کنکریاں
ایک قافلہ سفر کررہا تھا اوردوران سفر ان کا گزر ایک اندھیری سرنگ سے ہو رہا تھا کہ اچانک ان کے پیروں میں کنکریوں کی طرح کچھ چیزیں چبھیں۔
اس قافلے میں شامل کچھ لوگوں نے اس خیال سے ان چبھنے والی چیزوں کو کنکریاں سمجھ کر اْٹھا لیا کہ ہمارے پاؤں میں لگی ہیں،ہمیں تو تکلیف پہنچ گئی کسی اور کو نہ لگیں اوران کو کوئی پریشانی نا ہو اور نیکی کی خاطر اْٹھا کر جیب میں رکھ لیں۔کچھ لوگوں نے زیادہ اْٹھا لیں تاکہ زیادہ نیکی حاصل کر سکیں تو کچھ نے کم اور کچھ لوگ اس قافلے میں ایسے بھی تھے کے انہوں نے بالکل بھی زحمت نہیں کی اْٹھانے کی۔
جب قافلے کے لوگ سْرنگ سے باہر نکلے تو وہ سب یہ دیکھ کر حیران تھے کہ جو کچھ انہوں نے کنکریاں سمجھ کر اْٹھائے تھے وہ سب کنکریاں نہیں بلکہ بہت ہی قیمتی ہیرے تھے۔
جنھوں نے زیادہ اْٹھائی تھیں وہ لوگ زیادہ مالا مال ہوئے اور ان کی خوشی کی انتہا نہ تھی۔جنھوں نے کم اْٹھائی تھیں وہ پچھتا رہے تھے کے زیادہ کیوں نہیں اْٹھائیں۔
اور جنھوں نے بالکل نہیں اٹھائیںوہ سر پکڑے بیٹھے تھے اور افسوس کررہے تھے کہ کاش ہم نے بھی کچھ کنکریاں اْٹھائی ہوتیں۔دنیا میں زندگی کی مثال اس اندھیری سرنگ جیسی ہے۔ زندگی وہ اندھیری سرنگ ہے اور نیکی ان کنکریوں کی طرح جو بظاہر مشکل تو لگ رہی ہیں، ہمارے پیروں کوچبھ رہی ہیں لیکن اس کا اجر بہت بڑا ہے۔ اس زندگی میں جو نیکی ہم کریں گے وہ آخرت میں ہیرے کی طرح قیمتی ہو گی اور اس وقت انسان پچھتائے گا کہ کاش میں نے دو چار مشکلات اور اْٹھائی ہوتیں۔