چالاک باز
کوّے کی ملا قات فضا میں اڑ تے ہوے ایک باز سے ہوئی جو بہت دن سے کسی اچھے شکا ر کی تلاش میں تھا کو ّے نے اپنی کہا نی با ز کو سنائی اور اسے کہا وہ بھی یہ تر کیب اپنے شکار پر آزما کر دیکھے۔
باز جو بہت دنوں سے ایک مور کو شکار کرنے کی کوشش میں تھا۔جنگل میں اس جگہ پہنچا جہاں ایک مور ہمیشہ اکیلا ہی نا چا کرتا تھا مگر جونہی باز شکار کی نیت سے اس کی جا نب آتا وہ پر پھیلا ئے رقص کرتا تیزی سے دور بھاگ جاتا۔
باز نے اس دن کوّے کی ترکیب کے مطابق مور کو با توں میں لگا نے کا سو چا اور بولا ،مور بھائی بہت عرصے سے میں تمہا ری تکہ بوٹی کرنے کا سوچ کر تم پہ کئی نا کام حملے کر چکا ہوں مگر اب میں تھک چکا ہوں سوچ رہا ہوں تم سے دوستی ہی کر کے دیکھوں۔ سوچ رہا ہوں کیوں نہ ہم دنوں دوست اکٹھے شکا ر پر جا یا کریں تم زمین پر کیڑ ے اکٹھے کرو اور میں چھوٹے موٹے پر ندے مار ا کرو ں گا اور ہم اکٹھے مل جل کر آ خر میں کھا پی لیا کرینگے۔ مگر اس سے پہلے میں تمھیں ایک نئے رقص کی تکنیک سکھا ؤ ں گا کیونکہ میں نے غور کیا ہے تم صرف اچھل کود ہی کرتے ہو۔ اصل رقص اس طرح نہیں ہوتا۔ اصل رقص میں ٹا نگوں کو ایک مخصوص مقام پر اٹھا کر انہیں ایک خاص ردھم کے ساتھ ایک خاص طریقے سے اوپر نیچے ،نیچے او پر کرنا ہوتا ہے نہ کہ تمہاری طرح گول گول پر پھیلا ئے گھوم کر چکر لگا نے کو حقیقی رقص کہتے ہیں۔ اصل حقیقی رقص میں نے جنگل میں ایک استاد لومڑ ی سے سیکھا ہے جو رقص کی سب سے بڑ ی استاد ہے۔
اس کی درس گاہ میں بیٹھ کر میں نے ایک عمر گزاری تب جا کر کہیں مجھے رقص سمجھ میں آ یا ورنہ میں بھی تمہاری طرح ٹامک ٹو ئیا ں ہی مارا کرتا تھا ۔
معاف کرنا اگر میری بات تمھیں بری لگی ہو اصل رقص سیکھنے کے لیے عمر بھر کی ریا ضت درکار ہوتی ہے تب کہیں جا کر مجھے رقص کی تکنیک ٹھیک سے آئی ہے کہ کب کیسے اور کہا ں کس طریقے سے پا ؤ ں رکھنا اور اٹھا نا ہے ۔ مور باز کی عالمانہ با تیں سن کر مکمل طور پر باز سے متاثر ہو چکا تھا۔ اسی حیرانی کی کیفیت میں اس نے مرعو ب ہوتے ہوئے فوراً باز سے مودبانہ در خوا ست کی اور بولا باز بھائی اگر تمہا ر ے پاس وقت ہو تو مجھے بھی جلد حقیقی رقص کی تعلیم دو تا کہ مجھ کوڑ ھ مغز کو بھی حقیقی رقص سے شنا سا ئی حاصل ہو سکے۔
بازجو مو قع کے انتظار میں تھا فورا ً بولا مور بھائی معاف کرنا اصل رقص سیکھنے میں سب سے بڑی رکا وٹ تمہارے یہ عجیب و غریب غیر ضروری پر ہیں انہیں کٹو ا نا ضروری ہے تب جا کر شا ید تمہیں اصل رقص کی مہارت حاصل ہو سکے۔ان پروں کا بوجھ اٹھا ئے تم حقیقی رقص نہیں سیکھ پا و ٔگے !
مور نے ڈ ر تے ڈ ر تے حا می بھری اور بولا اگر یہ بات ہے باز بھائی تو مجھے منظور ہے میں ابھی اپنے سارے پر کاٹ دوں گا۔ یہ کہہ کر مور نے ایک ایک کر کے اپنے پروں کو توڑ نا شر و ع کر دیا ۔با ز من ہی من میں مسکرا تا ٹہنی پر بیٹھا سب دیکھتا رہا۔کچھ دیر میں جب مور کے سب پر ٹوٹ گئے تو مور بولا ،لو باز بھائی اب بتا ؤ آگے مجھے کیا کرنا ہے ؟ باز بولا بس آگے تمہیں کچھ نہیں کرنا آگے کا کام میرا ہے۔یہ کہہ کر باز نے پوری طاقت سے ایک جست بھر ی اور سیدھا مور کی گردن کو دبوچ لیا مور بریک ڈانس کرتا ہوا آخری سا نسیں لینے لگا۔
( سلمان بخاری جاپان میں مقیم ایک معروف افسانہ نگار اور متعدد کتابوں کے مصنف ہیں)