ڈیل یا ڈھیل: حقیقت کیا ہے؟

تحریر : سلمان غنی


منی بجٹ کی قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشی کا طوفان تھما ہی تھا کہ اس کے فوری بعد ایک نئے سیاسی طوفان کا آغاز ہوا ہے۔

 ن لیگ کی قیادت ،خصوصاً مریم نواز کا کہنا ہے کہ حکومتی رخصتی اب سالوں اور مہینوں کی نہیں ہفتوں کی بات ہے۔ دوسری جانب وفاقی وزراء اور حکومتی ترجمان (ن) لیگ پر اپنی لیڈر شپ کی ریلیف کیلئے ڈیل اور ڈھیل کے الزامات لگاتے نظر آ رہے ہیں۔ وفاقی وزیر فواد چودھری اور حکومتی ترجمان شہباز گل نے حالیہ ہفتے مختلف تقاریب میں (ن) لیگ کی قیادت خصوصاً شہبازشریف پر الزام لگایا کہ وہ’’ چار کے ٹولے‘‘ کی ریلیف کیلئے سرگرم ہیں جس میں ان کے علاوہ نواز شریف، مریم نواز اور حمزہ شہباز شامل ہیں ۔ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے لاہور پریس کلب کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ (ن) لیگ کے چار بڑے رہنما نوازشریف کو ہٹا کر قیادت لینا چاہتے ہیں۔ البتہ وفاقی وزیر فواد چودھری نے یہ واضح نہیں کیا کہ وہ چار بڑے رہنما کون ہیں۔

 دوسری جانب مسلم لیگ ن کی لیڈر شپ خصوصاً سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے ڈیل اور ڈھیل کی باتوں کو ملک کو درپیش مسائل سے توجہ ہٹانے کی کوشش قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکومت کا اپنا کوئی مستقبل نہیں، جلد ہم حکومت بنانے کا طریقہ کار واضح کر دیں گے۔ حکومت اور اپوزیشن کے ذمہ داروں کی جانب سے ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشی سے ایک بات تو واضح ہے کہ اسکے پیچھے کچھ نہ کچھ چل رہا ہے ۔یہ کیا ہے؟ اور کیونکر ہے ؟یہ زیادہ دیر تک چھپا نہیں رہ سکتا۔ ن لیگ کے خلاف حکومت کی جانب سے ڈیل اور ڈھیل کے الزام سے اور سوالات پیدا ہو رہے ہیں۔ آخر وہ کون تھا جس سے ن لیگ کے ذمہ داران نے ملاقات کی؟ ملاقات کے مقاصد کیا تھے ؟

جہاں تک اپوزیشن کی جانب سے حکومت کے خاتمہ کا سوال ہے تو اس کو محض روایتی تنقید قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ اگر واقعتاً اپوزیشن حکومت کے نجات کیلئے سنجیدہ ہے تو پھر اس کے پاس منی بجٹ کا موقع تھا کہ وہ حکومتی اتحادیوں کو اپروچ کرکے انہیں اپنے ساتھ ملاتی اور حکومت کے خاتمہ کے حوالے سے سرگرم ہوتی۔ اپوزیشن لیڈر شپ کی سرگرمیوں اور بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اپوزیشن حکومت کو گرانے اور ہٹانے کی بجائے اس پر اثر انداز ہونے کیلئے بیانات اور اعلانات پر ہی اکتفا کر رہی ہے۔ اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں اور ان کی لیڈر کے حوالے سے اطلاعات یہ ہیں کہ  حکومت کو دفاعی محاذ پر رکھتے ہوئے عام انتخابات کی جانب پیش رفت کی جائے ۔ ان خیالات کا اظہار قومی اسمبلی کے حالیہ سیشن میں سابق صدر آصف زرداری نے ن لیگ کے ایک ذمہ دار سے گفتگو کرتے ہوئے کیا تھا۔

