نبی کریمﷺ کی صحابہ کرام ؓ پر رحمت وشفقت

تحریر : مولانا محمد طارق نعمان گڑنگی


سرور کائنات، امام الانبیاء حضرت محمد مصطفیﷺ اپنے دوستوں کی دلداری کا خیال رکھتے تھے، غزوہ حنین کے بعد جب مالِ غنیمت کی تقسیم کے سلسلہ میں انصار میں سے بعض نوجوانوں کو شکوہ پیدا ہوا تو آپﷺ نے انہیں جمع کیا اور ایسا اثر انگیز خطبہ دیا کہ ان کی داڑھیاں آنسوئوں سے تر ہو گئیں۔ آپ ﷺ نے اس موقع پر جہاں انصار مدینہ پر اسلام کے احسانات کا ذکر فرمایا وہیں انصار کے احسانات کا بھی کھلے دل سے اعتراف فرمایا۔

ارشاد فرمایا: ’’کیا تمہیں یہ بات پسند نہیں کہ لوگ بکریاں اور اونٹ لے کر جائیں اور تم نبی کو اپنے کجاوہ میں لے کر جائو؟ اگر ہجرت نہ ہوتی تو میں انصار ہی میں ہوتا، اگر لوگ ایک وادی میں چلیں تو میں اس وادی میں چلوں گا، جس میں انصار چلیں، میرے لئے انصار کی حیثیت اس لباس کی سی ہے، جو اوپر سے پہنا جاتا ہے‘‘ (صحیح بخاری،  حدیث نمبر:  4330)

نبی کریم ﷺ اپنے صحابہ کرام ؓکی ضرورتوں کا پورا پورا خیال رکھتے، ایک صاحب کی کھجوروں کی فصل خراب ہو گئی اور ان پر بہت سارا قرض ہو گیا۔ آپﷺ نے اپنے رفقاء سے فرمایا ان کی مدد کرو، لوگوں نے مدد کی لیکن قرض ادا نہیں ہو پایا۔ آپﷺ نے ان کے قرض خواہوں سے کہا ’’جو موجود ہو، وہ لے لو اور تم کو صرف اسی کا حق حاصل ہے‘‘ (صحیح مسلم،حدیث نمبر: 1556)

تسلی اور دلداری 

حضور اکرم ﷺ رفقاء میں سے کسی کو تکلیف دہ بات پیش آتی تو ان کی تسلی اور دلداری کا پورا اہتمام فرماتے۔حضر ت عبد اللہ ابن جحش ؓنے جب ہجرت کی تو مکہ مکرمہ میں ان کے مکان پر ابوسفیان نے قبضہ کرلیا اور بیچ ڈالا۔ جب انہوں نے آپ ﷺ سے شکایت کی تو آپﷺ نے فرمایا: تمہیں یہ بات پسند نہیں ہے کہ اللہ تم کو اس کے بدلے جنت میں اس سے بہتر گھر عطا فرما دے، انہوں نے عرض کیا: کیوں نہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: تم کو یہ چیز، یعنی: اس کے بدلہ میں جنت ملے گی ‘‘(سیرت ابن ہشام : 1283) 

ایک صاحب اپنے چھوٹے بچے کو لے کر خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا کرتے تھے۔ بچہ آپﷺ کی پشت مبارک کی طرف آجاتا تو آپﷺ اسے سامنے بٹھالیا کرتے۔ بچے کا انتقال ہو گیا، اس صدمہ سے ان کے والد حاضر نہ ہو سکے۔ آپﷺ کو معلوم نہیں تھا، ان کے بارے میں دریافت کیا، بتایا گیا کہ ان کے صاحبزادے کا انتقال ہو گیا ہے۔ آپﷺ نے ان سے ملاقات اور تعزیت کی، پھر آپﷺ نے فرمایا: تمہیں یہ بات زیادہ محبوب ہے کہ وہ تمہارے ساتھ زندگی گزارتا یا یہ بات کہ تم جنت کے کسی دروازے پر آئو اور تم دیکھوکہ وہ تمہارے لئے دروازہ کھول رہا ہے؟ انہوں نے عرض کیا : یہ دوسری بات مجھے زیادہ محبوب ہے۔ آپﷺ نے فرمایا : یہ چیز تم کو حاصل ہوگئی۔ صحابہ کرام ؓنے عرض کیا : یہ صرف ان کیلئے ہے یا سبھی کیلئے، آپﷺ نے فرمایا: سبھی کیلئے۔(نسائی : 4099)

