یادرفتگان : ’’کون ہے یہ گستاخ‘‘ سعادت حسن منٹو
تقسیم ہند کے ظلم و ستم کو بھی منٹو نے اپنے مخصوص اسلوب نگارش کے ذریعے قلمبند کیایہ منٹو کا کمال ہے کہ انہوں نے سماجی و معاشرتی حقیقت نگاری کو اردو افسانے کے ماتھے کا جھومر بنایا
سعادت حسن منٹو کا نام ذہن میں آتے ہی ان کے کئی شاہکار افسانوں کے شاہکار کردار نگاہوں کے سامنے رقص کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ سماجی حقیقت نگاری کو جس جارحانہ اور سفاکانہ طریقے سے منٹو نے اپنے افسانوں میں آشکار کیا ہے، اس کی مثال اُردو کے افسانوی ادب میں ملنا مشکل ہے۔ انسان اور انسانی صورتحال منٹو کے پسندیدہ موضوعات ہیں۔ منافقت اور دوغلے پن کی چادر میں لپٹے ہوئے معاشرے کو بغیر کوئی رعایت دیئے وہ جس طرح بے نقاب کرتا ہے یہ صرف اسی کا خاصہ ہے۔
سعادت حسن منٹو نے جس دور میں اپنی فنی عظمت کا سکہ جمایا، اس وقت احمد ندیم قاسمی، کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی اور عصمت چغتائی افسانہ نگاری کے حوالے سے معتبر نام تھے۔ کردار نگاری اور روایت شکنی منٹو کے فن کا استعارہ بن گیا۔ انہوں نے افسانوں کے علاوہ ڈرامے بھی لکھے اور ان کے کئی افسانوں پر فلمیں اور ٹی وی ڈرامے بھی بنائے گئے۔ جنسی نفسیات اور 1947ء کے فسادات بھی منٹو کے اہم موضوعات ہیں اور اس حوالے سے انہوں نے کئی معرکہ آرا افسانے تحریر کیے۔ ان کا اسلوب براہ راست ابلاغ اور حقیقت پسندانہ ہے اور ہمیں کوئی تجریدی فن پارہ نہیں ملتا، یعنی انہوں نے حقیقت کو حقیقت کی سطح پر دیکھا، تجرید کی سطح پر نہیں، لیکن منٹو نے ’’پھندنے‘‘ جیسا عدیم النظیرافسانہ بھی تحریر کیا۔ اُردو کے بعض مشہور معروف نقاد’’ پھندنے‘‘ کو اُردو کا پہلا علامتی اور استعاراتی افسانہ قرار دیتے ہیں۔ ’’پھندنے‘‘ دراصل جنسی ناآسودگی کا استعارہ ہے اور منٹو نے جس فنکارانہ مہارت سے اس موضوع کو افسانے کی شکل دی ہے وہ ہر لحاظ سے قابل ستائش ہے۔
سعادت حسن منٹو نے کبھی اپنے آپ کو ترقی پسند قرار نہیں دیا۔1936ء میں جب ’’انجمن ترقی پسند مصنفین‘‘کا قیام عمل میں آیا تو اس میں شامل تمام ادیب اور شاعر اپنے آپ کو ترقی پسند کہلواتے تھے۔ یہ وہ مکتبہ فکر تھا، جو سماج کو سوشلسٹ اصولوں کے مطابق تبدیل کرنے کا داعی تھا۔ اس میں منشی پریم چند، کرشن چندر، ساحر لدھیانوی، مہندرناتھ، علی سردار جعفری، حمید اختر، خواجہ احمد عباس، سبط حسن، احمد ندیم قاسمی اور کئی دوسرے ادیب اور شاعر شامل تھے۔ اس کے اجلاس بڑے دھواں دھار ہوتے تھے۔ حمید اخترمرحوم اپنی کتاب ’’روداد انجمن‘‘ میں ان اجلاس کی بڑی جامع تفصیل رقم کر چکے ہیں۔ اگرچہ منٹو نے اپنے آپ کو ’’انجمن ترقی پسند مصنفین‘‘ سے دو رکھا لیکن جو افسانے انہوں نے تحریر کیے ان کا نفس مضمون ’’ترقی پسند مصنفین‘‘ کی ترجیحات سے ہرگز الگ نہیں۔ منٹو کے افسانوں میں جو سماجی، سیاسی، ثقافتی اورعصری کرب کی انوکھی آمیزش ملتی ہے اس کی کڑیاں ترقی پسندوں کے پسندیدہ موضوعات سے براہ راست ملتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ترقی پسند مصنفین نے ہمیشہ ان کے بارے میں بھی کہا کہ سعادت حسن منٹو ہر اعتبار اور ہر زاویے سے ترقی پسند ہیں۔
