صدقہ، صبر اور قناعت پسندی

تحریر : مولانا محمد الیاس گھمن


اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے سے مال میں کمی نہیں آتی ظلم پر صبر کے بدلے اللہ عزت و سر بلندی سے نوازتا ہے، ہاتھ پھیلانیوالے کو اللہ فقروتنگدستی سے دو چار کر دیتا ہے۔ (جامع الترمذی:2325)

اللہ تعالیٰ کا ہم پر احسان ہے کہ خیر و شر کی وہ باتیں جو محض عقل سے معلوم نہیں ہو سکتی تھیں اپنے حبیبﷺ کے ذریعے ہمیں بتلا دیں تاکہ خیر و منفعت کی باتوں پر عمل کرسکیں اور شر و نقصان کی باتوں سے بچ سکیں۔ حضرت ابو البختری سعید الطائیؒ کہتے ہیں مجھے صحابی رسول حضرت ابو کبشہ الانماریؓ نے رسول اللہ ﷺ سے سنی ہوئی ایک حدیث بیان فرمائی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تین باتیں ایسی ہیں کہ جن کی اہمیت کے پیش نظر اِن پر میں قسم اٹھاتا ہوں: اس کے علاوہ کچھ مزید باتیں بھی تمہیں بتاتا ہوں ان باتوں کو اچھی طرح یاد کر لینا، وہ باتیں جن پر میںرسول اللہ ﷺ نے قسم اٹھائی وہ درج ذیل ہیں:

 1:۔ اللہ کی راہ میں مال خرچ کر نے سے بندے کے مال میں کچھ کمی نہیں آتی۔

 2:۔ جب کسی پرظلم کیا جائے اور وہ اس پر صبر کرے، یعنی ظلم کے مقابلے میں شرعاً ناجائز کام نہیں کرتا تو اللہ تعالیٰ اس صبر کے بدلے اسے عزت و سربلندی سے نوازتا ہے۔

 3:جب کوئی دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے لگتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر فقر و تنگدستی کا دروازہ کھول دیتے ہیں۔

باقی رہیں وہ مفید باتیں جو میں بیان کرنے  لگا ہوں، انہیں اچھی طرح یاد رکھنا کہ دنیا میں چار طرح کے لوگ ہوتے ہیں:

1:۔وہ بندہ جسے اللہ تعالیٰ نے مال اور علم دونوں عطا کیے ، وہ علم کی وجہ سے اپنے رب (کے ناراض ہونے یا اس کے عذاب) سے ڈرتا ہو، صلہ رحمی کرتا ہو اور حقوق اللہ ادا کرنے میں لگا رہتا ہو، یہ شخص اعلیٰ مرتبہ و مقام والا ہے۔

2:وہ شخص جسے اللہ نے علم کی دولت دی لیکن مال سے محروم رکھا ۔ وہ سچی نیت کے ساتھ اس تمنا کا اظہار کرتا ہو کہ اگر میرے پاس بھی مال ہوتا تو میں بھی فلاں دیندار مالدار بندے کی طرح دینی کاموں پر اس کو خرچ کرتا۔ یہ دونوں اجر وثواب میں برابر ہیں۔

3:۔ وہ شخص جس کو مال عطا کیا گیا ہو لیکن علم دین سے محروم کر دیا گیا ہو۔ وہ اپنے مال کو غلط اور ناجائز طریقے سے خرچ کرتا ہو، رب سے نہ ڈرتا ہو، صلہ رحمی نہ کرتا ہو اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنے کی کوشش کرتا ہو، یہ شخص بدترین درجے کا انسان ہے۔

 4:۔ وہ شخص جس کو اللہ نے نہ مال دیا اور نہ ہی علم،  وہ اس عزم کا اظہار کرے کہ اگر مجھے بھی مال دیا جاتا تو میں فلاںبدکارشخص کی طرح ناجائز اور گناہ کے کاموں میںاس کو خرچ کرتا۔ یہ غلط نیت کرنے والا اور عملاً ناجائز امور میں مال کو خرچ کرنے والا گناہ میں دونوں برابر ہیں۔ (جامع الترمذی: 2325)

