بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ اماتیں جن کی ہیں انہیں سپرد کرو، امانت داری ،ایمان کی علامت ، جب امانت ضائع کی جائے تو قیامت کا انتظار کرو

تحریر : مفتی محمد قمر الزمان


اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتے ہیں کہ ’’بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں جن کی ہیں انہیں سپرد کرو‘‘ (سورۃ النساء:آیت 58)۔ دوسری جگہ ارشاد ربانی ہے کہ ’’اے ایمان والو! اللہ اور رسول سے دغا نہ کرو، اور نہ اپنی امانتوں میں دانستہ خیانت کرو‘‘ (سورۃ الانفال :آیت 27)، تاجدار ختم نبوت ﷺ کا ارشاد ہے’’تین باتیں ایسی ہیں کہ جس میں ہوں گی وہ منافق ہو گا اگرچہ نماز، روزہ کا پابند ہی ہو۔ (۱)جب بات کرے تو جھوٹ بولے، (۲)جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے، (۳)جب امانت اس کے سپرد کی جائے تو خیانت کرے۔‘‘ (صحیح مسلم، کتاب الایمان، رقم 59)

دینِ اسلام انسانی حقوق کا سب سے بڑا محافظ ہے، یہی وجہ ہے کہ دینِ اسلام ان اعمال و افعال کا حکم دیتا ہے جن کے ذریعے انسانی حقوق کی حفاظت ہو۔ ایسے ہی افعال میں سے ایک ‘‘ امانت داری ‘‘ بھی ہے۔ لفظ ’’امانت‘‘ امن سے مشتق ہے، جس کا معنی ہے مطمئن اور مامون کرنا۔ امانت کو امانت اس لئے کہا جاتا ہے کہ امانت والا شخص ایذا رسانی، حق تلفی و کوتاہی اورحقوق کی ادائیگی سے متعلق امانت رکھنے والے کو مطمئن و مامون کر دیتا ہے۔صاحب لسان العرب ابن منظورؒ فرماتے ہیں کہ لفظ اما نت کا استعمال اطاعت و عبادت، اعتماد و اعتبار اور حفاظت کے معنی میں ہوتا ہے اور احادیث میں لفظ امانت کو مذکورہ معانی میں استعمال کیا گیا ہے۔ (لسان العرب، حرف النون، فصل الالف، 1322)

مومن کی شان امانت کی حفاظت اور سامنے والے کے اعتماد و اعتبار کو ختم کرنے کے بجائے اس کے اعتماد و اعتبار کو تقویت پہنچانا ہے۔ اللہ تعالیٰ ایمان والوں کی ممتاز صفات کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے۔ ’’ایمان(کامل) والے لوگ وہ ہیں جو اپنی امانتوں اور عہد و پیمان کی حفاظت اور نگہبانی کرتے ہیں۔ (المومنون:8، المعارج:32)

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’جب امانت ضائع کی جائے تو قیامت کا انتظار کرو۔ پوچھا، یا رسول اللہﷺ! امانت کس طرح ضائع کی جائے گی؟ فرمایا جب کام نااہل لوگوں کے سپرد کر دیئے جائیں تو قیامت کا انتظار کرو‘‘۔ (صحیح بخاری:6496)

حضرت ابوموسیٰ ؓسے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا ’’وہ امانت دار مسلمان خزانچی خیرات کرنے والوں میں سے ہے جو خوشی کے ساتھ پورا پورا اس آدمی کو دے دیتا ہے جس کو دینے کا حکم دیا گیا ہو، جو جتنا خرچ کرنے کا حکم کیا گیا ہو اتنا ہی خرچ کرتا ہو اور جس کو دینے کا حکم دیا گیا ہو اس کو دے دیتا ہو۔ (صحیح مسلم: 2363)

جابر بن عبداللہؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا : ’’جب کوئی آدمی تم سے کوئی بات بیان کرے پھر (اسے راز میں رکھنے کے لیے) دائیں بائیں مڑ کر دیکھے تو وہ بات تمہارے پاس امانت ہے۔ (جامع ترمذی: 1959)

قبل ازنبوت عرب کے کفر وشرک، ظلم و زیادتی، سفاکیت اور لوٹ مار کے بد ترین دور اور بدترین معاشرہ میں بھی کفار عرب تاجدار ختم نبوت ﷺ کو ’’الصادق الامین‘‘ کے لقب سے پکارا کرتے تھے۔ آپ کی امانت داری کی وجہ سے لوگ آپﷺ کے پاس امانتیں رکھواتے تھے، لوگوں کو بھروسہ تھاکہ آپﷺ امانت کی مکمل حفاظت فرماتے ہیں اور آپﷺ کے پاس امانت ضائع نہیں ہوتی۔ ہجرت کے موقع پر لوگ آپؐ کے قتل وخون کے درپے تھے، ان نازک لمحات میں بھی آپ ﷺ کے پاس دشمنوں کی امانتیں ہیں اور ان امانتوں کو ان کے مالکوں تک پہنچانے کے لئے حضرت علی المرتضیٰ ؓکو اپنا نائب بنا کر سفر ہجرت پر تشریف لے گئے، یہ ہیں ہمارے نبی تاجدار ختم نبوتﷺ کی امانت داری۔ (البیھقی باب ماجاء فی ترغیب الامانات:12696)

