شگفتہ ادبی تحریرجدید ادب کی اقسام

تحریر : امجد محمود چشتی


سارے جہاں میں لائق تحسین ہو گیا لو دوستو میں صاحب ویکسین ہو گیامیں گھومتا ہوں کوچۂ جاناں میں بے دھڑک جب سے میرا رقیب ’’قرنطین‘‘ ہو گیا

عربی میں ادب کے معانی تہذیب، شائستگی اور لحاظ کے ہیں۔ ابتدا میں مہمان نوازی، ضیافت، دعوت پر بلانا کھانا تیار کرنا اور دستر خوان سجانا ادب کہلاتا تھا۔ یہاں آج ہم جدید ادب کی چند اصناف کے بارے میں آگاہ کریں گے۔ 

ازدواجی ادب:اردو ادب میں ازدواجی و عائلی حیات پر خوب لکھا گیا مگر شعرا کے ہاں اپنے اہل و عیال پر کم اور دوسروں کی اہلیائوں اور آنسائوں پر مبالغہ کی حد تک جایا گیا۔ غیر منکوحہ محبوبائوں پر شاہکار ادب تخلیق ہوا مگر سگی بیویوں کی تعریف شاذ ہی ملے گی۔ صرف اسلم انصاری نے اپنی بیوی پر یہ مشہور غزل کہی ’’میں نے روکا بھی نہیں اور وہ ٹھہرا بھی نہیں‘‘۔ مگر وہ بھی اس بے چاری کی وفات پر۔ لاریب کہ شاعروں نے اپنی بیویوں کا ذکر لطیفوں اور تضحیک کیلئے رکھ چھوڑا۔ مثلاً:

میری بیوی قبر میں لیٹی ہے کس ہنگام سے

وہ بھی ہے آرام سے اور میں بھی ہوں آرام سے

جبکہ محبوبائوں اور منہ بولی بیویوں کو سر آنکھوں پر بٹھایا گیا۔ 

امجد اسلام امجد کے ہاں تو سیڑھیوں سے اترتی حسینہ سیدھی دل میں جا اترتی ہے۔ چند عشاق کے دلوں میں جوتوں سمیت بھی اتریں۔ بہت سے شعرا کی عائلی زندگی بری طرح ناکام رہی۔ شاعرات بھی اسی رجحان کا شکار رہیں جن میں پروین شاکر نمایاں ہیں۔ کہتے ہیں میر کی آہ کے پیچھے اس کی چار بیویاں تھیں۔ ادب میں سالیوں کا چرچا بھی رہا مگر ساس کی شان کا بیان تو ایک طرف تماشہ رہا۔ کسی نے خوب لکھا کہ اس کا اردو سے اس وقت اعتماد اٹھ گیا جب معلوم ہوا کہ ساس کو اردو میں خوشدامن کہتے ہیں۔ محبوبہ کی زلفوں کے قصیدے لکھنے والے اگر اپنے گھر کے کھانے میں زوجہ کی زلفوں کا ایک بال بھی دیکھ لیں تو آسمان سر پر اٹھا لیں۔ زمانے میں شرح خواندگی اور شرح خاوندگی ہر دو کی بابت ڈھیروں مسائل ہیں۔ شرح خواندگی المناک حد تک کم اور شرح خاوندگی خوفناک حد تک بڑھتی جا رہی ہے۔ تاریخی تناظر میں زوجین کے معاملات ہمیشہ سے ہی دلچسپی کے حامل رہے ہیں۔

 دنیا میںپہلے انسان کا تعارف بطور خاوند ہی ہوا اور پہلا رشتہ بھی زوجین کا تھا۔ ہابیل قابیل کے جھگڑے کی وجہ بھی حصول زن اور اعزاز خاوندگی ہی تھا۔ عرب ممالک میں تو ’’ایک زوجیہ‘‘ ہونا باعث شرمندگی سمجھا جاتا ہے۔ ماضی کے شہنشاہ، خاوندگی میں کمال کی فضیلت رکھتے تھے۔

