گرد ملال
ارے بہادر شاہ ظفر کا حقہ، اور ایک مرتبہ پھر مغلیہ جاہ و جلال، ان کی شان و تمکنت، ان کا تہذیب و تمدن، ان کا ذوق و شوق دونوں ادھیڑ عمر دوستوں کے تصورات میں آن دھمکا۔ سال خوردگی کے باوجود حقے کا رعب داب طنطنہ ہنوز قابل رشک، اس کی بناوٹ میں زیادہ تر نقرۂ خالص اور تانبہ استعمال ہوا۔ شہنشاہ کی خدمت میں پیش کرنے سے قبل اسے قیمتی ہیروں اور چمکتے دمکتے نگینوں سے مزین کیا گیا ہوگا، مگر اب اس بدقسمت کے پنڈے پر نوچے گئے جواہرات کے فقط نشانات یوں موجود جیسے گئے وقتوں کے المناک نوحے رقم ہوں۔
نقرئی چلم آخری مغل شہنشاہ کو طرب و الم کے ادوار میں کیف و سرور کے لمحات بہم پہنچانے کے بعد اس طرح سوگوار و مُہر بہ لب، جیسے کوئی ماہر رقاصہ رات بھر اپنے رقص سے اہل بزم کے دلوں کو گرمانے کے بعد صبح سویرے تھکن سے چور ہو کر خامشی سے اپنے بستر میں گری پڑی ہو۔
دونوں استعجاب و احترام سے شاہی پیچوان کی وجاہت و شباہت کا جائزہ لینے لگے، چند ثانیوں کی خاموشی کے بعد نجیب نے آہ سرد کھینچ کر مرزا غالب کا درد ناک شعر با آوازِ بلند پڑھا:
داغِ فراقِ محبت شب کی جلی ہوئی!
اک شمع رہ گئی ہے سو وہ خاموش ہے
رنگون میں بھی یہی حقہ بُرے وقت میں عالم پناہ کا رفیق و دم ساز رہا ہوگا۔ کاش! اس بے چارے کی زبان ہوتی تو آخری تاجدار ہند کے کچھ احوال ہمارے گوش گزار کر سکتا۔ اگرچہ دوران نظر بندی شاہ عالم کو فیض آبادی خمیرہ اور مراد آبادی بھنڈ بھنڈا تو نصیب نہ ہوتا ہوگا، تاہم مقامی تمباکو پر قناعت کرتے ہوئے بھری آنکھوں، لرزتے ہونٹوں اور رعشہ زدہ ہاتھوں سے اس یار غار کی نے دباتے ہوں گے۔ کش لگانے کے بعد عقوبت خانے میں بکھرنے والے دھویں کے مرغولوں کو حسرت بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے سدا قائم و دائم رہنے والی معرکہ آرا غزل کے لافانی شعر مکمل کرتے ہوں گے:
لگتا نہیں ہے دل میرا اُجڑے دیار میں
کس کی بنی ہے عالم ناپائیدار میں!
کتنا ہے بدنصیب ظفر دفن کے لیے!
دو گز زمین بھی نہ ملی کُوے یار میں!
نجیب نے زیر لب یہ شعر گنگنائے تو اس کی آواز رُندھ گئی، دونوں کے دل دھک سے یوں بیٹھ گئے گویا دنیا کی عظیم ترین مغل تہذیب دھڑام سے اُن پر آن گری ہو اور وہ رنجیدہ و کبیدہ اس ملبے کے نتیجے میں اٹھنے والی غموں، حسرتوں، عبرتوں اور اُداسیوں کی گرد ملال اپنے اپنے سروں میں ڈالے نمائش گاہ سے باہر نکل آئے۔ نام نہاد عصری تہذیب کے علمبردار ملک کی تازہ ہوائوں میں چند لمبے لمبے سانس کھینچے اور پھر بوجھل قدموں کے ساتھ کار پارکنگ کی جانب چل دیئے۔
(نیئر اقبال علوی کے افسانے ’’گردِ ملال‘‘ سے اقتباس)