بیگم اختر ریاض الدین اردو سفر نامہ نگاری کا درخشندہ ستارہ

تحریر : ڈاکٹر عرفان پاشا


اردو سفر نامے کی تاریخ میں جن مصنفین نے اپنے اسلوب شگفتگی اور انداز کے باعث سب سے زیادہ اثر چھوڑا ہے ان میں بیگم اختر ریاض الدین کا نام بہت قابل احترام ہے۔ ان کے سفر نامے اپنی شگفتگی کے باعث پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے اور ان کو پاکستان سمیت دنیا کی کئی یونیورسٹیوں میں بطور نصاب پڑھایا جاتا ہے۔

 ان کے سفر ناموں کو سفر نامے کی خصوصیات کے حوالے سے بطور مثال پیش کیا جاتا ہے۔ بیگم اختر ریاض الدین زیادہ تر ادبی تقاریب اور محافل سے دور رہیں اور اسی طرح انہوں نے کسی ادبی گٹھ جوڑ کا بھی خود کو حصہ نہیں بننے دیا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے انداز تحریر پر کسی بھی نظریے، ادارے یا مصنف کی چھاپ نظر نہیں آتی۔ ایک اعلیٰ ظرف انسان اور ایک بلند پایہ ادیب ہونے کے ناطے انہوں نے اپنے فن سے بھرپور انصاف کیا اور پاکستان میں اردو سفر نامے کو مقبول بنانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔

ان کے سفر نامے نسائی نقطہ نظر کا بھی ایک شاندار نمونہ ہیں۔ انہوں نے دنیا بھر کے جس بھی خطے کو دیکھا،اسے ایک عورت کی آنکھ سے ہی دیکھا اور محسوس کیا اور اسے اپنے سفرنامے میں بیان کیا۔ اس وجہ سے ان کی نظر ایسے مظاہر پر بھی پڑتی ہے جس کو ہم عموماً نظر انداز کر کے گزر جاتے ہیں۔

بیگم اختر ریاض الدین  15 اگست 1928ء  کو کلکتہ میں پیدا ہوئیں۔ جس کے بارے میں انہوں نے اپنے سفرنامے میں لکھا کہ وہ کلکتہ میں پیدا ہوئی تھیں لیکن وہ بہت چھوٹی عمر میں ہی وہاں سے ہجرت کر آئیں اس لیے انھوں نے کلکتہ کو کبھی دیکھا نہیں تھا۔ 

بیگم اختر ریاض الدین نے پاکستان بننے کے بعد ہجرت کی اور لاہور میں سکونت اختیار کی۔ یہیں سے انہوں نے1949ء میں کنیئرڈ کالج لاہور سے بی اے کرنے کے بعد 1951ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے انگریزی میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ جس کے بعد انہوں نے درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا اور اسلامیہ کالج برائے خواتین لاہور میں انگریزی کی لیکچرار مقرر ہوئیں۔ بیگم اختر ریاض الدین  1952ء سے 1965ء تک تقریباً 13 برس تک اسی پیغمبری پیشے اور اسی شعبے سے وابستہ رہیں۔ اس کے بعد اُن کی شادی نامور بیورو کریٹ اور منتظم  میاں ریاض الدین احمد سے ہو گئی۔ جس کے بعد انہیں تدریس کا یہ سلسلہ منقطع کرنا پڑا۔ ان کے شوہر میاں ریاض الدین احمدنے پاکستان ہاکی فیڈریشن  فیڈریشن کی بنیاد رکھی اور ان کی قیادت میں ہی پاکستان  ہاکی ٹیم نے 1960ء کے اولمپکس میں گولڈ میڈل جیتا۔ میاں ریاض الدین احمد پاکستان میں کوآپریٹوز کے بھی سب سے بڑے ماہر تھے اور اسلام آباد کلب کے دوسرے صدر  بھی تھے۔ انہیں اپنی دفتری مصروفیات اور ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہونے کیلئے دوسرے ملکوں کے دورے کرنا پڑتے تھے۔اسی وجہ سے بیگم اختر ریاض الدین کو اپنے خاوند کے ساتھ دنیا کے بہت سے ممالک کا دورہ کرنے کا موقع ملا۔ قبل ازیں ان کو لکھنے کا شوق تھا اور ان کے اردو اور انگریزی مضامین مختلف رسالوں میں چھپتے تھے۔ سفر کے تجربات و مشاہدات اور ذوق ادب نے مل کر ان کے اندر ایک بہت بڑے افسانہ نگار کی پرورش کی۔اسی لیے انہوں نے اپنی تخلیقی اظہار کیلئے سفر نامہ کی صنف کو منتخب کیا۔