سیاسی ادب: عرف عام میں ادب سے مراد تہذیب، شائستگی  اور اخلاقیات ہیں۔ جس قوم میں ادب نہ ہو اس قوم میں ادب و احترام جاتا رہتا ہے۔ ادب ہو تو بھری بزم میں راز کی باتیں کہہ دینا بھی بے ادبی سمجھ کر سزا طلب کی جاتی ہے مگر سیاست میں ادب کا ذکر خیر بس ذکر غیر ہی ہے۔ اگرچہ سیاست اور ادب میں ’’ویر‘‘  پروان چڑھ چکا ہے اور ہر دو کے درمیان کوئی تعلق ڈھونڈنا اتنا ہی مشکل ہے جتنا کہ سیاست اور شرافت میں کوئی رشتہ تلاش کرنا۔ تاہم ادبی حوالے سے چند اہل سیاست قدرے ذوق رکھتے ہیں۔ فرینڈز ناٹ ماسٹر، میڈا سائیں اور عمرانی رویوں پہ ریحامی کتابیں اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ماضی میں غالب کے خطوط، قاضی جی کے لیلیٰ کے خطوط اور پھر قطری خطوط کا شہرہ رہا۔’’برنارڈ شاہ سے حریم شاہ تک‘‘ کے ناول نے تو تہلکہ مچا دیا۔ 

حزب، اقتدار، حزب اختلاف اور عوام بے شمار اقسام کے راگ الاپتے رہتے ہیں۔ حکمرانوں کا پسندیدہ راگ ’’درباری‘‘ رہا ہے جبکہ اپوزیشن کے ہاں راگ ’’دیپک‘‘ فیورٹ ہوتا ہے۔ میڈیا کے ڈھیروں راگ ہیں جن میں ملہار، دیپک، سندھڑا، دادرا، درباری، ایمن، بھوپالی، مالکوس وغیرہ شامل ہیں۔ عوام صرف پیلو، میاں دی ٹو ڈی، جوگ، بھیم اور کلیان سے محظوظ ہوتی ہے۔ ڈیل زدگان راگ مالتی کے دلدادہ ہوتے ہیں کیونکہ اس میں پردیس جانے کی بابت خبریں ہوتی ہیں۔ سیاسی کہاوتوں میں مجھے کیوں نکالا، کسی کو نہیں چھوڑوں گا، ہو گی جو بارش تو آئے گا پانی، ٹریکٹر ٹرالی، میرا جسم میری مرضی، جس کی لاٹھی اس کی گائے، آبیل مجھے ضرور مار، جان اللہ کو دینی ہے، جیسا دیس ویسا کیس، لاڑکانے چلو ورنہ تھانے چلو، قرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی، کوئی شرم ہوتی ہے حیا ہوتی ہے، 35 پنکچرز، دھاندلی، پھٹیچر، ریلو کٹے،  چھانگا مانگا، روٹی کپڑا اور مکان، نواں آیا ایں سوہنیا، پاکستان کھپے، مزاحیہ استعفے، گو نواز گو، سسیلین مافیا، سلیکٹڈ اور گاڈ فادر ناقابل فراموش اصطلاحات ہیں۔ میرے عزیز اور لذیذ ہم وطنو! السلام علیکم بھی خاصی جلیل القدر کہاوت رہی ہے۔ 

وبائی ادب: وبائیں زندگی کا حصہ ہیں لہٰذا اردو میں وبائوں اور ان کے اثرات پر وسیع و وقیع ذخیرہ تخلیق ہوتا رہا ہے۔ ماضی کے ادب پاروں میں ان ادوار کی وبائوں کی معلومات ملتی ہیں۔ عہد رواں بھی آفتاب اور وبائوں کا دور ہے۔ کورونا نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا تو کہیں ڈینگی اودھم مچائے ہوئے ہے۔ ڈاکٹر عمران ظفر نے تو وبائوں پر فکاہیہ منظوم شاہکار’’کرونا میرے آگے‘‘ رقم کر دیا جو مشاہیر کے کلام کے نمونوں کی پیروڈیز پر مشتمل ہے۔ شعر دیکھئے:

لائی حیات آئے، وبا لے چلی، چلے

اپنی خوشی سے آئے نہ اپنی خوشی چلے

اک اور جگہ کہتے ہیں’’ڈینگی میرے  پیچھے ہے کرونا میرے آگے‘‘۔وبا پر مرلی چوہان نے خوب لکھا:

سارے جہاں میں لائق تحسین ہو گیا

لو دوستو میں صاحب ویکسین ہو گیا

میں گھومتا ہوں کوچۂ جاناں میں بے دھڑک

جب سے میرا رقیب ’’قرنطین‘‘ ہو گیا

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

معاشی میدان سے اچھی خبریں!