ایک دور میں منٹو ترقی پسندوں سے ناراض ہو گئے اور انہوں نے اپنی کتاب ’’سیاہ حاشیے‘‘ کا دیباچہ معروف نقاد حسن عسکری سے لکھوایا۔ دیباچے میں حسن عسکری نے ترقی پسندوں کے خوب لتّے لیے اور ان پر الزام عائد کیا کہ یہ لوگ ہمیشہ ایسی صورتحال کے متلاشی رہتے ہیں، جہاں انسان کے خلاف انسان کا استحصال ہو رہا ہو، لوگ بے بسی، بے کسی اور لاچاری کی چکی میں پس رہے ہوں۔ وہاں یہ ترقی پسند سوشلزم اور کمیونزم کے جھنڈے اُٹھائے آ جاتے ہیں اور ذاتی ملکیت اور طبقاتی معاشرے کو تمام مسائل کی جڑ قرار دیتے ہیں۔حسن عسکری نے ترقی پسند ادیبوں اور شاعروں کو خواب فروش کہا۔ منٹو کے خاکوں کو بھی انہوں نے لطائف سے تشبیہ دی۔ اس کتاب کی اشاعت کے بعد احمد ندیم قاسمی نے سعادت حسن منٹو کو خط لکھا اور شکایت کی کہ انہوں نے حسن عسکری جیسے ’’رجعت پسند‘‘ نقاد سے اپنی کتاب کا دیباچہ آخر کیوں لکھوایا؟۔
تقسیم ہند کے بعد فسادات پھوٹ پڑے تھے اور ان فسادات نے بے شمار داستانوں کو جنم دیا۔ ظلم و ستم کی ان کہانیوں کو بھی سعادت حسن منٹو نے اپنے مخصوص اسلوبِ نگارش کے ذریعے قلم بند کیا ہے۔ اس ضمن میں ان سے افسانے’’ کھول دو‘‘ اور’’ ٹوبہ ٹیک سنگھ‘‘ کو عالمی سطح پر پذیرائی ملی۔ ان کے بہترین افسانوں میں ’’باپو گوپی ناتھ، سڑک کے کنارے، پھند نے، فرشتہ، نیا قانون، ہتک، لائسنس، سرکنڈوں کے پیچھے، سہائے، سوراج کیلئے، اُلو کا پٹھا، دو قومیں،1919ء کی ایک بات،موزیل، کالی شلوار، دُھواں، ٹھنڈا گوشت‘‘ شامل ہیں۔
سعادت حسن منٹو کے ڈراموں کو بھی بہت پذیرائی ملی۔ ان کے ڈراموں میں بھی ان کا فلسفہ ٔ حیات اپنی پوری توانائی کے ساتھ موجود ہے۔ وہ اپنے افسانوں میں معاشرے کی منافقتوں،کھوکھلا پن اور اس کے تضادات پر طنز کے جتنے تیر چلاتے ہیں، اس سے بعض اوقات قاری کا دل دہل جاتا ہے۔ یہ منٹو کا کمال ہے کہ انہوں نے سماجی و معاشرتی حقیقت نگاری کو اردو افسانے کے ماتھے کا جھومر بنایا اور ان کایہ فلسفہ اُوج کمال کو پہنچ گیا۔ کرشن چندر اور راجندر سنگھ بیدی نے بھی اپنے افسانوں میں حقیقت نگاری کو ہی اہمیت دی اور انتہائی باکمال افسانے تخلیق کیے۔ بعد میں غلام عباس نے بھی اس روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے چونکا دینے والے افسانے لکھے۔ بعض نقاد منٹو کو مشہور فرانسیسی ناول نگار اور افسانہ نویس موپساں کے مماثل قرار دیتے ہیں۔ ان کے خیال کے مطابق منٹو اور موپساں کے اسلوب نگارش میں بہت مماثلت ہے اور کہانیوں کے موضوعات میں بھی ایک طرح کا تنوع پایا جاتا ہے۔ دونوں اپنے کلائمکس کی وجہ سے بھی بہت مشہور ہیں۔ منٹو کے افسانوں میں بعض جگہ کلائمکس کی بجائے اینٹی کلائمکس ملتا ہے اور موپساں کے ہاں بھی یہی کچھ ہے۔ دونوں کی عمریں بھی ایک جتنی تھیں، موپساں نے خود کشی کی اور منٹو کثرت مے نوشی کی وجہ سے راہی ملک ِعدم ہوئے۔
1960ء کی دہائی میں جدید افسانے کی ابتدا ہوئی۔ علامتی، استعاراتی اور تجریدی افسانہ نگاری میں ڈاکٹر انور سجاد، مظہر الاسلام، سمیع آہو جا، ڈاکٹر رشید امجد، منشا یاد، بلراج مینرا، سریندر پرکاش، احمد دائود، صغیر ملال، واعظ حسن صدیقی اور کئی دیگر نے شہرت حاصل کی۔ ان تمام افسانہ نگاروں کے ہاں بھی منٹو کی حقیقت پسندی اور کردار نگاری کی پرچھائیاں ملتی ہیں۔ ڈاکٹر انیس ناگی نے سعادت حسن منٹو پر 1984ء میں ایک بہت خوبصورت کتاب لکھی۔ اس کتاب کے ایک باب کا عنوان ہے ’’منٹو اور مارکسزم‘‘۔ مضمون کے عمیق مطالعے کے بعد قاری اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ ناگی صاحب نے منٹو کے ہاں مارکسزم ڈھونڈ لیا ہے اور اپنے مضمون میں انہوں نے قارئین کو قائل کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ ڈاکٹر انیس ناگی نے منٹو کے بارے میں لکھا ہے کہ سعادت حسن منٹو کے افسانوں میں براہ راست مارکسزم نہیں ڈھونڈا جا سکتا۔ البتہ ان کے گہرے مطالعے کے بعد یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ مارکسزم کے سارے اہم نکات کسی نہ کسی حوالے سے ان کے افسانوں کے ماحول میں بآسانی تلاش کیے جا سکتے ہیں۔