امانت کی حفاظت اور اس کی ادائیگی کی اہمیت مذکورہ روایت سے بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ اگرکوئی امانت کی حفاظت نہیں کرتا، حقوق کی ادائیگی نہیں کرتا اور صلہ رحمی نہیں کرتا، تو امانت اور صلہ رحمی اللہ کے نزدیک شکایت کرتے ہوئے پل صراط پر ہی اسے جہنم میں گرا دیں گے۔

’’اجازتِ شرعیہ کے بغیر کسی کی امانت میں تصرف کرنا خیانت ہے‘‘ (بخاری، کتاب الایمان، باب علامات المنافق، ج1، ص328)، تاجدار ختم نبوتﷺنے نفاق کی علامتوں کو بیان فرماتے ہوئے ارشادفرمایا ’’منافق کے پاس امانت رکھی جائے، تو اس میں خیانت کرتا ہے‘‘ (بخاری، کتاب الایمان، باب علامات المنافق: 33)، معلوم ہوا کہ امانت میں خیانت مومن کی صفت ہرگز ہو نہیں سکتی۔

حضرت حذیفہ ؓ کا کہنا ہے کہ ہم سے رسول اللہﷺ نے دو حدیثیں ارشاد فرمائیں۔ ایک کا ظہور تو میں دیکھ چکا ہوں اور دوسری کا منتظر ہوں۔ نبی کریمﷺ نے ہم سے فرمایا کہ امانت لوگوں کے دلوں کی گہرائیوں میں اترتی ہے۔ پھر قرآن شریف سے، پھر حدیث شریف سے اس کی مضبوطی ہوتی جاتی ہے اور نبی کریمﷺ نے ہم سے اس کے اُٹھ جانے کے متعلق ارشاد فرمایا کہ آدمی ایک نیند سوئے گا اور (اسی میں) امانت اس کے دل سے ختم ہو گی اور اس بے ایمانی کا ہلکا نشان پڑ جائے گا۔ پھر ایک اور نیند لے گا اب اس کا نشان چھالے کی طرح ہوجائے گا، جیسے تو پائوں پر ایک چنگاری لگائے تو ظاہر میں ایک چھالا پھول آتا ہے، اس کو پھولا دکھتا ہے، پر اندر کچھ نہیں ہوتا۔ پھر حال یہ ہو جائے گا کہ صبح اٹھ کر لوگ خریدو فروخت کریں گے اور کوئی شخص امانت دار نہیں ہو گا، کہا جائے گا کہ فلاں جگہ میں ایک امانت دار شخص ہے۔ کسی شخص کے متعلق کہا جائے گا کہ کتنا عقلمند ہے، کتنا بلند حوصلہ ہے اور کتنا بہادر ہے۔ حالانکہ اس کے دل میں رائی برابر بھی ایمان (امانت) نہیں ہو گا۔ (حذیفہؓ کہتے ہیں) میں نے ایک ایسا وقت بھی گزارا ہے کہ میں اس کی پروا نہیں کرتا تھا کہ کس سے خریدو فروخت کرتا ہوں۔ اگر وہ مسلمان ہوتا تو اس کو اسلام  (بے ایمانی سے) روکتا تھا۔ اگر وہ نصرانی ہوتا تو اس کا مددگار اسے روکتا تھا لیکن اب میں فلاں اور فلاں کے سوا کسی سے خریدو فروخت ہی نہیں کرتا۔ (صحیح بخاری:6497)

امانت کی بے شمار اقسام ہیں، اسی لئے لفظ امانت کو مصدر ہونے کے باوجود (قرآن پاک میں کئی مقامات پر) جمع کے صیغہ کے ساتھ لایا گیا ہے تاکہ امانت کی سب اقسام شامل ہو جائیں ، خواہ وہ حقوق اللہ سے متعلق ہوں یا حقوق العباد سے۔ حقوق اللہ سے متعلق امانات تمام شرعی فرائض و واجبات کا ادا کرنا اور تمام محرمات و مکروہات سے پرہیز کرنا ہے۔ حقوق العباد سے متعلق امانات میں مالی امانت کا داخل ہونا تو معروف و مشہور ہے کہ کسی شخص نے کسی کے پاس اپنا کوئی مال امانت کے طور پر رکھ دیا یہ اس کی امانت ہے، اس کی حفاظت اس کے واپس کرنے تک اس کی ذمہ داری ہے۔

اور جو اپنی امانتوں اور اپنے وعدہ کا لحاظ رکھنے والے ہیں،اور جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں،وہی وارث ہیں، جو جنت الفردوس کے وارث ہوں گے، وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہوں گے۔ (المومنون:8-11 )

مفتی محمد قمرالزمان قادری خطیب جامع مسجد احمد مجتبیٰ لاہور کینٹ، صدر مدرس مدرسۃ العلم ہائوس آف ایجوکیشن ہیں، ان کی متعدد کتب بھی شائع ہو چکی ہیں 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

35ویں نیشنل گیمز2025:پاک آرمی 29ویں بار فاتح

آرمی نے196گولڈ میڈلز اپنے نام کئے،واپڈا نے84اورنیوی نے36طلائی تمغے جیتے

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔

صحت مند کیسے رہیں؟

٭…روزانہ کم از کم دو بار ہاتھ منہ دھویئے، ناک اور کان بھی صاف کیجئے۔ ٭…روزانہ کم از کم دوبار دانت صاف کیجئے۔

ذرا مسکرائیے

امی (منے سے) :بیٹا دیوار پر نہ چڑھو گر پڑے تو پانی بھی نہ مانگ سکو گے۔ منا: امی! میں پانی پی کر چڑھوں گا۔ ٭٭٭