آہ! ڈاکٹر اجمل نیازی ،پاکستان ایک دلیر اور محب وطن لکھاری سے محروم ہوگیا

تحریر : ڈاکٹر عرفان پاشا


پروفیسر ڈاکٹر محمد اجمل خان نیازی ایک ہمہ گیرشخصیت تھے، جنہوں نے علم وادب کے ہر شعبے میں اپنی خدمات سرانجام دیں۔ وہ بیک وقت شاعر، ادیب، سفرنامہ نگار، کالم نگار، محقق، نقاد، تحقیقی مقالہ جات کے نگران اور استاد تھے۔ آپ کا تعلق نیازی قبیلے سے تھا اور وہ ہمیشہ اس بات پر فخر محسوس کرتے تھے۔ اسی مناسبت سے وہ معروف شاعر منیر نیازی کو ہمیشہ ’’میرے قبیلے کا سردار‘‘ کہہ کر بلاتے تھے۔

ڈاکٹر اجمل نیازی کی پیدایش پاکستان بننے سے ایک برس قبل موسیٰ خیل ضلع میانوالی میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم میانوالی اورپھر ہور سے حاصل کی ۔گورنمنٹ کالج لاہور سے انہیں عشق تھا وہ اس ادارے کے طالب علم بھی رہے اور استادبھی اس کے علاوہ یہاں رسالہ’’راوی‘‘ کے مدیر کی حیثیت سے بھی اپنی ذمہ داریاں انجام دیں۔ ملازمت کے سلسلے میں گورڈن کالج راولپنڈی، گورنمنٹ کالج میانوالی،گورنمنٹ کالج لاہور، ایف سی کالج لاہور اورگونمنٹ کالج ٹاؤن شپ لاہور میں تعینات رہے۔ لاہور میں وحدت روڈ پر واقع سرکاری کالونی کے کوارٹر نمبر D-7 میں ساری زندگی گزار دی۔ ان کی تصانیف میں ’’مندر میں محراب‘‘، ’’جل تھل‘‘، محمددین فوق‘‘، ’’بے نیازیاں‘‘، ’’بازگشت‘‘، ’’محبت اور جنگ‘‘، ’’مجموعہ مقالات‘‘ اور ’’پچھلے پہر کی سرگوشی‘‘ وغیرہ شامل ہیں۔ ان کے ہزاروں طالب علم ان کی زندہ میراث ہیں۔ 18اکتوبر2021ء کو یہ بطل جلیل دوسال بیماری سے مردانہ وار لڑنے کے بعد راہی ملک بقا ہو گیا۔ 

ڈاکٹر اجمل نیازی کی رحلت سے اردو ادب کی دنیا ایک قد آور ادیب اور ایک سچے محب وطن سے محروم ہو گئی ہے۔ ان کی وفات کے حوالے سے متحرک علمی و ادبی تنظیم آفاق ادب، پاکستان نے ان کے لیے ایک تعزیتی ریفرنس کا اہتمام کیا۔یہ تقریب اکادمی ادبیات لاہور کے صوبائی دفتر میں منعقد ہوئی جس کی صدارت پروفیسر ڈاکٹر سعادت سعید نے کی جب کہ مہمانان خاص میں ڈاکٹر کنول فیروز، ڈاکٹر ہارون قادر، ڈاکٹر عبدالکریم خالد، ڈاکٹر نواز حسن زیدی، معروف شاعر ناصر بشیر، ڈاکٹر عرفان پاشا، محمد اقبال، سجاد جعفری، علی راج، اسٹیفن گل اور ڈاکٹرایم ابرار شامل تھے۔ نظامت کے فرائض آفاق ادب کی روح رواں ڈاکٹر عابدہ بتول نے ادا کیے۔ تلاوت و نعت کی سعادت علی راج نے حاصل کی۔ حاضرین میں عظمیٰ اجمل خان، طاہرہ بتول، آشر حنیف، سلمان صدیق، اقبال بخاری، محمد جمیل اور علم و ادب سے تعلق رکھنے والی متعدد دیگر شخصیات شامل تھیں۔ 

