ڈیجیٹل مردم شماری،متنازع کیوں؟

توشہ خانہ اس وقت وہ بانسری بن چکی ہے جو خوب بج رہی ہے۔عوام حیران ہیں کہ ایک جانب بڑھتی مہنگائی میں ان کے پاس کھانے کو نہیں ہے اور دوسری جانب ٹی وی پر روزانہ سادگی کا درس دینے والے زیادہ تر سیاستدان توشہ خانہ ’’کلب‘‘ کے ممبر ثابت ہوگئے ہیں۔میڈیا پر مہنگائی سے نمٹنے کی بحث کی بجائے گفتگو یہ چل رہی ہے کہ 12 کروڑ کا زیور کس نے کوڑیوں کے مول خریدا، گاڑی کہاں گئی اور پائن ایپل کس کے حصے میں آیا۔
اس وقت ملکی صورتحال یہ ہے کہ عدالتوں کے فیصلے ہوں یا ریاست کے ،سب کے سب زیر تنقید ہیں، جو یہ ثابت کررہے ہیں کہ ریاست میں اب ’’80 پلس‘‘ والی کابینہ کے باوجود اچھی حکمرانی نام کی کوئی چیز موجود نہیں۔ ملک میں مہنگائی کے زبردست طوفان کا مقابلہ کیسے کرنا ہے،یہ بتانے والا کوئی نہیں۔عوام خود ہی مقابلہ کررہے ہیں اور چیخیں ماررہے ہیں لیکن ان کی چیخیں سننے والا کوئی نہیں۔
ریاست یا حکومت کی رٹ ہر جگہ پر چیلنج ہو رہی ہے۔پسند کے فیصلوں کو قبول کرنا اور مخالف فیصلوں پر واویلہ کرنے کی سیاست نے ملک کو آج اس حال پر پہنچادیا ہے کہ پوری دنیا مذاق اڑا رہی ہے۔حال ہی میں سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے نتائج مذاق بنے ہی تھے کہ اب ڈیجیٹل مردم شماری بھی متنازع ہونا شروع ہوگئی ہے۔سندھ میں بھی مردم شماری 2023ء کیلئے گھر گھر افراد کے اندراج کا کام شروع ہوگیا ہے ۔ مردم شماری میں شناختی کارڈ کا کالم ختم کرنے پر مختلف طبقوں اور صوبوں نے شدید خدشات کا اظہار کیا تھا۔ اس میں سب سے زیادہ خدشات کا اظہار قوم پرست جماعتوں اور پیپلز پارٹی نے کیاتھا ۔ سندھ اسمبلی میں اس حوالے سے 6 مارچ کو قرار داد بھی منظور ہوچکی ہے۔ ان خدشات کے بعد محکمہ شماریات نے شناختی کارڈ یا مساوی قانونی دستاویز کے اندراج کے کالم کا اضافہ کردیا ہے۔
پیپلزپارٹی نے ڈیجیٹل مردم شماری پر خدشات کا اظہار کرتے ہوئے آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ساتویں مردم شماری 2023 ء کے حوالے سے 17 مارچ کو کراچی میں آل پارٹیز کانفرنس میں ایم کیو ایم، جماعت اسلامی، قوم پرست تنظیموں اور دیگر تمام اسٹیک ہولڈرز کو مدعو کیا گیا ہے۔کانفرنس میں ڈیجیٹل مردم شماری پر خدشات پر غور کیا جائے گا۔صوبائی وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن کے مطابق سندھ حکومت نے ڈیجیٹل مردم شماری پر تحفظات سے وفاقی حکومت کو آگاہ کر دیا ہے اور کہا ہے کہ اگر پیپلز پارٹی کے تحفظات دور نہ ہوئے تو ڈیجیٹل مردم شماری کے نتائج تسلیم نہیں کیے جائیں گے۔ سندھ حکومت چاہتی ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کو ڈیجیٹل مردم شماری پر اعتماد ہو اور ایک ایک شخص گنا جائے۔ ہر خاندان کے سربراہ کو پتہ ہو کہ اگر اس نے اپنے خاندان کے 10 افراد لکھوائے ہیں تو وہ ڈیٹا میں شامل ہوگئے ہیں ۔ پیپلز پارٹی نے مطالبہ کیا ہے کہ مردم شماری کا ڈیٹا سندھ حکومت کے ساتھ بھی شیئر کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ڈیجیٹل مردم شماری میں غیر قانونی طور بسنے والوں سمیت تمام لوگوں کو گنا جائے تاکہ درست اعداد سامنے آئیں کہ سندھ میں کتنے لوگ رہتے ہیں اور کتنے وسائل استعمال کر رہے ہیں۔