نئی سیاسی ہلچل کی بازگشت

تحریر : عرفان سعید


غیر یقینی ملکی سیاسی صورتحال نے بلوچستان کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، یہی وجہ ہے کہ صوبے کی سیاسی جماعتیں اور رہنما بھی کھل کر اپنے خیالات کااظہار کرنے سے کترارہے ہیں۔ مرکز میں پی ڈی ایم کے اتحاد کو پاکستان تحریک انصاف کے بڑے چیلنج کا سامنا ہے۔

بلوچستان میں پی ڈی ایم کسی بھی صورت میں کسی نئی سیاسی کشمکش کا متحمل نہیں ہونا چاہتی، ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کی نگاہیں اس وقت مرکز کے ساتھ ساتھ پنجاب اور خیبر پختونخوا کی تحلیل شدہ اسمبلیوں میں ہونے والے انتخابات پر مرکوز ہیں۔ تاہم صوبائی حکومت کے مخالف سیاسی حلقے بلوچستان میں بھی نئی سیاسی ہلچل کی آمد کی خبر دے رہے ہیں۔ ان کے مطابق بی این پی مینگل اور جمعیت علماء اسلام دونوں جماعتیں بلوچستان میں وزیراعلیٰ بلوچستان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے کوششیں کر رہی ہیں۔گزشتہ دنوں دبئی میں بی این پی مینگل کے سربراہ سردار اختر مینگل سے ہونے والی چند اہم ملاقاتوں کا بھی حوالہ دیا جارہا ہے ،تاہم بیشتر سیاسی حلقوں کا یہ ماننا ہے کہ اس وقت ملکی سیاسی صورتحال جس نہج پر ہے اس میں بی این پی مینگل اور جمعیت علماء اسلام دونوں پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر اکھٹے ہوتے ہوئے بلوچستان میں سیاسی تبدیلی کی کوشش نہیں کریں گی۔ کیونکہ پنجاب اور کے پی کے کی اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد اگر بلوچستان میں بھی تحریک عدم اعتماد لائی جاتی ہے تو اس کا براہ راست فائدہ پی ڈی ایم کی مخالف جماعت پاکستان تحریک انصاف کو ہوگا ۔

 دبئی میں سردار اختر جان مینگل اپنی اہلیہ کے علاج و معالجے میں مصروف ہیں اور ایسے میں وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو اور سابق وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان سمیت اہم سیاسی شخصیات کی دبئی میں سردار اختر جان مینگل سے ملاقاتیں سیاسی رنگ اختیار کر گئی ہیں۔سیاسی حالات پر گہری نظر رکھنے والوں کا ماننا ہے کہ وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو کے خلاف بلوچستان اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد اگر آئی تو پہلے کی طرح اس بار بھی عبدالقدوس بزنجو اس کا بھرپور مقابلہ کر کے سیاسی مخالفین کو رام کرنے میں کامیاب ہو جائینگے ۔ بلوچستان اسمبلی میں اگرچہ اپوزیشن جماعت جمعیت علماء اسلام (ف) کو موجودہ وزیراعلیٰ بزنجو سے گلے شکوے ہیں اور جمعیت کے پارلیمانی گروپ میں اکثریت کی یہ خواہش بھی تھی کہ بزنجو حکومت کا حصہ بنا جائے لیکن بعض شرائط اور خصوصاً اسپیکر شپ کے معاملے پر وزیراعلیٰ بزنجو اور جے یو آئی کے درمیان ڈیڈ لاک پیدا ہوگیا تھا۔ وزیراعلیٰ بزنجو جو کہ دبئی سے واپس وطن پہنچ گئے ہیں اور گزشتہ چند روز سے کراچی میں موجود ہیں اور کراچی سے ہی حکومتی معاملات چلائے جا رہے ہیں۔دوسری جانب بلوچستان میں سیاسی جماعتوں میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل جاری ہے ،قوم پرست بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی بھی دو دھڑوں میں تقسیم ہوچکی ہے۔ پارٹی کے صدر میر اسرار اللہ زہری اور سیکرٹری جنرل میر اسد اللہ بلوچ نے پارٹی کے الگ الگ قومی کونسل سیشن اور انٹرا پارٹی الیکشن کا انعقاد کرایا ۔

