ذرا مسکرائیے
استاد کلاس میں ایک ڈبہ لے کر آئے۔ لڑکوں نے پوچھا ،’’ استاد جی ! اس ڈبے میں کیا ہے ؟‘‘استاد نے کہا ، ’’ جو درست بتائے گا ، اسے اس ڈبے سے دو پنسلیں ملیں گی۔‘‘٭٭٭
ایک انگریز سیاح نے جو چینی زبان نہیں جانتا تھا، مینو کی آخری سطر پر انگلی رکھتے ہوئے بیرے سے کہا کہ وہ اس ڈش کی ایک پلیٹ لے آئے۔بیرے نے جو انگریزی جانتا تھا، مسکراتے ہوئے کہا، ’’معاف کیجیے جناب! آپ کے حکم کی تعمیل نہ ہو سکے گی، کیوں کہ یہ ہمارے ہوٹل کے مالک کا نام ہے۔‘‘
٭٭٭
باپ (بیٹے سے) : کیا امتحان میں سوال آسان تھے؟
بیٹا: سوال تو آسان تھے، مگر جواب مشکل تھے۔
٭٭٭
مالک (ملازم سے): تمہیں دفتر میں آئے ہوئے صرف ایک دن ہوا ہے اور تم نے تین کرسیاں توڑ ڈالیں۔
ملازم: جناب، آپ کے اشتہار میں لکھا تھا کہ آپ کو مضبوط آدمی چاہیے۔
٭٭٭
اْستاد (ڈانٹتے ہوئے): تم دونوں آج پھر لیٹ سکول آئے ہو؟
پہلا لڑکا: سر! وہ میرے پیسے کہیں گر گئے تھے، ان کو ڈھونڈ رہا تھا۔
اْستاد (دوسرے لڑکے سے): اور تم؟
دوسرا لڑکا: سر! میں دراصل اس کے پیسوں پر پاؤں رکھ کر کھڑا تھا۔
٭٭٭
ایک بڑی فیکٹری کا مالک جب اپنے اسٹور روم کے معائنے کے لیے گیا تو اس نے باہر ایک نوجوان کو دیکھا جو درخت کی چھاؤں تلے بیٹھا گنگنا رہا تھا۔ مالک نے اس سے پوچھا، ’’تم کیا کام کرتے ہو؟‘‘
وہ بولا،’’میں چپڑاسی ہوں۔‘‘
مالک نے پوچھا، ’’تمہیں ہر ماہ کتنی تنخواہ ملتی ہے؟‘‘
چپڑاسی نے جواب دیا، ’’چار سو روپے۔‘‘
مالک نے اپنی پتلون کی جیب سے سو سو کے چار نوٹ نکالے اور انہیں چپڑاسی کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا، ’’نکل جاؤ میری فیکٹری سے! آئندہ پھر کبھی نہیں آنا۔‘‘
جب چپڑاسی فیکٹری کے احاطے سے چلا گیا تو مالک نے منیجر کو بلا کر پوچھا،’’وہ کام چور چپڑاسی کتنے دن سے ہمارے ہاں ملازم تھا؟‘‘
’’سر! وہ ہمارا ملازم نہیں تھا۔ کسی اور فیکٹری سے خط لے کر آیا تھا اور جواب کا انتظار کر رہا تھا۔‘‘