ادھر ساتویں مردم شماری 2023ء کے فارم نمبر 2 میں حکومت سندھ کے اعتراض اور خدشات کے بعد وفاقی ادارہ شماریات نے ملک بھر میں سیلاب متاثرین کے حوالے سے نیا کالم شامل کرنے کا دعویٰ تو کردیا ہے مگر شمار کنندگان کا کہنا ہے کہ ایسا کوئی کالم نہیں مل رہا ۔ مردم شماری ٹیبلٹ اور ویب پورٹل میں کئی خامیوں کی وجہ سے شمار کنندگان کیلئے گھر گھر اندراج انتہائی مشکل ہورہا ہے۔
امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق حال ہی میں کراچی آئے تو انہوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ سندھ اپنی خوش فہمی دور کر لیں، کراچی کا میئر جماعت اسلامی کا ہی بنے گا۔ 358 وارڈز میں جماعت اسلامی نے جیت حاصل کی ہے۔ اس کے باوجود بھی پیپلز پارٹی بضد ہے کہ مئیر جیالا ہوگا۔ پیپلز پارٹی اپنی شکست قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی نے 1970ء میں نتائج تسلیم نہیں کیے جس کی وجہ سے مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہوا تھا۔ پیپلز پارٹی اگر کراچی کے عوام کے فیصلہ کی نفی کرے گی تو صوبے کے سب سے بڑے شہر کراچی کے ساتھ زیادتی کرے گی۔کراچی کے بلدیاتی انتخابات کو دو ماہ گزر گئے ہیں۔ الیکشن کمیشن بتائے کہ ملتوی شدہ 11 نشستوں کے انتخابات کیوں نہیں کروائے جا رہے ہیں۔
سندھ حکومت نے متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کا مطالبہ تسلیم کرتے ہوئے کراچی ڈویژن میں 53 یونین کمیٹیوں کا اضافہ کردیا ہے اور کراچی یوسیز کی تعداد 246 سے بڑھ کر 299 ہوگئی ہیں ۔ نئے نوٹیفیکیشن کا اطلاق آئندہ بلدیاتی انتخابات سے ہوگا ۔ اوسط یوسی آبادی 61ہزار 293سے کم ہوکر51 ہزار429 افراد رہ جائے گی۔ اس فیصلے کو بھی شک کی نظر سے دیکھا جارہا ہے۔جماعت اسلامی نے بھی اس نوٹیفیکیشن پر تنقید کی ہے۔پاکستان تحریک انصاف کراچی کے صدر آفتاب صدیقی نے پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ کراچی میں ہونے والے بلدیاتی الیکشن میں پیپلز پارٹی نے رات کے اندھیرے میں نتائج تبدیل کئے ۔ان کا کہنا ہے کہ اگر جماعت اسلامی کے رہنما نے مئیر بننا ہے تو چیئرمین عمران خان پر تنقید کرنا چھوڑ دیں۔
جائیداد کے معاملے پر لندن کی عدالت کے فیصلے کے بعد ایم کیو ایم پاکستان کافی مسرور دکھائی دے رہی ہے۔پارٹی کے کنوینئر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے اس حوالے سے کہا ہے کہ ایم کیو ایم کو شہداء، اسیر اور لاپتہ ساتھیوں کی امانت واپس مل گئی ہے۔اب یہ پراپرٹی شہداء، اسیراور لاپتہ ساتھیوں کیلئے استعمال ہوگی۔انہوں نے اس فیصلے کو اپنی کامیابی قرار دیاہے تاہم سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ ایم کیو ایم پاکستان کیلئے نیک شگون ثابت نہیں ہوگا کیونکہ ’’لندن‘‘ کی قیادت سے آخری نرم گوشہ چھننے کے بعد وہاں کی ایک اپیل آئندہ عام انتخابات میں ایم کیو ایم پاکستان کو کافی سیاسی نقصان پہنچاسکتی ہے۔