حکومت کیلئے وقت کم، مقابلہ سخت

تحریر : خاور گھمن


پاکستان کے موجودہ حالات کو اگر سامنے رکھیں تو اس وقت کوئی ایک خبر بھی وزیراعظم عمران خان یا تحریک انصاف حکومت کے حق میں پڑھنے یا سننے کو نہیں ملتی۔ ایک طرف حکومت کو اگر معاشی چیلنجز کا سامنا ہے تو دوسری طرف پٹرول اور گیس کی قلت کی وجہ سے لوگوں کی زندگی اجیرن بنی ہوئی ہے۔ سونے پر سہاگہ کہ چینی اور گندم کے وافر سٹاک کی موجودگی کے باوجود قیمتوں میں روز بروز اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ اپوزیشن جماعتیں سڑکوں پر آچکی ہیں تو اتحادی بھی ناخوش دکھائی دیتے ہیں۔ جس کا ثبوت انہوں نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں قانون سازی کے موقع پر اپنے خدشات کا اظہار کر کے دیا۔ ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی کے حوالے سے پیدا ہونے والے حالات کی وجہ سے بظاہر سول اور ملٹری قیادت میں بھی تناؤ نظر آیا۔ تحریک انصاف کے اپنے لوگ بھی پریشان ہیں لیکن اس سب کے باوجود اگر کوئی پریشان نہیں تو وہ وزیراعظم عمران خان ہیں یا پھر وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار۔

اتنے سارے چیلنجز کا سامنا جب ایک حکومتی پارٹی کو ہو تو ایک سے زیادہ سوال ذہن میں ابھرتے ہیں۔سب سے اہم سوال یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان اپنے باقی ماندہ 20 مہینوں کے دوران ایساکونسا لائحہ عمل اپنائیں گے جس کی وجہ سے وہ 2023ء کے انتخابات میں عوام کے پاس جا سکیں گے اور انہیں بتائیں گے کہ گزشتہ پانچ سال کے دوران عوامی ترقی اور بہبود کیلئے میں نے یہ کام کیے ہیں اور اگر آپ لوگ مجھے دوبارہ منتخب کرتے ہیں تو میں آپ کے لیے مزید یہ کام کروں گا۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومتی کمزوریوں کی وجہ سے کیا حزب اختلاف اس پوزیشن میں آ چکی ہے کہ وہ تحریک انصاف کی حکومت کو چلتا کرتے ہوئے آئندہ انتخابات کیلئے راستہ ہموار کر سکے؟  

حکومت کے پاس اپنے باقی 20 مہینوں کے لیے کیا پلان آف ایکشن ہے جس کے ذریعے وہ مہنگائی پر قابو پانے کیساتھ بیروز گاری میں کمی لاسکے گی ؟تاکہ حکومت کے حوالے سے لوگوں کی رائے میں مثبت تبدیلی آئے۔ ان سوالوں کے جواب ڈھونڈنے کیلئے جب ہماری ایک اہم وفاقی وزیر سے بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا آئندہ سال مارچ، اپریل کے بعد امید ہے کہ پوری دنیا میں حالات بہتر ہوں، موجودہ ڈیمانڈ اور سپلائی کی صورتحال میں بہتری آئے گی جس کا اثر پاکستان پر بھی پڑے گا۔ تیل کی بڑھتی قیمتوں کی وجہ سے حکومت کو اس وقت کافی مشکلات کا سامنا ہے اور ظاہر ہے اس کا اثر بجلی اور گیس کی قیمتوں پر بھی پڑتا ہے جس کی وجہ سے حکومت پر تنقید مزیدبڑھ جا تی ہے۔

 ایک دوسرے وزیر سے جب پوچھا تھا تو ان کا دعویٰ تھا کہ کامیاب نوجوان پروگرام، احساس پروگرام، صحت اور کسان کارڈز کی وجہ سے آئندہ انتخابات میں جانے سے پہلے تحریک انصاف کافی اچھی پوزیشن میں آجائے گی۔ برآمدات بڑھ رہی ہیں،رئیل اسٹیٹ سیکڑ میں اس وقت کافی زوروشور سے کاروبار ہو رہا ہے،زراعت کے شعبے میں بھی کافی بہتری ہے، اس لیے ہماری حکومت 2023ء کے انتخابات کے حوالے سے زیادہ پریشان نہیں۔ لیکن حکومتی اتحادی کافی پریشان نظر آتے ہیں۔ ق لیگ کے ایک عہدیدار کے مطابق اگر حالات اسی طرح کے رہے تو ظاہر ہے ہمیں آئندہ انتخابات میں کافی مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے۔ ظاہر ہے گذشتہ تین سال سے ہم ساتھ ہیں اس لیے حکومت کے تمام اچھے برے اقدامات کا اثر ہماری سیاست پر ضرور پڑے گا۔ 