بیگم اختر ریاض الدین نے مصنفہ کی حیثیت سے اپنے سفر کا آغاز 1963ء میں اپنا پہلا سفر نامہ ’’سات سمندر پار" لکھ کر کیا ، جو چھپتے ہی بہت مقبول ہو گیا اور اس سفر نامے نے اردو ادب کی دنیا میں ان کی عالمی شناخت بنانے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ 1969ء میں ان کا دوسرا سفر نامہ ’’دھنک پر قدم‘‘شائع ہوا، جس میں انہوں نے جزئیات نگاری اور منظر کشی کی وہ تاریخ رقم کی ہے کے ایک دنیا اش اش کر اٹھی تھی۔دھنک پر قدم کا ایک باب جو ’’ ہوائیں‘‘ کے نام سے ہے یہ سکولوں کے نصاب میں بھی شامل ہے اور بہت دلچسپ ہے جسے بچے بھی شوق سے پڑھتے ہیں اس کا ایک اقتباس ملاحظہ کیجیے :

’’میری بیٹی اور میں نے کمر کس کر سارا دن گھر کی صفائی کی اور لنچ ہوٹل میں جا کر کھایا۔ رات کو بھی کچھ نہیں پکایا۔جالے، چیونٹیاں اور گرد ہٹا ہٹا کر کمر دکھ رہی تھی، یہ جو میاں کی سات پشتوں پر احسان کیا تھا ‘‘

’’دھنک پر قدم ‘‘کی ادبی دنیا میں بھرپور پذیرائی کی گئی اور اس سفر نامے پر انہیں 1970ء میں آدم جی ایوارڈ اور پاکستان رائٹرز گِلڈ ایوارڈ دیا گیا۔ انہوں نے اردو سفر ناموں کے ساتھ ساتھ متعددفکر انگیز انگریزی مضامین بھی لکھے جو قومی اور بین الاقوامی جرائد میں شائع ہوتے رہے۔ اُن کی ایک انگریزی تصنیف ’’اے ہسٹری آف کرافٹ ان انڈیا‘‘ ہے جو پہلے لندن سے 1975ء میں اور بعد ازاں پاکستان سے 1990ء میں شائع ہوئی۔ 

بیگم اختر ریاض الدین ایک درد دل رکھنے والی خاتون تھی جو بالخصوص کچھ کھلے ہوئے اور غریب طبقہ کی عورتوں کیلئے بہت کام کرتی تھیں۔ انہوں نے کم آمدنی والے گھرانوں کی عورتوں کی بہبود کیلئے بھی بہت کام کیا۔ اس مقصد کیلئے انہوں نے1967ء میں ایک غیر سرکاری تنظیم بہبود ایسو سی ایشن قائم کی جس کی وہ بہت عرصے تک چیئرپرسن رہیں۔1980ء کی دہائی کے وسط میں حکومت پاکستان کی طرف سے ان کی خواتین کی فلاح کے جذبہ کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کی پاکستانی غریب اور مفلوک الحال خواتین کی ترقی کیلئے کی گئی خدمات کے صلے میں  انہیں وومنز ڈویژن کا وفاقی سیکرٹری مقرر کیا گیا۔ بیگم اختر ریاض الدین نے طویل عمر پائی اور 11 جنوری 2023ء کو 94 برس کی عمر میں کراچی میں انتقال کر گئیں۔

 

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

کنجوس کا گھڑا

کسی گاؤں میں ایک بڑی حویلی تھی جس میں شیخو نامی ایک بوڑھا آدمی رہتا تھا۔ شیخو بہت ہی کنجوس تھا۔ اس کی کنجوسی کے قصے پورے گاؤں میں مشہور تھے۔ وہ ایک ایک پائی بچا کر رکھتا تھا اور خرچ کرتے ہوئے اس کی جان نکلتی تھی۔ اس کے کپڑے پھٹے پرانے ہوتے تھے، کھانا وہ بہت کم اور سستا کھاتا تھا۔

خادمِ خاص (تیسری قسط )

حضرت انس رضی اللہ عنہ بہترین تیر انداز تھے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ان کا تیر راہ سے بھٹکا ہو، وہ ہمیشہ نشانے پر لگتا تھا۔ انہوں نے ستائیس جنگوں میں حصہ لیا۔ تُستَر کی جنگ میں آپ ؓ ہی نے ہر مزان کو پکڑ کر حضرت عمرؓ کی خدمت میں پیش کیا تھا اور ہر مزان نے اس موقع پر اسلام قبول کر لیا تھا۔

فوقی نے اک چوزہ پالا

فوقی نے اک چوزہ پالا چوں چوں چوں چوں کرنے والا اس کی خاطر ڈربہ بنایا

’’میں نہیں جانتا‘‘

ایک صاحب نے اپنے بیٹے کا ٹیسٹ لینا چاہا۔ فارسی کی کتاب الٹ پلٹ کرتے ہوئے وہ بیٹے سے بولے ’’بتاؤ ’’نمید انم‘‘ کے معنی کیا ہوتے ہیں؟‘‘۔

خطرناک غلطیاں

٭… آزمائے ہوئے کو دوبارہ آزمانا اور ہر شیریں زبان کو دوست سمجھ لینا۔ ٭…اپنے آپ کو سب سے زیادہ عقل مند اور لائق آدمی تصور کرنا۔ ٭… تمام نوجوانوں کو تجربہ کار خیال کرنا۔

ذرا مسکرائیے

استاد: تم نے میٹرک کس ڈویژن میں پاس کیا ہے؟ شاگرد: کراچی ڈویژن میں۔ ٭٭٭