بلوچستان میں جاری وفاقی اسکیموں کے لیے فنڈز کے عدم اجراء پر وزیر اعلیٰ سمیت صوبائی کابینہ کا سخت رد عمل سامنے آیا ہے۔ حکومت بلوچستان نے ایک بار پھر وفاق کی جانب وفاقی پی ایس ڈی پی میں بلوچستان کے بقیہ فنڈز جاری نہ کرنے پر سخت لائحہ عمل اختیار کرنے کا اشارہ دیا ہے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان کی زیر صدارت پی ایس ڈی پی کے جائزہ اجلاس میں بلوچستان کے جاری وفاقی منصوبوں کی سست روی اور فنڈز کے عدم اجراء پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔اجلاس میں بتایا گیا کہ رواں مالی سال بلوچستان میں وفاقی منصوبوں کا تخمینہ 103 ارب روپے ہے،جس کے لیے وفاقی حکومت کی جانب سے 76 ارب جاری ہونے چاہیے تھے لیکن صر ف 31 ارب روپے کا اجراء کیا گیا۔وزیر اعلیٰ بلوچستان کا کہناتھا کہ وفاقی حکومت کی یقین دہانیوں پر اب تک عملدرآمد نہیں ہوا ،صوبے کے حقوق کے تحفظ کے لیے ہر آئینی و قانونی طریقہ کار اپنائیں گے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ بلوچستان اس ملک کا مستقبل ہے جسے نظر انداز کرنے سے نقصان ہو گا۔

 صوبائی حکومت کی جانب سے گوادر کے ماہی گیروں کو لیبر کا درجہ دینے، ان کے لئے رہائشی کالونی اور ہیلتھ کارڈ جیسے دیرینہ مطالبات کی بھی منظوری دے دی گئی ہے۔اس کے علاوہ غیر قانونی ٹرالنگ پر سختی سے عمل درآمد کرانے اور تجارت کے لئے ایران کا بارڈر کھولنے کے حوالے سے بھی معاملات کا جائزہ لیا گیا۔ وزیراعلیٰ کو گوادر شہر کی ترقی کے حوالے سے اعلیٰ سطحی اجلاس میں بتایا گیاکہ ایران سے گوادر کے لئے 100میگا واٹ بجلی کی فراہمی کیلئے ایف ڈبلیو او کے ذر یعے 138کلو میٹر کی نئی ٹرانسمیشن لائن بچھا دی گئی ہے جس سے گوادرکی صنعتی اور گھریلو ضروریات پوری ہوں گی۔ اس سے قبل 75میگا واٹ بجلی گوادر کو فراہم کی جارہی تھی جس میں اب ایران کے تعاون سے 100میگا واٹ اضافہ کیا گیا ہے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے بجٹ کا 25فیصد صرف گوادر کی ڈویلپمنٹ پر خرچ کیا جارہا ہے، بلوچستان حکومت کا خسارہ 1500ارب روپے ہے ۔ ترقیاتی مد میں سالانہ 100ارب روپے ہوتے ہیں جس سے صوبے بھر میں بڑے ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل میں مشکل درپیش ہوتی ہے ۔اس کے باوجود بھی گوادر کو زیادہ فوکس کررہے ہیں۔ وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ حکومت کی کوشش ہوگی کہ گوادر کے عوام کی فلاح و بہبود کیلئے زیادہ سے زیادہ کام کریں۔ 

 

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

آخرت کی زندگی!

