اک چپ ،سو دکھ، افسانوی مجموعہ میں شامل کہانیوں کی زبان سادہ اورعام فہم ہے

تحریر : راشد جاوید احمد


اِک چُپ سو سُکھ تو ساری دنیا جانتی ہے اور سمجھتی بھی ہے لیکن آدم شیر کے افسانوں کے مجموعے کا نام ’’اِک چُپ، سو دُکھ ‘‘ پڑھنے والے کی توجہ اپنی جانب مذکور کرتا ہے۔ یہ ایک ایسی چپ ہے جو کسی حساس انسان کے اندر گہری اتر کر اسے اندر سے چھلنی کرتی رہتی ہے اور اگر وہ حساس انسان آدم شیر جیسا افسانہ نگار ہو تو صفحہ قرطاس پر پھیل جاتی ہے۔ اور یوں یہ چپ قاری کے اندر بھی سو قسم کے دکھ تازہ کر دیتی ہے۔

یہ افسانوی مجموعہ18کہانیوں پر مشتمل ہے۔ ان کہانیوں کی زبان انتہائی سادہ اور عام فہم ہے اور ان میں کوئی اچنبھا پیدا کرنے کی شعوری کوشش نظر نہیں آتی۔ قاری کو مطالعہ کرتے ہوئے آدم شیر کے مشاہدے کی گہرائی ضرور نظر آتی ہے۔ یہ گہرا مشاہدہ اور پھر اس کو کہانی میں بدلنے کا فن ہی اصل افسانہ نگاری ہے اور آدم شیر اس میں بہت کامیاب دکھائی دیتے ہیں۔ مصنف اپنی ان کہانیوں میں ہمیں ایک بے چین روح نظر آتا ہے جو زندگی کی تیز رفتاری اور اس کے مختلف رنگوں کے ساتھ دوڑتا نظر آتا ہے۔ اس کی سوچ ، اس کے ارد گرد بسنے والے تیسرے درجے کے باسیوں کی تکلیفوں، محرومیوں، رہن سہن اور بود و باش کے گہرے مشاہدے کی عکاس ہے۔

آدم شیر کی کہانیوں میں وہ خود بھی نظر آتا ہے۔ ایک شفیق لیکن متفکر باپ کی حیثیت سے، انسان کو برابر کی عزت دینے والے کی حیثیت سے، عورت کو مساوی انسان سمجھنے والے کی حیثیت سے اور معاشرے میں اسے عزت کی نگاہ سے دیکھنے اور دکھانے کا تردد بھی کرتا ہے۔ مزید برآں، اس مجموعے کی پہلی کہانی ’’دبدھا‘‘ میں آدم شیر اپنا مسلک کھل کر بیان کر دیتا ہے جب وہ بیوی کے بارے میں لکھتا ہے کہ ’’وہ عقائد کی پکی اور میں، جو بات سمجھ میں آئے، وہی ٹھیک‘‘۔ یہ دراصل وہ نکتہ ہے جہاں سے ہمیں مصنف کی وراثتی جبر سے گریزکی کوشش نظر آتی ہے جو کہ قابل ستائش ہے۔

میں یہاں ان کہانیوں پر فرداً فرداً تو اظہار نہیں کروں گا لیکن جو مجموعی تاثر ان کہانیوں کا بنتا ہے اس کے حساب سے یہ تمام کہانیاں آدم شیر کے سماج، اس کے ارد گرد زندگی بسر کرتے افتادگانِ خاک، ان سے ہونے والی نا انصافیوں، ان کی جہالت، ناچارگی اور بے بسی کا نہ صرف اظہار ہیں بلکہ ان سب سے نبرد آزما ہونے کی یا یوں کہیئے کہ ان تمام مصائب کو شکست دینے کی مسلسل کوشش نظر آتی ہے۔ ’’دبدھا‘‘ ہو یا ’’ہیولا‘‘، ’’غیر دلچسپ کہانی‘‘ ان سب میں غربت کی چکی میں پسنے والے افراد اور ان کے بچوں کے ساتھ جو ظلم زیادتی معاشرہ روا رکھتا ہے، اسے ختم کرنے کی ایک بھرپور خواہش کا اظہار ہے۔ مجموعے کی نمائندہ کہانی ’’اک چپ سو دکھ‘‘ بھی  یہی راندہ درگاہ بچے ہیں جو غربت کے ہاتھوں تو خوار ہو ہی رہے ہیں، اپنے ہم جنسوں کی خود غرضی کا بھی شکار ہیں۔ آدم شیر جب اس کہانی میں لکھتا ہے کہ’’وہ خاموش رہا اور پھر میں نے بھی چپ تان لی اور یہ چپ اتنی گہری اور لمبی ہوئی کہ ہر سو چپ ہی چپ رہ گئی‘‘ تو پھر قاری کو بھی کچھ دیر کے لیے چپ لگ جاتی ہے۔ ’’ غیر دلچسپ کہانی‘‘ کی یہ سطور، ’’یہ خاندان کی آزمائش نہیں ہوتی، بلکہ پورے معاشرے کا امتحان ہوتا ہے اور ہم اس میں ناکام ہو جاتے ہیں‘‘ہماری معاشرتی سوچ کی زبردست عکاس ہیں۔