مشکلات میں ساتھ دینا

نبی کریم ﷺ مشکل کاموں میں بھی صحابہؓ کے ساتھ شریک رہتے۔ غزوہ خندق کے موقع پر سرد موسم تھا، صحابہ کرامؓبھوکے پیاسے خندق کھودنے میں مشغول تھے اور تھک کر چور ہو جاتے تھے، ایسے وقت آپﷺ تشریف لاتے اور فرماتے: اے اللہ!عیش و آرام تو آخرت ہی کا عیش و آرام ہے، اس لئے انصار اور مہاجرین کی مغفرت فرما دیجئے (بخاری ، کتاب المغازی، باب غزوۃ الخندق ، حدیث : 4099)۔

 ایک موقع پر مدینہ میں شور مچ گیا ، لوگوں کو خیال ہوا شاید دشمن حملہ آور ہوگیا ہے ، سب سے آگے آپ ﷺ بڑھے اور اس حال میں واپس آئے کہ آپ ﷺحضرت ابو طلحہ ؓ کے گھوڑے پر تھے، جس پر زین بھی نہیں تھی اور گردن مبارک سے تلوار لٹکی ہوئی تھی، آپ ﷺفرمارہے تھے کہ کیوں گھبراتے ہو؟ کیوں گھبراتے ہو ؟ (بخاری ،باب الحمائل وتعلیق السیف بالعنن ، حدیث نمبر : 2908)

ایک دفعہ اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ سفر پر تھے چنانچہ ایک بکرا ذبح کرنے کی بات طے پائی۔ ایک صحابیؓ نے کہا : اس کو ذبح کرنا میرے ذمہ ہے، دوسرے نے کہا : اس کے چمڑے نکالنے کا کام میں کروں گا، تیسرے نے کہا :میں اسے پکائو ں گا، رسول اللہ ﷺ نے کہا : میں لکڑیاں جمع کروں گا، صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: آپﷺ کا کام ہم کر دیں گے، آپ ﷺ زحمت نہ فرمائیں۔ ارشاد فرمایا : ’’مجھے معلوم ہے کہ تم لوگ میری طرف سے کفایت کر دو گے لیکن مجھے پسند نہیں ہے کہ میں تم لوگوں کے مقابلہ امتیاز اور بڑائی اختیار کروں، اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے ایسے شخص کو پسند نہیں کرتے ہیں، جو اپنے ساتھیوں میں بڑے بنتے ہوں‘‘(کشف الخفاء: 2811)۔

نبی کریم ﷺ اپنے رفقا کے ساتھ اس طرح رہتے گویا ان ہی میں سے ایک ہیں۔ حضرت انس ؓسے روایت ہے کہ آپ ﷺ انصار کے یہاں تشریف لے جاتے تھے ، ان کے بچوں کو سلام کرتے، بچوں کے سر پر ہاتھ پھیرتے تھے اور انہیں دعائیں دیتے تھے (سنن بیہقی، باب ابناء الانصار، حدیث نمبر:8291)  

حضرت سہل بن حنیف ؓسے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ کمزوروں کے پاس تشریف لاتے، ان سے ملاقات کرتے، ان کے بیماروں کی عیادت فرماتے اور ان کے جنازوں میں شریک ہوتے، (مستدرک حاکم، باب تفسیر سورۃ ق، حدیث 3735)

حضرت عبد اللہ ابن ابی اوفی ؓنقل کرتے ہیں کہ آپﷺ کو بیوائوں اور مسکینوں کیلئے چلنے اور ان کی ضرورت پوری کرنے میں کوئی عار نہیں ہوتا تھا۔ (نسائی، باب مایستحب من تقصیر الخطبۃ ، حدیث : 1413)

 حضرت جبیر ابن مطعمؓ فرماتے ہیں کہ غزوہ حنین سے واپس ہوئے اور ڈھیر سارا مال غنیمت آیا تھا ، لوگوں نے آپ ﷺ سے مانگتے ہوئے اس قدر دِق کردیا کہ آپ ایک درخت سے جالگے ، ایک دیہاتی نے چادر مبارک تک کھینچ لی ، آپ کھڑے ہوگئے اور ارشاد فرمایا : اگر میرے پاس ان درختوں کے میدان کے برابر جانور ہوتے تو میں اس کو بھی تمہارے درمیان تقسیم کر دیتا ، تم مجھے بخیل ، جھوٹا اور بزدل نہیں پائوگے۔ (صحیح بخاری، باب ماکان النبی ﷺ ، حدیث نمبر : 3148)

دوسروں کی رائے

 کا احترام 

حضور اکرم ﷺ اپنے رفقاء کے ساتھ نہ صرف مالی جہت سے حسن سلوک کرتے تھے بلکہ ان کو مشورہ میں بھی شامل رکھتے تھے ،حالانکہ آپﷺ کا ہر عمل وحی الٰہی پر مبنی ہوتا تھا اس لئے آپ ﷺکو مشورہ کی ضرورت نہیں تھی لیکن اپنے ساتھیوں کی دلداری اور مشورہ کی اہمیت کو واضح کرنے کیلئے آپ ﷺ مشورہ فرمایا کرتے تھے ۔ کثرت سے اپنے ساتھیوں سے کہتے تھے : ’’اے لوگو! مجھے مشورہ دو‘‘(مسلم ، با ب نقض الکعبۃ وبناء ھا، حدیث : 402)