منیجر فیصل بنک محمد اقبال نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر اجمل نیازی نے ہمیشہ کلمہ حق کہا اور حکومتی جبر اور پابندیوں کو خندہ پیشانی سے قبول کیا۔ ڈاکٹر عرفان پاشا نے کہا کہ ڈاکٹر اجمل نیازی صاحب اسلوب ادیب تھے اور تحریر و تقریر میں تراکیب سازی اور رعایت لفظی کے ماہر تھے۔ وہ ایک دلبر اور دلیرآدمی تھے۔ وہ جس محفل میں موجود ہوتے اس کو کشت زعفران بنا دیتے۔ وہ ہرتقریب میں بیٹھے ہوئے کچھ نہ کچھ نوٹس لکھتے رہتے تھے تاکہ اس کے بارے میں بعدازاں کالم یا کوئی دیگر تحریر لکھیں تو اہم باتیں ذہن سے محو نہ ہو جائیں۔ ان کی شخصیت محنت اور محبت کا پیکر تھی۔ 

ناصر بشیر نے کہا کہ ڈاکٹر اجمل نیازی کا ان کے ساتھ متعدد اخبارات میں بے حد حسین وقت گزرا ہے اور وہ اپنے بچوں کو ان کے پاس چھوڑ جاتے تھے جہاں وہ انہیں کمپنی بھی دیتے اورکھانا بھی کھلاتے جس سے وہ خوش ہوتے۔ حتیٰ کہ اپنے والد کے جنازے پر بھی نیازی صاحب کے بیٹے ان لمحات کو یاد کر کے جذباتی ہو رہے تھے۔ سجاد جعفری نے کہا کہ ڈاکٹر اجمل نیازی  انہیں ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتے اور مختلف تقریبات میں لے جاتے اور اس طرح انہوں نے ان کی شعری، نثری اور تقریری تربیت کی۔ اکادمی ادبیات کے مہتمم محمد جمیل نے کہا کہ ڈاکٹر اجمل نیازی سے ان کے دوستانہ تعلقات چالیس سال پرمحیط ہیں جن کا اختتام ہوا اوراب وہ نیازی صاحب کو ہمیشہ مس کرتے ہیں۔ 

ڈاکٹر نوازحسن زیدی نے ان کے ساتھ اپنے ایف سی کالج کے مشاہدات اور تجربات کو بیان کرتے ہوے کہا کہ ڈاکٹر اجمل نیازی دوستی اوردشمنی کے معاملات میں کھرے اورانتہائی صاف گو آدمی تھے۔ ڈاکٹر عبدالکریم خالد نے کہا کہ ڈاکٹر اجمل نیازی سے ایک مرتبہ ان کی کچھ شکر رنجی ہو گئی تو نیازی صاحب خود ان کو منانے ان کے گھر پہنچ گئے۔ اس کے بعد ان کی دوستی گھریلو تعلقات میں بدل گئی۔ ان کی شخصیت معصومیت  اورحیرت سے عبارت تھی۔ ڈاکٹرہارون قادرنے کہا کہ ڈاکٹر اجمل نیازی ان کے بہت بے تکلف دوست تھے اوران کے ساتھ اپنے تمام معاملات سانجھے کرتے تھے۔ 

صدارتی خطبہ دیتے ہوئے ڈاکٹرسعادت سعید نے کہا کہ ڈاکٹر اجمل نیازی کا سفرنامہ ’’مندر میں محراب‘‘ ان کی حب الوطنی کی زندہ مثال ہے جس میں انہوں نے دورہ ہندوستان کو مسلم ہندوستان کی بازیافت قرار دینے کی کوشش کی ہے۔ وہ ایک سچے پاکستانی اور نڈر و دبنگ ادیب تھے جنہوںنے اپنے قلم کے ذریعے وہ کام کیا جو بڑے بڑے جرنیل نہیں کر پائے۔ علی راج نے ڈاکٹر اجمل نیازی کی شان میں منظوم خراج عقیدت بھی پیش کیا۔ تقریب کے اختتام پر ڈاکٹر اجمل نیازی کی مغفرت، بلندی درجات اورشفاعت رسول کریمﷺ کے لئے دعا کی گئی اورحاضرین کو چائے پیش کی گئی۔ 

(ڈاکٹر عرفان پاشا یونیورسٹی آف ایجوکیشن فیصل آباد کیمپس کے شعبہ اردو سے بطور اسسٹنٹ پروفیسر وابستہ ہیں، ادب اور سماجی موضوعات پر ان کے مضامین و کالم مختلف اخبارات اوررسائل میں شائع ہوتے رہتے ہیں، چار کتابوں کے مصنف بھی ہیں)

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

آخرت کی زندگی!

