کہنا تھا کہ جام صاحب کی اپنی پارٹی کے اندر مخالفت بڑھ گئی تھی اس لیے مناسب یہی تھا کہ ایوان کے اندر تبدیلی لائی جائے۔ اس لیے جب یہ سارا معاملہ سامنے آیا تو ان حلقوں کی طرف سے بھی اس تبدیلی کے عمل میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی گئی۔ کچھ حلقوں کا خیال ہے چونکہ صادق سنجرانی کے تعلقات خاص طور پر مقتدر حلقوں کے ساتھ بہت اچھے ہیں اس لیے ان کی ذاتی کوششوں کی وجہ سے جام کمال کے خلاف یہ تحریک اعتماد بغیر کسی رکاوٹ کے کامیاب ہوگئی ہے۔ بلکہ تحریک پیش ہونے سے پہلے ہی جام کمال نے وزات اعلیٰ سے استعفیٰ دے دیا ۔ اس سوال پر چند باخبر حلقوں کا کہنا تھا اس سارے معاملے کے پیچھے کوئی بھی ہو جب (باپ) کے اپنے لوگ ہی اپنے پارٹی قائد کے خلاف ہو گئے ہیں تو پھر کسی اور پر الزام کیونکرعائد کیا جاسکتا ہے؟
ن لیگ والوں کی اکثریت ابھی تک اس بات پر قائم ہے کہ بجائے ان ہاؤس تبدیلی کے پی ڈی ایم کے ذریعے ان کی تمام تر کوششیں نئے انتخابات کروانے پر ہونی چاہئیں۔ لہٰذا وہ بلوچستان والے فارمولے کو کوئی زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ ایک ن لیگی لیڈر سے جب اس حوالے سے بات ہو ئی تو ان کا کہنا تھا اگر ہم کسی ایسے عمل کا پی پی پی کے ساتھ مل کا حصہ بھی بنتے ہیں تو وہ بھی اسی شرط پر ہوگا کہ موجودہ حکمرانوں کو گھر بھجوا کر نئے الیکشن کی راہ ہموار کی جائے نہ کہ حکومت میں بیٹھا جائے۔ اگر ہم پی پی پی کے ساتھ مل کر حکومت میں بیٹھیں گے تو اس کا فائدہ صرف پی پی پی کو ہوگا۔ اس لیے فی الحال ایسا نہیں لگ رہا کہ مستقبل قریب میں ن لیگ اور پی پی پی مل کر پنجاب اور وفاق میں حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کریں گے۔ ایک پی پی پی لیڈر کا کہنا تھا ان کی نظر میں انتخابات اپنے مقررہ وقت پر ہی ہونے چاہئیں۔ اگر ان ہاؤس تبدیلی آتی بھی ہو تو پھر بھی ہماری پارٹی کا خیال ہے کہ ہمیں 2023 ء کا انتظار کرنا چاہیے۔
اسلام آباد میں موجود زیادہ تر سیاسی تبصرہ نگاروں کی ابھی تک یہی رائے ہے کہ عمران خان کی حکومت کو ابھی تک کسی بڑے سیاسی چیلنج کا سامنا نہیں ہے۔ سول عسکری تعلقات کا بظاہر تناؤ دیکھیں یا پھر ماضی کی مثالیں سامنے رکھیں توجب کبھی اس طرح کے مسائل اسلام آباد اور راولپنڈی کے درمیان پیدا ہو جائیں تو حالات ایک جیسے نہیں رہتے۔ یہ بگاڑ کس حد تک موجود ہے ،فی الوقت اس کا اندازہ لگانا تھوڑا مشکل ہے۔اور اگر ایسا کوئی تناؤ موجود ہے بھی تو اس کا اثر ظاہر ہونے میں ابھی کچھ وقت لگے گا۔