 صدقہ کریں، مال کم نہیں ہوگا:  رسول اللہ ﷺ نے قسم اٹھا کر جو باتیں ارشاد فرمائی ہیں ان میں پہلی بات یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں لوگوں کی دینی و دنیاوی ضرورتوں کو پورا کرنے سے یعنی صدقہ کرنے سے انسان کے مال میں ہرگز کوئی کمی واقع نہیں ہوتی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’صدقات کو اگر تم ظاہر کر کے دو تب بھی اچھی بات ہے، اور اگر تم اسے  چھپا کر دو تو یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے، اور تمہارے کاموں کی اللہ کو خوب خبر ہے۔ (سورۃ البقرۃ: 271)، صدقہ دونوں طرح سے کرنا درست ہے ،ظاہر کر کے بھی کیا جائے تو اس میں حرج نہیں اور چھپا کر دیا جائے تو زیادہ بہتر ہے۔ بعض مواقع ایسے ہوتے ہیں جہاں ظاہر کر کے دینا زیادہ بہتر ہوتا ہے تاکہ باقی لوگوں میں بھی اس کی ترغیب اور شوق پیدا ہو اور وہ بھی نیک کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔

صدقہ کرتے وقت ملحوظ رکھیں:اللہ کو راضی کرنے کیلئے صدقہ کریں،مال زیادہ ہو یا تھوڑا بہرحال صدقہ کریں۔اچھے اور پاکیزہ مال کا صدقہ کریں۔ نیک صالح لوگوں پر صدقہ کریں۔مستحق قریبی رشتہ داروں پر صدقہ کریں۔دینی اداروں کے طلباء پر صدقہ کریں۔ اپنے بچوں کو صدقہ دینے کا عادی بنائیں اور ان کے ہاتھ سے صدقہ دلوائیں۔ صدقہ دینے کے بعد احسان نہ جتلائیں۔ 

 اللہ کی رضا کو فراموش کر کے اپنی بڑائی، برتری اور شہرت کی خاطر ایسا کرنا ’’ریا‘‘ کہلاتا ہے۔ قرآن کریم نے کھلم کھلا صدقہ کرنے کی مذمت نہیں بلکہ تعریف فرمائی ہے۔ اس لیے خشک طبیعت دینی اسرار و رموز سے ناواقف لوگوں کے اس دھوکے کا شکار ہرگز نہ ہوں کہ کھلم کھلا صدقہ کرنے سے ثواب نہیں ملتا۔اگر کوئی شخص علی الاعلان صدقہ کرتا ہے اور اس کی جائز مقاصد کے پیش نظر تشہیر بھی کرتا ہے تو یہ عمل ہرگز شریعت کے خلاف نہیں۔ہاںچپکے سے صدقہ دینا زیادہ فضیلت کا باعث ہے۔ 

ظلم پر صبر کریں: اگر کسی انسان پر ناحق ظلم کیا گیا اور اس نے بدلہ لینے کے بجائے اس پر صبر کیا تو اللہ تعالیٰ اس کو عزت عطا فرمائے گا۔ اگرچہ ظلم اور زیادتی کے برابر بدلہ لینے کی شریعت میں اجازت موجود ہے لیکن صبر کر کے معاف کر دینا زیادہ اجر وثواب والا کام ہے۔ ممکن ہے بدلہ لیتے وقت یہ شخص برابری نہ کر سکے۔ اس لیے بدلہ کی اجازت کے باوجود صبر کو افضل قرار دیا گیا ہے تاکہ معاف کرنے سے دوسرے کے دل میں بھی محبت پیدا ہو۔

قناعت پسندی: جب بندہ اللہ پر قناعت کرنے کے بجائے لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی راہ پر چل پڑتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر فقر و فاقہ اور تنگدستی کا دروازہ کھول دیتے ہیں۔خیر و برکت، چین و سکون اور عزت و شرافت سے اسے محروم کر دیا جاتا ہے۔ 