بھوک، غربت، بے چارگی اور ناداری کے ہاتھوں ذلیل و  خوار ہوتی وہ مخلوق، جو مصنف کے سماج میں اکثریت میں ہے اور  زندہ در گور ہے، ’’صحرا میں ڈوبتا چاند‘‘، ’’بھکاری‘‘، ’’شکم گزیدہ‘‘ جیسی کہانیوں میں اپنے پورے عذاب کے ساتھ دکھائی دیتی ہے۔ اس سلسلے میں ’’کھلے پنجرے کا قیدی‘‘ تو ایک ایسی اعلیٰ کہانی ہے کہ پڑھنے والا یہ محسوس کرتا ہے کہ سب کچھ اس کے ساتھ ہی بیت رہا ہے۔ کسی کردار کی سوچ، قاری کی سوچ کے ساتھ جڑ جائے تو اس سے عمدہ کہانی اور کیا ہوگی۔

یہاں یہ بھی کہتا چلوں کہ آدم شیر نے جہاں ’’اندرون لاہور‘‘ کا ذکر کیا ہے تو اسے محدود نہیں بلکہ وسیع معنوں میں لیا جانا چاہیے کہ ہر شہر میں ایک ’’اندرون ِ شہر‘‘ موجود ہے اور اس کے باسیوں کی کہانیاں بھی لاہور والوں ایسی ہی ہیں۔

سادہ، سلیس اور روایتی انداز میں لکھی یہ کہانیاں، پڑھنے میں اتنی آسان نہیں ہیں۔ ہر کہانی پڑھنے والے کے اندر خاموشی سے اترتی ہے اور اس کے اندر کو اس طرح سے کاٹتی ہے  کہ پڑھنے والے کا کرب اس کے چہرے پر نمایاں ہو جاتا ہے۔ کہیں ذاتی زندگی کی جھلک، کہیں عوام الناس کے مسائل، معاشرے کی یہ سچی اور تلخ حقیقتیں، اخلاقی اور معاشی طور پر رو بہ زوال سماج کی کتھا،  مصنف کا مشاہدہ، اسلوب بیاں اور فکشن لکھنے کی صلاحیت، یہ سب  ایک عمدہ فکشن کی نشانی ہے۔

جس ادب سے ہمارا ذوق مطالعہ صحیح بیدار نہ ہو ، ذہنی تسکین نہ ملے، ہم میں قوت وحرارت پیدا نہ ہو، ہمارا جذبہ حسن نہ جا گے، جو ہم میں سچا ارادہ اور مشکلات پر فتح پانے کے لیے سچااستقلال نہ پیدا کرے۔ وہ آج ہمارے لیے بیکار ہے۔ اس پر ادب کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔ ہماری کسوٹی پر وہی ادب کھرا اترے گا جس میں تفکر ہو،آزادی کا جذبہ ہو ،حسن کا جوہر ہو،تعمیر کی روح ہو،زندگی کی حقیقتوں کی روشنی ہو، جو ہم میں حرکت، ہنگامہ اور بے چینی پیدا کرے اور خواب آور نہ ہوکہ اب مزید سونا موت کی علامت ہوگی۔ معاشرتی خرابیوں، ظلم، پس ماندگی اور استحصال کے خلاف قلمی جہاد کرنا ایک انسان دوست فریضہ ہے اور آدم شیر نے اس فریضے کو نبھانے کی کوشش کی ہے جس کے لیے وہ قابل تحسین ہے۔ خالد فتح محمد نے کتاب کے بیک کور پر آدم شیر کو نئی نسل کا اہم فکشن نگار لکھا ہے اور بجا طور پر لکھا ہے۔

(راشد جاوید ریٹائرڈ بینکر ، افسانہ نگار اور ایک ادبی میگزین کے مدیر ہیں، ان کی کہانیاں اور مضامین ادبی جرائد کی زینت بنتے رہتے ہیں)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

آخرت کی زندگی!