دوسرا اہم سوال جو آجکل اسلام آباد کے حلقوں میں زیر بحث ہے وہ ہے کہ کیا اپوزیشن اپنی حکومت مخالف تحریک کو اس مقام تک لا پائے گی جس کے نتیجے میں ملک میں نئے انتخابات کا انعقاد ممکن ہو سکے۔ ن لیگ میں موجود چند افراد سے جب پوچھا تو ان کاکہنا تھاکہ ان کی پارٹی نئے انتخابات ضرور چاہتی ہے لیکن یہ کیسے ممکن ہو، اس پر ابھی تک حزب اختلاف کی جماعتوں کے درمیان آراء تقسیم ہیں۔ پیپلزپارٹی چاہتی ہے پہلے وزیر اعلیٰ پنجاب اور وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی جائے اور اگر اس میں وہ کامیاب ہو جاتے ہیں تو پھر اگلے انتخابات کے حوالے سے کچھ سوچا جا سکتا ہے،لیکن ن لیگ کا خیال ہے حکومت پر مظاہروں کے ذریعے دباؤ بڑھایا جائے اور اسے مزید ایکسپوز کیا جائے۔ تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اگر حکومت کا بوریا بستر گول کیا جاتا ہے تو اس کے لیے حکومت کے موجودہ اتحادیوں کو توڑنا پڑے گا اور اس مقصد کے لیے ان کے ساتھ کچھ وعدے وعید کرنا پڑیں گے، اگر ایسا ہوتا ہے توپھر ظاہر ہے ہمارے ووٹ کو عزت دو کے بیانیے کو ٹھیس پہنچے گی۔ اس لیے سینئر ن لیگی رہنما کا کہنا تھا وہ کسی جلدی میں نہیں، کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہتے جس سے ایسا لگے کہ ن لیگ کسی سازش کے ذریعے حکومت کو نکالنا چاہتی ہے۔ اس لیے زیادہ تر لوگوں کا خیال ہے وزیر اعظم عمران خان بذات خود اگر کسی دن اسمبلیاں توڑ کر نئے الیکشن کر طرف جاتے ہیں تو ٹھیک ، ورنہ حالات و واقعات ایسے نہیں کہ حکومت کو اپوزیشن کی طرف سے کوئی حقیقی خطرہ ہو۔ 

اس کے بعد سب سے زیادہ زیر بحث رہنے والا معاملہ نئے ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری کا ہے کہ کیا نیا ڈی جی آئی ایس آئی آنے کے بعد حکومت اور عسکری قیادت کے درمیان ایک پیج والا فلسفہ قصہ پارینہ سمجھا جانا چاہیے؟ اس پر شہر اقتدار کے باخبر لوگوں کی رائے منقسم ہے۔ ایک رائے کے مطابق جب بھی آبپارہ میں قیادت تبدیل ہوتی ہے اس کے بعد ملکی سیاسی منظر نامے پرکچھ تبدیلیاں ضرور رونما ہوتی ہیں۔ اب یہ تبدیلیاں کس نوعیت کی ہوں گی اس حوالے سے کچھ کہنا قبل ازوقت ہوگا تاہم قوی امکان ہے کہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے جانے کے بعد اب سول ملٹری تعلقات شاید پہلے جیسے نہ رہیں۔ لیکن یہ تبدیلی ایسی نہیں ہو گی جس سے حکومت کو کوئی بڑا خطرہ لاحق ہو۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

آخرت کی زندگی!