خیر وشر کے پہلو:یوں تو مال اللہ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے اس کو جائز طریقوں سے حاصل کرنے کا حکم بھی شریعت میں موجود ہے۔ بہت ساری عبادات اسی سے وابستہ ہیں لیکن اس کے زہریلے اثرات بھی بہت زیادہ ہیں ۔اسی کی وجہ سے بخل، تفاخر، کینہ، حسد، ریا اور تکبر وغیرہ جیسے کبیرہ گناہ وجود میں آتے ہیں اور انسان کو چوری، ڈکیتی، سود خوری، شراب خوری،جوئے بازی،رشوت ستانی، ملاوٹ اور فراڈ وغیرہ جیسی معاشرتی قباحتوں میں مبتلا کرتا ہے۔ آج کل غریب، مفلوک الحال اور پیشہ ور بھکاری تو رہے ایک طرف، اچھے خاصے صاحب ِثروت، مال و دولت والے امراء اور رئیس زادوں کا یہ حال ہے کہ وہ بھی مانگتے ہیں لیکن مانگنے کا انداز الگ اختیار کرتے ہیں ۔سرکاری، نیم سرکاری اور پرائیوٹ دفاتر میں رشوت مانگی جاتی ہے اور اس قبیح کام کو خوبصورت نام’’چائے بوتل‘‘ کا دیا جاتا ہے جو سراسر حرام ہے۔لینے والا اور(بلا استحقاق)دینے والا دونوں جہنمی ہیں۔ 

حدیث کا دوسرا حصہ:حدیث مبارک کے دوسرے حصے میں چار انسانوں کی صفات کا تذکرہ ہے اور اللہ کے رسول ﷺ نے ان باتوں کو اچھی طرح یاد رکھنے کا حکم دیا ہے۔ ان میں سے پہلے دو کامیاب انسانوں کا تذکرہ فرمایا تاکہ ان جیسی اچھی صفات اپنا کر ان کی اقتداء کی جائے اور بعد میں دو ناکام انسانوں کا تذکرہ فرمایا تاکہ ان کی گندی صفات سے بچ کر ان سے دور رہنے کی کوشش کی جائے۔ 

پہلا کامیاب انسان: اللہ کے رسولﷺنے اعلان فرمایا کہ سب سے افضل انسان وہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے مال کے ساتھ علم جیسی دولت عطا فرمائی ہو اور اس میں مندرجہ ذیل تین خوبیاں بھی موجود ہوں۔ 1)مال کے باوجود اس میں تکبر، گھمنڈ اور غرور کے بجائے علم کی وجہ سے فکر آخرت اور خدا خوفی ہو۔ ناجائز، حرام کاموں اور باتوں سے خود کو بچاتا ہو۔ 2)خدا خوفی کے ساتھ ساتھ اس میں صلہ رحمی والی صفت بھی موجود ہو، اپنے عزیز و اقارب، ہمسایوں اور بالخصوص رشتہ داروں کے ساتھ حُسنِ سلوک کرتا ہو، ان کے حقوق ادا کرتا ہو،ضرورت مند لوگوں کے ساتھ تعاون کرتا ہو، خندہ پیشانی سے ملتا ہو۔ 3)صلہ رحمی حقوق العباد میں سے ہے اس کی ادائیگی میں اس قدر منہمک نہ ہو جائے کہ حقوق اللہ یاد ہی نہ رہیں بلکہ فرمایا کہ وہ حقوق اللہ کی ادائیگی بھی خوب کرتا ہو۔ اللہ کی دی ہوئی دولت سے اس کا حق صدقہ، خیرات، زکوٰۃ اور قربانی کا فرض ادا کرتا ہو۔ مذکورہ بالا صفات کے حامل شخص کے بارے اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: یہ اللہ کریم کے ہاں بلند و بالا عزت و مرتبے سے نوازا جائے گا ۔

 

دوسرا کامیاب انسان: اللہ کے رسول ﷺ نے اعلان فرمایا کہ فضیلت اور بلند مقام کا مستحق وہ شخص ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے مال و دولت سے الگ رکھ کر صرف علم دین جیسی دولت سے خوب نوازا ہو۔ وہ اپنے علم پر عمل کرتا ہو اور سچے دل سے یہ تمنا اور آرزو بھی کرتا ہو کہ اگر مجھے اللہ مال بھی عطا کرتا تو میں بھی فلاں دیندار مال دار شخص کی طرح نیکی کے کاموں میں اسے خوب خرچ کرتا ۔ اس شخص کی سچی نیت اللہ کے ہاںقدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے ۔ مال و دولت خرچ نہ کرسکنے کے باوجود اجر و ثواب کے اعتبار سے اسے پہلے والے شخص کے برابر قرار دے دیا جاتا ہے۔