قرآن کریم اﷲجل شانہ کی آخری کتاب ہے جو سراپا حق ہے زندگی موت مابعد الموت، زندگی سے پہلے کیا تھا۔ اس زندگی کے بعد کیا ہوگا؟ تمام حقائق کو بڑے واضح آسان اور دل نشیںانداز میں بیان فرماتی ہے، حتمی اور یقینی بات کرتی ہے، جس میں ادنیٰ سا شبہ بھی نہیں۔

اسلام میں یتیموں کے حقوق

’’یتیم‘‘ اُس نابالغ بچے یا بچی کو کہا جاتا ہے کہ جس کے سر پرسے اُس کے باپ کا سایہ اُٹھ گیا ہو۔ اسلام نے مسلمانوں کو یتیم بچوں کے حقوق ادا کرنے اور اُن کے حقوق کی نگہبانی کرنے کی بڑی سختی سے تاکید کی ہے۔ یتیم بچوں کو اپنی آغوش محبت میں لے کر اُن سے پیار کرنا، اُن کو والد کی طرف سے میراث میں ملنے والے مال و اسباب کی حفاظت کرنا، اُن کی تعلیم و تربیت کی فکر کرنا، سن شعور کو پہنچنے کے بعد اُن کے مال و اسباب کا اُن کے حوالے کرنا اور انہیں اِس کا مالک بنانا اور بالغ ہونے کے بعد اُن کی شادی بیاہ کی مناسب فکر کرکے کسی اچھی جگہ اُن کا رشتہ طے کرنا، اسلام کی وہ زرّیں اور روشن تعلیمات ہیں جن کا اُس نے ہر ایک مسلمان شخص کو پابند بنایا ہے۔

سید الشہداء سیدنا حضرت امیر حمزہ ؓ

سید الشہداء سیدنا حضرت امیر حمزہ اسلام کے ان جانثاروں میں سے ہیں جن کی خدمات مینارہ نور اور روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔ جب تک آپؓ حیات رہے آپؓ نے عملی طور پر سرکاردوعالمﷺ کے نائب کا کردار ادا فرمایا۔ غزوہ احد وبدر میں آپؓ اسلامی لشکر کے سالار رہے۔ بعثت کے چھٹے سال سے لے کر 3ہجری تک،اعلان اسلام سے لے کر غزوہ احد میں سید الشہداء کا بلند مقام ملنے تک آپؓ کی پوری حیات مستعار حفاظت مصطفی کریم ﷺ میں بسر ہوئی۔

مسائل اور ان کا حل

باجماعت نماز میں امام کی قرات میں مختلف آیات کا جواب دینے کی شرعی حیثیت سوال :امام صاحب اگرباجماعت نمازمیں اگرایسی آیات تلاوت کریں جس میں دعا کا ذکر ہویااللہ تعالیٰ کی کبریائی بیان ہویاجس میں عذاب الٰہی کا ذکرہواورمقتدی دعاکی صورت میں ’’آمین، سبحان اللہ، یا اعوذ باللہ‘‘ دل میں کہے ،کیاایساکرناجائزہے؟

حکومتی اعتماد میں اضافے کے دلائل

21 اپریل کے ضمنی انتخابات کے بعد حکومت کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ 8 فروری کے انتخابات کے بعد جب مسلم لیگ (ن) اور اس کے اتحادیوں کی حکومت قائم ہو ئی تو شہباز شریف کو ووٹ دینے والوں کو شبہ تھا کہ یہ حکومت زیادہ عرصہ نہیں چل پائے گی کیونکہ مشکل فیصلے کرنے ہوں گے ، معیشت سنبھالنا انتہائی کٹھن ہو گا، بانی پی ٹی آئی کی مقبولیت حکومت کیلئے مسلسل درد سر رہے گی، یہی وجہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے شہباز شریف کو وزارت عظمیٰ کا ووٹ تو دیا مگر اہم ترین اتحادی جماعت وفاقی کابینہ کا حصہ نہیں بنی۔

ضمنی انتخابات کا معرکہ(ن) لیگ نے سر کر لیا

ضمنی انتخابات کے حوالے سے عمومی رائے یہ رہی ہے کہ ان میں حکمران جماعت کو فائدہ ملتا ہے مگر 2018ء کے بعد اس تاثر کو دھچکا لگا ۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اپوزیشن جماعتیں اپنے ووٹرز میں تحریک پیدا کرکے انہیں پولنگ سٹیشنز تک لے آتی تھیں،مگر حالیہ ضمنی انتخابات میں حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) نے ضمنی انتخابات کا معرکہ سر کر لیا۔