جہاں آپ اپنے رفقاء کی مادی ضرورتوں کا اور دلداری و حسن سلوک کا لحاظ رکھتے تھے ، وہیں ان کی دینی تربیت پر بھی متوجہ رہتے تھے ۔ آپﷺ نے ایک صاحب کو تیز تیز نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ، پوری توجہ سے ان کی نماز کا جائزہ لیا اور پھر ان کو اعتدال و میانہ روی کے ساتھ نماز پڑھنے کی تلقین کی (صحیح مسلم ، کتاب الصلوٰۃ ، حدیث : 397)۔ ایک موقع پر اپنے رفقاء سے فرمایا : ’’جس طرح مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو ، اسی طرح نماز پڑھا کرو‘‘ (صحیح بخاری ، باب رحمۃ الناس والبھائم ، حدیث : 6008)

حضرت علیؓ کو قضا کا کام سپرد کرتے ہوئے نئے پیش آنے والے مسائل کے حل کا منہج سمجھایا کہ ان مسائل میں انفرادی رائے قائم کرنے کے بجائے اجتماعی غور و فکر کا طریقہ اختیار کرنا چاہئے۔ (المعجم الاوسط : 1618)

 

احکام شریعت کے معاملہ میں سختی 

دینی تربیت ہی کا ایک پہلو یہ ہے کہ آپ ﷺاپنی تمام تر نرمی، رحمدلی، تواضع اور خوش اخلاقی کے باوجود احکام شریعت کے معاملہ میں سختی سے کام لیتے تھے۔ آپﷺحضرت اسامہ بن زیدؓ کو بہت چاہتے تھے ۔ عرب کے ایک معزز قبیلہ کی ایک خاتون نے چوری کرلی تھی اور اس پر شرعی سزا جاری کرنے کا مسئلہ تھا ۔ حضرت اسامہ ؓنے اس کے حق میں سفارش کی  تو آپ ﷺکے چہرے کا رنگ بدل گیا، آپﷺ نے نہ صرف ان کی تنبیہ کی،ارشاد فرمایا: گزشتہ قومیں اسی بنیاد پر ہلاک کر دی گئیں کہ ان میں کوئی معزز آدمی چوری کرتا تو لوگ انہیںچھوڑ دیتے اور کوئی معمولی آدمی چوری کرتا تو اس پر سزا جاری کرتے، خدا کی قسم! اگر فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرتی تو اس کے بھی ہاتھ کاٹے جاتے۔ (بخاری، باب حدیث الغار ، حدیث نمبر : 3475)

نبی کریمﷺ اس بات کا بھی خیال رکھتے کہ اگر اپنے رفقا ء کے درمیان کوئی رنجش پیدا ہو جائے تو اسے دور فرمادیں ، ایک بار ایسا ہوا کہ آپﷺ قبیلہ بنو عوف میں صلح کرانے کیلئے تشریف لے گئے اور اس کوشش میں اتنی تاخیر ہوگئی کہ حضرت بلالؓ نے نماز کیلئے حضرت عبد الرحمن بن عوف ؓکو آگے بڑھا دیا، آپ ﷺ بعد میں آکر شریک ہوئے (صحیح بخاری، حدیث :684)۔

 اسی طرح نبی کریمﷺ نے بعض صحابہ کرامؓ کے درمیان ، مہاجرین و انصار کے درمیان ، اور انصار کے دو قبائل اوس و خزرج کے درمیان اختلاف کو دور کرنے کی کامیاب کوشش کی اور میل ملاپ کے ماحول کو باقی رکھنے کا سبق دیا۔

اپنے احباب کے ساتھ مذکورہ بالا حسن سلوک کا نتیجہ تھا کہ ہر صحابی ؓکا دل آپﷺکی محبت سے لبریز ہوتا، حضرت انس ؓسے روایت ہے کہ بعض لوگ وہ تھے جو دنیاوی مفاد کیلئے اسلام قبول کرتے تھے لیکن اسلام قبول کرنے کے بعد ان کو مسلمان ہونا دنیا اور اس کی تمام چیزوں سے عزیز تر ہوجاتا تھا۔ (مسلم، باب ما سئل رسول اللہﷺ، حدیث نمبر : 2312)

غرض کہ رسول اللہ ﷺکی ذات اپنے دوستوں، ساتھیوں، ہم عمروں اور رفقا کار کے ساتھ خوشگوار برتائوکی ایک بہترین مثال ہے۔ ہمیں بھی چاہیے کہ ہم اپنے پیارے نبیﷺ کی زندگی سے سبق حاصل کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے، (آمین ثم آمین )

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

آخرت کی زندگی!