پہلا ناکام انسان: جس کے بارے اللہ کے رسول ﷺ نے اعلان فرمایا کہ وہ ناکام ترین شخص ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے مال عطا فرمایا ہو لیکن دین کی سمجھ بوجھ سے محروم رکھا ہو۔ شریعت کے احکام اور ممنوعات سے ناواقف  اور جاہل ہونے کی وجہ سے وہ اپنے مال کو اللہ کی نافرمانیوں پر خرچ کرتا ہو۔ جائز، ناجائز، حلال، حرام اور صحیح غلط کا فرق نہ کرتا ہو اس پر برابر مال کو کسی بھی طریقے سے اکٹھا کرنے کی دھن سوار رہتی ہو۔ نہ تو مال سے خالق کا حق صدقہ، خیرات، زکوٰۃ اور دیگر مالی عبادات ادا کرتا ہو اور نہ ہی مال سے مخلوق کا حق صلہ رحمی، قریبی رشتہ داروں کی ممکنہ مالی معاونت کرتا ہو۔ایسا شخص دنیا میں مگن ہو کر اپنی آخرت کو تباہ کرنے والا ہے اس لیے ناکام اور بدترین انسان قرار دیا گیا ہے۔ 

دوسرا ناکام انسان:جس کے بارے اللہ کے رسول ﷺ نے اعلان فرمایا کہ وہ دوسرے درجے کا ناکام ترین شخص ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے نہ ہی مال عطا فرمایا ہو اور نہ ہی دین کی سمجھ بوجھ۔ اس کے باوجود اسے آخرت کے بجائے دنیاداری کی فکر ہو اور گناہوں والے کام کرنے کا جذبہ اس کو گھیرے رکھتا ہو۔ وہ اس عزم کا اظہار کرنے لگے کہ کاش مجھے بھی فلاں بے دین مال دار شخص کی طرح مال ملتا تو میں بھی خواہشات نفس اور فلاں فلاں گناہ والے کاموں میں اس کو خرچ کرتا۔ مال و دولت کو گناہوں میں خرچ نہ کرنے کے باوجود اس کا پختہ عزم کرنے کی وجہ سے یہ شخص بھی سزا و عذاب میں پہلے ناکام شخص کے برابر قرار دیا جاتا ہے۔ 

مولانا محمد الیاس گھمن معروف عالم ِ دین اور دو درجن سے زائد کتب کے مصنف ہیں

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

چمگاڈر کی کہانی

یہ کہانی ایک چمگادڑ کی ہے۔ دراصل ایک مرتبہ باز، شیر کا شکار کیا ہوا گوشت لے اڑتا ہے۔ بس اسی بات پر پرند اور چرند کے درمیان جنگ شروع ہوجاتی ہے اور جنگ کے دوران چالاک چمگادڑ اس گروہ میں شامل ہوجاتی جو جیت رہا ہوتا ہے۔ آخر میں چمگادڑ کا کیا حال ہوتا ہے آئیں آپ کو بتاتے ہیں۔

عادل حکمران

پیارے بچو! ایران کا ایک منصف مزاج بادشاہ نوشیرواں گزرا ہے۔ اس نے ایک محل بنوانا چاہا۔ جس کیلئے زمین کی ضرورت تھی اور اس زمین پر ایک غریب بڑھیا کی جھونپڑی بنی ہوئی تھی۔

ذرامسکرائیے

پپو روزانہ اپنے میتھ کے ٹیچر کو فون کرتا ٹیچر کی بیوی: تمہیں کتنی دفعہ کہا ہے کہ انہوں نے سکول چھوڑ دیا ہے تم پھر بھی روزانہ فون کرتے ہو۔پپو: یہ بار بار سن کر اچھا لگتا ہے۔٭٭٭

خر بوزے

گول مٹول سے ہیں خربوزے شہد سے میٹھے ہیں خربوزے کتنے اچھے ہیں خربوزےبڑے مزے کے ہیں خربوزےبچو! پیارے ہیں خربوزے

پہیلیاں

جنت میں جانے کا حیلہ دنیا میں وہ ایک وسیلہ جس کو جنت کی خواہش ہومت بھولے اس کے قدموں کو(ماں)

اقوال زریں

٭…علم وہ خزانہ ہے جس کا ذخیرہ بڑھتا ہی جاتا ہے وقت گزرنے سے اس کو کوئی نقصا ن نہیں پہنچتا۔ ٭…سب سے بڑی دولت عقل اور سب سے بڑی مفلسی بے وقوفی ہے۔٭…بوڑھے آدمی کا مشورہ جوان کی قوت بازو سے زیادہ اہم ہوتا ہے۔