فضائل اسلام ،سب سے زیادہ اللہ کے قریب وہ لوگ ہوں گے جو سلام کہنے میں پہل کرتے ہیں
سلام کی اسلام میں بہت زیادہ اہمیت ہے۔ ایک مسلمان اپنے کسی مسلمان بھائی کو سلام کرکے اس سے دلی محبت کا اظہار کرتا ہے۔ اسی طرح جس کو سلام کیا گیاہے وہ بھی جواب دے کر سلام کرنے والے سے محبت کااظہار کرتا ہے۔ سلام صرف اسلام کا شعار ہی نہیں ہے بلکہ ایک اہم اخلاقی فریضہ بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو جب تک کہ گھر والوں کی رضا نہ لے لو اور گھر والوں پر سلام نہ بھیج لو، یہ طریقہ تمہارے لیے بہتر ہے۔ توقع ہے کہ تم اس کا خیال رکھوگے۔‘‘ (النور: 27)
ایک دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے:’’البتہ جب گھروں میں داخل ہواکرو تواپنے لوگوں کو سلام کیا کرو، یہ دعائے خیر ہے اللہ کی طرف سے مقرر فرمائی ہوئی، بڑی بابرکت اور پاکیزہ‘‘ (النور:61) نبی کریمﷺ سلام کی ابتداء ’’السلام علیکم ورحمتہ اللہ‘‘ کے کلمات سے فرماتے اور سلام کرنے والے کو جواب میں ’’وعلیکم السلام‘‘ کہتے تھے۔ لفظ ’’السلام علیکم‘‘ (تم پر سلامتی ہو) اور ’’وعلیکم السلام‘‘ (اور آپ پر بھی سلامتی ہو) دونوں دعائیہ کلمات ہیں جو کہ مسلمان ملاقات کے وقت ایک دوسرے کے لئے استعمال کرتے ہیں گویا مسلمان ایک دوسرے سے ملتے ہی ایک دوسرے کو دعا دیتے ہیں۔ نبی پاک ﷺ نے فرمایا کہ ’’بہترین اسلام یہ ہے کہ تم کھانا کھلائو چاہے جاننے والا ہو یا نہ جاننے والا، سب کو سلام کرو‘‘ (بخاری:12)، (صحیح مسلم:39)۔
حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا:’’اللہ نے جب حضرت آدم ؑ کو پیدا کیا تو ان سے فرمایا کہ ان فرشتوں کے پاس جائو اور انھیں سلام کرو اور سنو کہ وہ تمہیں کیا جواب دیتے ہیں کیونکہ وہی تمہاری اولاد کے سلام کا جواب ہو گا۔ چنانچہ حضرت آدم علیہ السلام نے السلام علیکم کہا فرشتوں نے جواب میں وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ کہا۔ ( صحیح البخاری، الحدیث 6227)
حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول کریمؐ نے فرمایا ’’تم جنت میں داخل نہیں ہوگے جب تک تم ایمان نہ لاؤ اور تم مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ تم ایک دوسرے سے محبت نہ کرو۔کیا میں تم کو ایک ایسی چیز نہ بتاؤں جس پر تم عمل کرو تو ایک دوسرے سے محبت کرنے لگو۔ اپنے درمیان سلا م کو عام کرو۔ (سنن ابی داؤد:5193)،سلام میں پہل کرنا قربتِ الٰہی کا بہترین ذریعہ ہے۔ رسول کریمﷺ نے فرمایا:’’سب سے زیادہ اللہ کے قریب وہ لوگ ہوں گے جو سلام کہنے میں پہل کرتے ہیں۔ (ابو داؤد: 5197)
شریعت میں سلام کرنے کا طریقہ یہ بتایا گیا ہے کہ چلنے والا بیٹھے ہوئے کو، سوار پیدل چلنے والے کو، تھوڑے افراد زیادہ کو اور چھوٹا بڑے کو سلام کرے جبکہ سرکار ﷺ نے فرمایا کہ دو چلنے والوں میں سے جو پہل کرے وہ افضل ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ جو سلام میں پہل کرے وہ اللہ کے ہاں تمام لوگوں سے بہتر ہے (ترمذی)۔
آپ ﷺ کی سیرت طیبہ یہ تھی کہ آپ کسی جماعت کے پاس آتے ہوئے سلام کرتے اور جب واپس ہوتے تب بھی سلام کرتے تھے۔ اسی طرح یہ بھی روایت ہے کہ تم میں سے ہر کوئی اپنے رفیق سے کرے، اگر دونوں کے درمیا ن درخت یا دیوار حائل ہو جائے تو پھر سامنا ہو تو پھر سلام کرے۔
جب آپ ﷺ کسی دروازے پر تشریف لے جاتے تھے تو دروازے کے بالمقابل کھڑے نہ ہوتے تھے بلکہ دائیں یا بائیں جانب کھڑے ہوتے تھے اور السلام علیکم کہتے تھے۔ آپ ﷺ دوسروں کو بھی سلام پہنچاتے تھے جیسا کہ اللہ کی طرف سے سیدہ حضرت خدیجہؓ کو سلام پہنچایا تھا اور اُم المومنین سیدہ حضرت عائشہ ؓ سے فرمایا تھا کہ جبرائیل تمہیں سلام کہتے ہیں۔
الغرض سلام جواب دعائیہ الفاظ ہیں جو دنیا اور آخرت میں خیر و کامیابی ذریعہ ہیں۔ سلام کی عادت خود میں ڈالنا اور اپنے چھوٹے بچوں کو سلام کی عادت ڈالنا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ نبی کریمؐ کا فرمان ہے کہ ’’سلام کو پھیلائو اور رات کے کسی حصہ میں قیام کرو تو انشاء اللہ سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جائو گے۔ اللہ ہمیں کریم آقا ﷺ کی سنتوں پر اپنی زندگیاں بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور آقا کی پوری اُمت کو سلام دُعا کا عادی بنا دے۔ آمین
صاحبزادہ ذیشان کلیم معصومی معروف عالم دین ہیں، 25 سال سے مختلف جرائد کے لئے اسلامی موضوعات پرانتہائی پر اثر اور تحقیقی مضامین
لکھ رہے ہیں۔