قرآن کریم اﷲجل شانہ کی آخری کتاب ہے جو سراپا حق ہے زندگی موت مابعد الموت، زندگی سے پہلے کیا تھا۔ اس زندگی کے بعد کیا ہوگا؟ تمام حقائق کو بڑے واضح آسان اور دل نشیںانداز میں بیان فرماتی ہے، حتمی اور یقینی بات کرتی ہے، جس میں ادنیٰ سا شبہ بھی نہیں۔

اسلام میں یتیموں کے حقوق

’’یتیم‘‘ اُس نابالغ بچے یا بچی کو کہا جاتا ہے کہ جس کے سر پرسے اُس کے باپ کا سایہ اُٹھ گیا ہو۔ اسلام نے مسلمانوں کو یتیم بچوں کے حقوق ادا کرنے اور اُن کے حقوق کی نگہبانی کرنے کی بڑی سختی سے تاکید کی ہے۔ یتیم بچوں کو اپنی آغوش محبت میں لے کر اُن سے پیار کرنا، اُن کو والد کی طرف سے میراث میں ملنے والے مال و اسباب کی حفاظت کرنا، اُن کی تعلیم و تربیت کی فکر کرنا، سن شعور کو پہنچنے کے بعد اُن کے مال و اسباب کا اُن کے حوالے کرنا اور انہیں اِس کا مالک بنانا اور بالغ ہونے کے بعد اُن کی شادی بیاہ کی مناسب فکر کرکے کسی اچھی جگہ اُن کا رشتہ طے کرنا، اسلام کی وہ زرّیں اور روشن تعلیمات ہیں جن کا اُس نے ہر ایک مسلمان شخص کو پابند بنایا ہے۔

سید الشہداء سیدنا حضرت امیر حمزہ ؓ

سید الشہداء سیدنا حضرت امیر حمزہ اسلام کے ان جانثاروں میں سے ہیں جن کی خدمات مینارہ نور اور روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔ جب تک آپؓ حیات رہے آپؓ نے عملی طور پر سرکاردوعالمﷺ کے نائب کا کردار ادا فرمایا۔ غزوہ احد وبدر میں آپؓ اسلامی لشکر کے سالار رہے۔ بعثت کے چھٹے سال سے لے کر 3ہجری تک،اعلان اسلام سے لے کر غزوہ احد میں سید الشہداء کا بلند مقام ملنے تک آپؓ کی پوری حیات مستعار حفاظت مصطفی کریم ﷺ میں بسر ہوئی۔

مسائل اور ان کا حل

باجماعت نماز میں امام کی قرات میں مختلف آیات کا جواب دینے کی شرعی حیثیت سوال :امام صاحب اگرباجماعت نمازمیں اگرایسی آیات تلاوت کریں جس میں دعا کا ذکر ہویااللہ تعالیٰ کی کبریائی بیان ہویاجس میں عذاب الٰہی کا ذکرہواورمقتدی دعاکی صورت میں ’’آمین، سبحان اللہ، یا اعوذ باللہ‘‘ دل میں کہے ،کیاایساکرناجائزہے؟

حکومتی اعتماد میں اضافے کے دلائل

21 اپریل کے ضمنی انتخابات کے بعد حکومت کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ 8 فروری کے انتخابات کے بعد جب مسلم لیگ (ن) اور اس کے اتحادیوں کی حکومت قائم ہو ئی تو شہباز شریف کو ووٹ دینے والوں کو شبہ تھا کہ یہ حکومت زیادہ عرصہ نہیں چل پائے گی کیونکہ مشکل فیصلے کرنے ہوں گے ، معیشت سنبھالنا انتہائی کٹھن ہو گا، بانی پی ٹی آئی کی مقبولیت حکومت کیلئے مسلسل درد سر رہے گی، یہی وجہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے شہباز شریف کو وزارت عظمیٰ کا ووٹ تو دیا مگر اہم ترین اتحادی جماعت وفاقی کابینہ کا حصہ نہیں بنی۔

ضمنی انتخابات کا معرکہ(ن) لیگ نے سر کر لیا

ضمنی انتخابات کے حوالے سے عمومی رائے یہ رہی ہے کہ ان میں حکمران جماعت کو فائدہ ملتا ہے مگر 2018ء کے بعد اس تاثر کو دھچکا لگا ۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اپوزیشن جماعتیں اپنے ووٹرز میں تحریک پیدا کرکے انہیں پولنگ سٹیشنز تک لے آتی تھیں،مگر حالیہ ضمنی انتخابات میں حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) نے ضمنی انتخابات کا معرکہ سر کر لیا۔