 منی بجٹ کے حوالے سے تحفظات کے باوجود اس کی منظوری کے عمل نے ثابت کیا ہے کہ حکومت اتنی کمزور نہیں کہ اسے گرایا جا سکے اور اسے ابھی تک کہیں نہ کہیں سے مدد اور معاونت حاصل ہے۔ البتہ حکومتی ذمہ داران اور وفاقی وزراء کی جانب سے ن لیگ کے خلاف ڈیل اور ڈھیل کی مہم کا حکومت کو اس حد تک فائدہ ضرور ہوا کہ حکومت جو مہنگائی کے طوفان اور خصوصاً منی بجٹ کے اثرات سے خوفزدہ نظر آ رہی تھی اس نے نان ایشوز کو ہوا دے کر ایشوز سے توجہ ہٹانے میں کسی حد تک کامیابی حاصل کی ہے لیکن یہ سب کچھ وقتی ہے ۔اگر ملکی صورتحال کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو عملاً حکومت کی سب سے بڑی اپوزیشن مہنگائی اور بے روزگاری ثابت ہوئی ہے جس نے ایک منتخب حکومت کے پائوں اکھاڑ کر رکھ دیئے ہیں۔ خود ان کے اراکین اسمبلی جو عوام سے ووٹ لے کر ایوانوں میں پہنچے تھے سب سے زیادہ پریشان وہ ہیں۔جوں جوں ان کا عوام کے پاس واپس جانے کا وقت آ رہاہے ان کی پریشانی ان کے بیانات اور چہروں سے نمایاں ہو رہی ہے۔ 

وزیراعظم عمران خان اور وزراء اس کارکردگی کے ساتھ یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ آنے والے پانچ سال بھی ہمارے ہوں گے لیکن وہ اس حوالے سے یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ وہ کونسی ایسی پالیسیاں اور کارنامے ہیں جس بناء پر عوام انہیں دوبارہ منتخب کریں گے ۔ جہاں تک شریف خاندان کی سیاست اور ان کی حکمت عملی کا سوال ہے تو شریف خاندان کی سیاست کو زندہ رکھنے کا بڑا کریڈٹ ان کی اپنی جماعت سے زیادہ خود حکومت اور ان کے ذمہ داران کا ہے ۔مسندِ اقتدار پر پہنچنے سے اب تک کوئی دن ایسا نہیں جاتا کہ وہ شریف قیادت کو ٹارگٹ نہ کرتے ہوں اور سنجیدہ عناصر یہ سوال اٹھاتے نظر آتے ہیں کہ اس وقت مسئلہ شریف قیادت نہیں مہنگائی، بے روزگاری اور غربت ہے ۔اگر حکومت اس محاذ پر ڈلیور کر پاتی اور ملک میں استحکام کا ذریعہ بنتی تو یقیناان کی سیاست کو ختم کیا جا سکتا تھا۔ 

آج حکومتی کارکردگی کو جواز بناتے ہوئے مسائل اور مہنگائی زدہ عوام ردعمل میں شریف قیادت کو یاد کرتے نظر آتے ہیں اور اسی رحجان نے انہیں سیاسی محاذ پر زندہ رکھا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت کی جانب سے اب مسلم لیگ (ن) کے صدر اپوزیشن لیڈر شہبازشریف کو خصوصی طور پر ٹارگٹ کرتے ہوئے ان کے مقدمات کی بناء پر یہ کہا جا رہا ہے کہ وہ جلد جیل میں ہوں گے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ شہبازشریف کا بخار خود حکومت پر سوار ہے۔ اگر واقعتاً ان کے خلاف مقدمات میں جان ہو گی تو وہ عدالتوں سے نہیں بچ پائیں گے۔ جہاں تک ان کی گرفتاری کا سوال ہے تو حالات اور اسلام آباد میں پیدا شدہ کیفیت کی بناء پر کہا جا سکتا ہے کہ شہبازشریف کے خلاف حکومتی بیانات اور اقدامات اپنی جگہ مگر مستقل قریب میں ان کی گرفتاری کے امکانات بہت کم ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

آخرت کی زندگی!