قرآن کریم اﷲجل شانہ کی آخری کتاب ہے جو سراپا حق ہے زندگی موت مابعد الموت، زندگی سے پہلے کیا تھا۔ اس زندگی کے بعد کیا ہوگا؟ تمام حقائق کو بڑے واضح آسان اور دل نشیںانداز میں بیان فرماتی ہے، حتمی اور یقینی بات کرتی ہے، جس میں ادنیٰ سا شبہ بھی نہیں۔

اسلام میں یتیموں کے حقوق

’’یتیم‘‘ اُس نابالغ بچے یا بچی کو کہا جاتا ہے کہ جس کے سر پرسے اُس کے باپ کا سایہ اُٹھ گیا ہو۔ اسلام نے مسلمانوں کو یتیم بچوں کے حقوق ادا کرنے اور اُن کے حقوق کی نگہبانی کرنے کی بڑی سختی سے تاکید کی ہے۔ یتیم بچوں کو اپنی آغوش محبت میں لے کر اُن سے پیار کرنا، اُن کو والد کی طرف سے میراث میں ملنے والے مال و اسباب کی حفاظت کرنا، اُن کی تعلیم و تربیت کی فکر کرنا، سن شعور کو پہنچنے کے بعد اُن کے مال و اسباب کا اُن کے حوالے کرنا اور انہیں اِس کا مالک بنانا اور بالغ ہونے کے بعد اُن کی شادی بیاہ کی مناسب فکر کرکے کسی اچھی جگہ اُن کا رشتہ طے کرنا، اسلام کی وہ زرّیں اور روشن تعلیمات ہیں جن کا اُس نے ہر ایک مسلمان شخص کو پابند بنایا ہے۔

سید الشہداء سیدنا حضرت امیر حمزہ ؓ

سید الشہداء سیدنا حضرت امیر حمزہ اسلام کے ان جانثاروں میں سے ہیں جن کی خدمات مینارہ نور اور روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔ جب تک آپؓ حیات رہے آپؓ نے عملی طور پر سرکاردوعالمﷺ کے نائب کا کردار ادا فرمایا۔ غزوہ احد وبدر میں آپؓ اسلامی لشکر کے سالار رہے۔ بعثت کے چھٹے سال سے لے کر 3ہجری تک،اعلان اسلام سے لے کر غزوہ احد میں سید الشہداء کا بلند مقام ملنے تک آپؓ کی پوری حیات مستعار حفاظت مصطفی کریم ﷺ میں بسر ہوئی۔

مسائل اور ان کا حل

باجماعت نماز میں امام کی قرات میں مختلف آیات کا جواب دینے کی شرعی حیثیت سوال :امام صاحب اگرباجماعت نمازمیں اگرایسی آیات تلاوت کریں جس میں دعا کا ذکر ہویااللہ تعالیٰ کی کبریائی بیان ہویاجس میں عذاب الٰہی کا ذکرہواورمقتدی دعاکی صورت میں ’’آمین، سبحان اللہ، یا اعوذ باللہ‘‘ دل میں کہے ،کیاایساکرناجائزہے؟

حکومتی اعتماد میں اضافے کے دلائل

21 اپریل کے ضمنی انتخابات کے بعد حکومت کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ 8 فروری کے انتخابات کے بعد جب مسلم لیگ (ن) اور اس کے اتحادیوں کی حکومت قائم ہو ئی تو شہباز شریف کو ووٹ دینے والوں کو شبہ تھا کہ یہ حکومت زیادہ عرصہ نہیں چل پائے گی کیونکہ مشکل فیصلے کرنے ہوں گے ، معیشت سنبھالنا انتہائی کٹھن ہو گا، بانی پی ٹی آئی کی مقبولیت حکومت کیلئے مسلسل درد سر رہے گی، یہی وجہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے شہباز شریف کو وزارت عظمیٰ کا ووٹ تو دیا مگر اہم ترین اتحادی جماعت وفاقی کابینہ کا حصہ نہیں بنی۔

ضمنی انتخابات کا معرکہ(ن) لیگ نے سر کر لیا

ضمنی انتخابات کے حوالے سے عمومی رائے یہ رہی ہے کہ ان میں حکمران جماعت کو فائدہ ملتا ہے مگر 2018ء کے بعد اس تاثر کو دھچکا لگا ۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اپوزیشن جماعتیں اپنے ووٹرز میں تحریک پیدا کرکے انہیں پولنگ سٹیشنز تک لے آتی تھیں،مگر حالیہ ضمنی انتخابات میں حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) نے ضمنی انتخابات کا معرکہ سر کر لیا۔