قرآن کریم اﷲجل شانہ کی آخری کتاب ہے جو سراپا حق ہے زندگی موت مابعد الموت، زندگی سے پہلے کیا تھا۔ اس زندگی کے بعد کیا ہوگا؟ تمام حقائق کو بڑے واضح آسان اور دل نشیںانداز میں بیان فرماتی ہے، حتمی اور یقینی بات کرتی ہے، جس میں ادنیٰ سا شبہ بھی نہیں۔

اسلام میں یتیموں کے حقوق

’’یتیم‘‘ اُس نابالغ بچے یا بچی کو کہا جاتا ہے کہ جس کے سر پرسے اُس کے باپ کا سایہ اُٹھ گیا ہو۔ اسلام نے مسلمانوں کو یتیم بچوں کے حقوق ادا کرنے اور اُن کے حقوق کی نگہبانی کرنے کی بڑی سختی سے تاکید کی ہے۔ یتیم بچوں کو اپنی آغوش محبت میں لے کر اُن سے پیار کرنا، اُن کو والد کی طرف سے میراث میں ملنے والے مال و اسباب کی حفاظت کرنا، اُن کی تعلیم و تربیت کی فکر کرنا، سن شعور کو پہنچنے کے بعد اُن کے مال و اسباب کا اُن کے حوالے کرنا اور انہیں اِس کا مالک بنانا اور بالغ ہونے کے بعد اُن کی شادی بیاہ کی مناسب فکر کرکے کسی اچھی جگہ اُن کا رشتہ طے کرنا، اسلام کی وہ زرّیں اور روشن تعلیمات ہیں جن کا اُس نے ہر ایک مسلمان شخص کو پابند بنایا ہے۔

سید الشہداء سیدنا حضرت امیر حمزہ ؓ

سید الشہداء سیدنا حضرت امیر حمزہ اسلام کے ان جانثاروں میں سے ہیں جن کی خدمات مینارہ نور اور روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔ جب تک آپؓ حیات رہے آپؓ نے عملی طور پر سرکاردوعالمﷺ کے نائب کا کردار ادا فرمایا۔ غزوہ احد وبدر میں آپؓ اسلامی لشکر کے سالار رہے۔ بعثت کے چھٹے سال سے لے کر 3ہجری تک،اعلان اسلام سے لے کر غزوہ احد میں سید الشہداء کا بلند مقام ملنے تک آپؓ کی پوری حیات مستعار حفاظت مصطفی کریم ﷺ میں بسر ہوئی۔

مسائل اور ان کا حل

باجماعت نماز میں امام کی قرات میں مختلف آیات کا جواب دینے کی شرعی حیثیت سوال :امام صاحب اگرباجماعت نمازمیں اگرایسی آیات تلاوت کریں جس میں دعا کا ذکر ہویااللہ تعالیٰ کی کبریائی بیان ہویاجس میں عذاب الٰہی کا ذکرہواورمقتدی دعاکی صورت میں ’’آمین، سبحان اللہ، یا اعوذ باللہ‘‘ دل میں کہے ،کیاایساکرناجائزہے؟

حکومتی اعتماد میں اضافے کے دلائل

21 اپریل کے ضمنی انتخابات کے بعد حکومت کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ 8 فروری کے انتخابات کے بعد جب مسلم لیگ (ن) اور اس کے اتحادیوں کی حکومت قائم ہو ئی تو شہباز شریف کو ووٹ دینے والوں کو شبہ تھا کہ یہ حکومت زیادہ عرصہ نہیں چل پائے گی کیونکہ مشکل فیصلے کرنے ہوں گے ، معیشت سنبھالنا انتہائی کٹھن ہو گا، بانی پی ٹی آئی کی مقبولیت حکومت کیلئے مسلسل درد سر رہے گی، یہی وجہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے شہباز شریف کو وزارت عظمیٰ کا ووٹ تو دیا مگر اہم ترین اتحادی جماعت وفاقی کابینہ کا حصہ نہیں بنی۔

ضمنی انتخابات کا معرکہ(ن) لیگ نے سر کر لیا

ضمنی انتخابات کے حوالے سے عمومی رائے یہ رہی ہے کہ ان میں حکمران جماعت کو فائدہ ملتا ہے مگر 2018ء کے بعد اس تاثر کو دھچکا لگا ۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اپوزیشن جماعتیں اپنے ووٹرز میں تحریک پیدا کرکے انہیں پولنگ سٹیشنز تک لے آتی تھیں،مگر حالیہ ضمنی انتخابات میں حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) نے ضمنی انتخابات کا معرکہ سر کر لیا۔