قرآن کریم اﷲجل شانہ کی آخری کتاب ہے جو سراپا حق ہے زندگی موت مابعد الموت، زندگی سے پہلے کیا تھا۔ اس زندگی کے بعد کیا ہوگا؟ تمام حقائق کو بڑے واضح آسان اور دل نشیںانداز میں بیان فرماتی ہے، حتمی اور یقینی بات کرتی ہے، جس میں ادنیٰ سا شبہ بھی نہیں۔

اسلام میں یتیموں کے حقوق

’’یتیم‘‘ اُس نابالغ بچے یا بچی کو کہا جاتا ہے کہ جس کے سر پرسے اُس کے باپ کا سایہ اُٹھ گیا ہو۔ اسلام نے مسلمانوں کو یتیم بچوں کے حقوق ادا کرنے اور اُن کے حقوق کی نگہبانی کرنے کی بڑی سختی سے تاکید کی ہے۔ یتیم بچوں کو اپنی آغوش محبت میں لے کر اُن سے پیار کرنا، اُن کو والد کی طرف سے میراث میں ملنے والے مال و اسباب کی حفاظت کرنا، اُن کی تعلیم و تربیت کی فکر کرنا، سن شعور کو پہنچنے کے بعد اُن کے مال و اسباب کا اُن کے حوالے کرنا اور انہیں اِس کا مالک بنانا اور بالغ ہونے کے بعد اُن کی شادی بیاہ کی مناسب فکر کرکے کسی اچھی جگہ اُن کا رشتہ طے کرنا، اسلام کی وہ زرّیں اور روشن تعلیمات ہیں جن کا اُس نے ہر ایک مسلمان شخص کو پابند بنایا ہے۔

سید الشہداء سیدنا حضرت امیر حمزہ ؓ

سید الشہداء سیدنا حضرت امیر حمزہ اسلام کے ان جانثاروں میں سے ہیں جن کی خدمات مینارہ نور اور روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔ جب تک آپؓ حیات رہے آپؓ نے عملی طور پر سرکاردوعالمﷺ کے نائب کا کردار ادا فرمایا۔ غزوہ احد وبدر میں آپؓ اسلامی لشکر کے سالار رہے۔ بعثت کے چھٹے سال سے لے کر 3ہجری تک،اعلان اسلام سے لے کر غزوہ احد میں سید الشہداء کا بلند مقام ملنے تک آپؓ کی پوری حیات مستعار حفاظت مصطفی کریم ﷺ میں بسر ہوئی۔

مسائل اور ان کا حل

باجماعت نماز میں امام کی قرات میں مختلف آیات کا جواب دینے کی شرعی حیثیت سوال :امام صاحب اگرباجماعت نمازمیں اگرایسی آیات تلاوت کریں جس میں دعا کا ذکر ہویااللہ تعالیٰ کی کبریائی بیان ہویاجس میں عذاب الٰہی کا ذکرہواورمقتدی دعاکی صورت میں ’’آمین، سبحان اللہ، یا اعوذ باللہ‘‘ دل میں کہے ،کیاایساکرناجائزہے؟

حکومتی اعتماد میں اضافے کے دلائل

21 اپریل کے ضمنی انتخابات کے بعد حکومت کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ 8 فروری کے انتخابات کے بعد جب مسلم لیگ (ن) اور اس کے اتحادیوں کی حکومت قائم ہو ئی تو شہباز شریف کو ووٹ دینے والوں کو شبہ تھا کہ یہ حکومت زیادہ عرصہ نہیں چل پائے گی کیونکہ مشکل فیصلے کرنے ہوں گے ، معیشت سنبھالنا انتہائی کٹھن ہو گا، بانی پی ٹی آئی کی مقبولیت حکومت کیلئے مسلسل درد سر رہے گی، یہی وجہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے شہباز شریف کو وزارت عظمیٰ کا ووٹ تو دیا مگر اہم ترین اتحادی جماعت وفاقی کابینہ کا حصہ نہیں بنی۔

ضمنی انتخابات کا معرکہ(ن) لیگ نے سر کر لیا

ضمنی انتخابات کے حوالے سے عمومی رائے یہ رہی ہے کہ ان میں حکمران جماعت کو فائدہ ملتا ہے مگر 2018ء کے بعد اس تاثر کو دھچکا لگا ۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اپوزیشن جماعتیں اپنے ووٹرز میں تحریک پیدا کرکے انہیں پولنگ سٹیشنز تک لے آتی تھیں،مگر حالیہ ضمنی انتخابات میں حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) نے ضمنی انتخابات کا معرکہ سر کر لیا۔