ملکی سیاسی میدان میں غیریقینی کی صورتحال برقرار ہے مگر معاشی میدان سے اچھی خبریں آنا شروع ہو گئی ہیں۔ دو سال قبل جس ملک کے دیوالیہ ہونے کی باتیں کی جا رہی تھیںوہ ملک اب نہ صرف دیوالیہ پن کے خطرے سے نکل آیا ہے بلکہ مثبت معاشی اشاریوں نے امید کی کرن بھی پیدا کردی ہے۔

سیاسی مذاکرات،پس منظر میں کیا چل رہا ہے ؟

بانی پی ٹی آئی کی جانب سے سول نافرمانی کی کال سے پسپائی ظاہر کرتی ہے کہ پی ٹی آئی اس نتیجہ پر پہنچ چکی ہے کہ سیاست میں احتجاج اور جارحانہ طرزِ عمل کچھ وقت تک تو مؤثر ہوتا ہے لیکن اس کے نتیجہ میں نہ تو حکومتیں گرائی جا سکتی ہیں اور نہ ہی انہیں سرنڈر پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔

گورنر سندھ کا معاملہ اور واوڈا کی پیشگوئیاں

سندھ کی سیاست میں ایک بار پھر گورنر کی تبدیلی کا غلغلہ ہے۔ سینیٹر فیصل واوڈا نے گزشتہ دنوں گورنر کی تبدیلی کا عندیہ دیا تھا، ساتھ ہی یہ بھی بولے کہ تبدیلی میں کئی ماہ لگ سکتے ہیں۔

سول نافرمانی کے نتائج اور عواقب

بانی پی ٹی آئی کے سول نافرمانی کے اعلان سے پی ٹی آئی کی مشکلات بڑھ گئی ہیں۔پارٹی اس تذبذب کی کیفیت میں ہے کہ سول نافرمانی کیسے کی جائے اور یہ کہ عام آدمی اس کیلئے ساتھ دے گا؟یہ وہ سوال ہیں جن کا پارٹی قیادت کے پاس کوئی جواب نہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ پریشانی ہے کہ اس سے مقتدرہ کے ساتھ دوریاں مزید بڑھ جائیں گی۔

سیاسی استحکام اور عوامی مسائل کی گونج

بلوچستان میں معاشی اور سیاسی پیش رفت کے تناظر میں ترقی کے امکانات روشن ہوئے ہیں۔ زرعی ٹیوب ویلوں کی شمسی توانائی پر منتقلی، سرحدی تجارت کی بحالی اور معدنی وسائل سے استفادہ کرنے کی حکومتی منصوبہ بندی اہم اقدامات ہیں۔ دوسری جانب گورنر جعفر خان مندوخیل اور ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے بیانات نے پالیسی سازی میں شفافیت اور عوامی شمولیت کی ضرورت پر زور دیا ہے۔

ایوان میں تبدیلی کی سرگوشیاں

آزاد جموں و کشمیر میں سردی ان دنوں زوروں پر ہے مگر ریاست کا سیاسی درجہ حرارت مسلسل بڑھ رہا ہے۔ قانون ساز اسمبلی میں پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے قائد حزب اختلاف خواجہ فاروق احمد وزیر اعظم چوہدری انوار الحق کی ممکنہ تبدیلی کی مبینہ کوششوں کے درمیان پشاور پہنچ گئے جہاں انہوں نے وزیر اعلیٰ علی امین خان گنڈا پور سے ملاقات کی اور جماعت کی آزاد کشمیر شاخ کی پالیسی کے حوالے سے مشاورت کی۔