نئی سیاسی ہلچل کی بازگشت
غیر یقینی ملکی سیاسی صورتحال نے بلوچستان کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، یہی وجہ ہے کہ صوبے کی سیاسی جماعتیں اور رہنما بھی کھل کر اپنے خیالات کااظہار کرنے سے کترارہے ہیں۔ مرکز میں پی ڈی ایم کے اتحاد کو پاکستان تحریک انصاف کے بڑے چیلنج کا سامنا ہے۔
بلوچستان میں پی ڈی ایم کسی بھی صورت میں کسی نئی سیاسی کشمکش کا متحمل نہیں ہونا چاہتی، ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کی نگاہیں اس وقت مرکز کے ساتھ ساتھ پنجاب اور خیبر پختونخوا کی تحلیل شدہ اسمبلیوں میں ہونے والے انتخابات پر مرکوز ہیں۔ تاہم صوبائی حکومت کے مخالف سیاسی حلقے بلوچستان میں بھی نئی سیاسی ہلچل کی آمد کی خبر دے رہے ہیں۔ ان کے مطابق بی این پی مینگل اور جمعیت علماء اسلام دونوں جماعتیں بلوچستان میں وزیراعلیٰ بلوچستان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے کوششیں کر رہی ہیں۔گزشتہ دنوں دبئی میں بی این پی مینگل کے سربراہ سردار اختر مینگل سے ہونے والی چند اہم ملاقاتوں کا بھی حوالہ دیا جارہا ہے ،تاہم بیشتر سیاسی حلقوں کا یہ ماننا ہے کہ اس وقت ملکی سیاسی صورتحال جس نہج پر ہے اس میں بی این پی مینگل اور جمعیت علماء اسلام دونوں پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر اکھٹے ہوتے ہوئے بلوچستان میں سیاسی تبدیلی کی کوشش نہیں کریں گی۔ کیونکہ پنجاب اور کے پی کے کی اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد اگر بلوچستان میں بھی تحریک عدم اعتماد لائی جاتی ہے تو اس کا براہ راست فائدہ پی ڈی ایم کی مخالف جماعت پاکستان تحریک انصاف کو ہوگا ۔
دبئی میں سردار اختر جان مینگل اپنی اہلیہ کے علاج و معالجے میں مصروف ہیں اور ایسے میں وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو اور سابق وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان سمیت اہم سیاسی شخصیات کی دبئی میں سردار اختر جان مینگل سے ملاقاتیں سیاسی رنگ اختیار کر گئی ہیں۔سیاسی حالات پر گہری نظر رکھنے والوں کا ماننا ہے کہ وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو کے خلاف بلوچستان اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد اگر آئی تو پہلے کی طرح اس بار بھی عبدالقدوس بزنجو اس کا بھرپور مقابلہ کر کے سیاسی مخالفین کو رام کرنے میں کامیاب ہو جائینگے ۔ بلوچستان اسمبلی میں اگرچہ اپوزیشن جماعت جمعیت علماء اسلام (ف) کو موجودہ وزیراعلیٰ بزنجو سے گلے شکوے ہیں اور جمعیت کے پارلیمانی گروپ میں اکثریت کی یہ خواہش بھی تھی کہ بزنجو حکومت کا حصہ بنا جائے لیکن بعض شرائط اور خصوصاً اسپیکر شپ کے معاملے پر وزیراعلیٰ بزنجو اور جے یو آئی کے درمیان ڈیڈ لاک پیدا ہوگیا تھا۔ وزیراعلیٰ بزنجو جو کہ دبئی سے واپس وطن پہنچ گئے ہیں اور گزشتہ چند روز سے کراچی میں موجود ہیں اور کراچی سے ہی حکومتی معاملات چلائے جا رہے ہیں۔دوسری جانب بلوچستان میں سیاسی جماعتوں میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل جاری ہے ،قوم پرست بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی بھی دو دھڑوں میں تقسیم ہوچکی ہے۔ پارٹی کے صدر میر اسرار اللہ زہری اور سیکرٹری جنرل میر اسد اللہ بلوچ نے پارٹی کے الگ الگ قومی کونسل سیشن اور انٹرا پارٹی الیکشن کا انعقاد کرایا ۔
بلوچستان میں جاری وفاقی اسکیموں کے لیے فنڈز کے عدم اجراء پر وزیر اعلیٰ سمیت صوبائی کابینہ کا سخت رد عمل سامنے آیا ہے۔ حکومت بلوچستان نے ایک بار پھر وفاق کی جانب وفاقی پی ایس ڈی پی میں بلوچستان کے بقیہ فنڈز جاری نہ کرنے پر سخت لائحہ عمل اختیار کرنے کا اشارہ دیا ہے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان کی زیر صدارت پی ایس ڈی پی کے جائزہ اجلاس میں بلوچستان کے جاری وفاقی منصوبوں کی سست روی اور فنڈز کے عدم اجراء پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔اجلاس میں بتایا گیا کہ رواں مالی سال بلوچستان میں وفاقی منصوبوں کا تخمینہ 103 ارب روپے ہے،جس کے لیے وفاقی حکومت کی جانب سے 76 ارب جاری ہونے چاہیے تھے لیکن صر ف 31 ارب روپے کا اجراء کیا گیا۔وزیر اعلیٰ بلوچستان کا کہناتھا کہ وفاقی حکومت کی یقین دہانیوں پر اب تک عملدرآمد نہیں ہوا ،صوبے کے حقوق کے تحفظ کے لیے ہر آئینی و قانونی طریقہ کار اپنائیں گے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ بلوچستان اس ملک کا مستقبل ہے جسے نظر انداز کرنے سے نقصان ہو گا۔
صوبائی حکومت کی جانب سے گوادر کے ماہی گیروں کو لیبر کا درجہ دینے، ان کے لئے رہائشی کالونی اور ہیلتھ کارڈ جیسے دیرینہ مطالبات کی بھی منظوری دے دی گئی ہے۔اس کے علاوہ غیر قانونی ٹرالنگ پر سختی سے عمل درآمد کرانے اور تجارت کے لئے ایران کا بارڈر کھولنے کے حوالے سے بھی معاملات کا جائزہ لیا گیا۔ وزیراعلیٰ کو گوادر شہر کی ترقی کے حوالے سے اعلیٰ سطحی اجلاس میں بتایا گیاکہ ایران سے گوادر کے لئے 100میگا واٹ بجلی کی فراہمی کیلئے ایف ڈبلیو او کے ذر یعے 138کلو میٹر کی نئی ٹرانسمیشن لائن بچھا دی گئی ہے جس سے گوادرکی صنعتی اور گھریلو ضروریات پوری ہوں گی۔ اس سے قبل 75میگا واٹ بجلی گوادر کو فراہم کی جارہی تھی جس میں اب ایران کے تعاون سے 100میگا واٹ اضافہ کیا گیا ہے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے بجٹ کا 25فیصد صرف گوادر کی ڈویلپمنٹ پر خرچ کیا جارہا ہے، بلوچستان حکومت کا خسارہ 1500ارب روپے ہے ۔ ترقیاتی مد میں سالانہ 100ارب روپے ہوتے ہیں جس سے صوبے بھر میں بڑے ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل میں مشکل درپیش ہوتی ہے ۔اس کے باوجود بھی گوادر کو زیادہ فوکس کررہے ہیں۔ وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ حکومت کی کوشش ہوگی کہ گوادر کے عوام کی فلاح و بہبود کیلئے زیادہ سے زیادہ کام کریں۔