قرآن کریم اﷲجل شانہ کی آخری کتاب ہے جو سراپا حق ہے زندگی موت مابعد الموت، زندگی سے پہلے کیا تھا۔ اس زندگی کے بعد کیا ہوگا؟ تمام حقائق کو بڑے واضح آسان اور دل نشیںانداز میں بیان فرماتی ہے، حتمی اور یقینی بات کرتی ہے، جس میں ادنیٰ سا شبہ بھی نہیں۔

اسلام میں یتیموں کے حقوق

’’یتیم‘‘ اُس نابالغ بچے یا بچی کو کہا جاتا ہے کہ جس کے سر پرسے اُس کے باپ کا سایہ اُٹھ گیا ہو۔ اسلام نے مسلمانوں کو یتیم بچوں کے حقوق ادا کرنے اور اُن کے حقوق کی نگہبانی کرنے کی بڑی سختی سے تاکید کی ہے۔ یتیم بچوں کو اپنی آغوش محبت میں لے کر اُن سے پیار کرنا، اُن کو والد کی طرف سے میراث میں ملنے والے مال و اسباب کی حفاظت کرنا، اُن کی تعلیم و تربیت کی فکر کرنا، سن شعور کو پہنچنے کے بعد اُن کے مال و اسباب کا اُن کے حوالے کرنا اور انہیں اِس کا مالک بنانا اور بالغ ہونے کے بعد اُن کی شادی بیاہ کی مناسب فکر کرکے کسی اچھی جگہ اُن کا رشتہ طے کرنا، اسلام کی وہ زرّیں اور روشن تعلیمات ہیں جن کا اُس نے ہر ایک مسلمان شخص کو پابند بنایا ہے۔

سید الشہداء سیدنا حضرت امیر حمزہ ؓ

سید الشہداء سیدنا حضرت امیر حمزہ اسلام کے ان جانثاروں میں سے ہیں جن کی خدمات مینارہ نور اور روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔ جب تک آپؓ حیات رہے آپؓ نے عملی طور پر سرکاردوعالمﷺ کے نائب کا کردار ادا فرمایا۔ غزوہ احد وبدر میں آپؓ اسلامی لشکر کے سالار رہے۔ بعثت کے چھٹے سال سے لے کر 3ہجری تک،اعلان اسلام سے لے کر غزوہ احد میں سید الشہداء کا بلند مقام ملنے تک آپؓ کی پوری حیات مستعار حفاظت مصطفی کریم ﷺ میں بسر ہوئی۔

مسائل اور ان کا حل

باجماعت نماز میں امام کی قرات میں مختلف آیات کا جواب دینے کی شرعی حیثیت سوال :امام صاحب اگرباجماعت نمازمیں اگرایسی آیات تلاوت کریں جس میں دعا کا ذکر ہویااللہ تعالیٰ کی کبریائی بیان ہویاجس میں عذاب الٰہی کا ذکرہواورمقتدی دعاکی صورت میں ’’آمین، سبحان اللہ، یا اعوذ باللہ‘‘ دل میں کہے ،کیاایساکرناجائزہے؟

حکومتی اعتماد میں اضافے کے دلائل

21 اپریل کے ضمنی انتخابات کے بعد حکومت کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ 8 فروری کے انتخابات کے بعد جب مسلم لیگ (ن) اور اس کے اتحادیوں کی حکومت قائم ہو ئی تو شہباز شریف کو ووٹ دینے والوں کو شبہ تھا کہ یہ حکومت زیادہ عرصہ نہیں چل پائے گی کیونکہ مشکل فیصلے کرنے ہوں گے ، معیشت سنبھالنا انتہائی کٹھن ہو گا، بانی پی ٹی آئی کی مقبولیت حکومت کیلئے مسلسل درد سر رہے گی، یہی وجہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے شہباز شریف کو وزارت عظمیٰ کا ووٹ تو دیا مگر اہم ترین اتحادی جماعت وفاقی کابینہ کا حصہ نہیں بنی۔

ضمنی انتخابات کا معرکہ(ن) لیگ نے سر کر لیا

ضمنی انتخابات کے حوالے سے عمومی رائے یہ رہی ہے کہ ان میں حکمران جماعت کو فائدہ ملتا ہے مگر 2018ء کے بعد اس تاثر کو دھچکا لگا ۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اپوزیشن جماعتیں اپنے ووٹرز میں تحریک پیدا کرکے انہیں پولنگ سٹیشنز تک لے آتی تھیں،مگر حالیہ ضمنی انتخابات میں حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) نے ضمنی انتخابات کا معرکہ سر کر لیا۔