نگران حکومت اور بیوروکریسی میں بڑھتی تلخیاں

تحریر : عابد حمید


خیبرپختونخوا میں تجربات کا سلسلہ جاری ہے ،نیا تجربہ موجودہ نگران حکومت کی شکل میں کیاگیا جس میں صوبہ مکمل طورپر جے یو آئی کے حوالے کردیاگیا۔

 انہی تجربات کا نتیجہ ہے کہ محض ڈیڑھ ماہ کے اندر دوسرا چیف سیکرٹری تبدیل ہوگیا ہے۔سابق چیف سیکرٹری امداداللہ بوسال کو تبدیل کرکے وزیراعظم سیکرٹریٹ میں تعینات ایڈیشنل سیکرٹری ندیم اسلم چوہان کو چیف سیکرٹری خیبرپختونخوا تعینات کردیاگیا ہے۔ ذرائع کے مطابق امداداللہ بوسال پر بیوروکریسی میں من پسند تبادلوں اور تعیناتیوں کیلئے کافی دباؤ تھا ۔موجودہ نگران حکومت اورایک آئینی شخصیت بہت سے اعلیٰ افسروں کو کھڈے لائن کرنا چاہتی تھی جس کی راہ میں سابق چیف سیکرٹری مزاحم تھے ۔ اس سے قبل نگران وزیراعلیٰ کے مستعفی ہونے کی خبریں بھی گرم تھیں لیکن گورنر خیبرپختونخوا نے ان خبروں کی تردید کردی تھی تاہم یہ بات بہت حد تک درست ہے کہ گورنر ہاؤس اوروزیراعلیٰ ہاؤس کے مابین افسروں کے تبادلوں کے حوالے سے معاملات کچھ زیادہ اچھے نہیں ہیں۔جے یو آئی کی ایک اور اہم شخصیت بھی من پسند افسروں کی تعیناتی چاہتی ہے ،ایک نگران وزیرکی جانب سے یہ بیان بھی دیاگیاہے کہ صوبے میں افسر شاہی پی ٹی آئی کی لگائی ہوئی ہے اور وہ ان کے وفادار ہیں۔یہ بات کافی حیران کن ہے، جس وزیرموصوف نے یہ بات کی ہے کہ وہ خود ماضی میں پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ چکے ہیں۔ ان کی وفاداری پیپلزپارٹی کے ساتھ رہی ہے لیکن اب وہ خود کو غیرجانبدار کہلانے پر مصر ہیں ۔

وہ سرکاری افسر جنہوں نے کسی بھی جماعت کا حلف نہیں لیا ان پر جانبداری کا الزام لگایاجارہا ہے ،یہ نگران کابینہ کی کم فہمی اورناعاقبت اندیشی ہی ہے کہ وہ بیوروکریسی کو خود ہی ایسے بیانات دے کر اپنے خلاف کررہی ہے۔انتہائی اہم ذرائع کے مطابق اس وقت بیوروکریسی نگران صوبائی حکومت سے نہ صرف سخت ناراض ہے بلکہ نالاں بھی ہے ۔ نگران وزراء جن کے اختیارات کافی محدود اورتجربہ نہ ہونے کے برابر ہے وہ بیوروکریسی کو اپنے طریقے سے چلانا چاہتے ہیں ۔بیشتر وزراء محکموں میں اپنی مرضی کے سیکرٹریز کی تعیناتی کے خواہاں ہیں، افسروں کے تبادلوں اور تعیناتیوں کی لسٹیں بن چکی ہیں لیکن ان فہرستوںکی راہ میں حالیہ تبدیل ہونے والے چیف سیکرٹری رکاوٹ بنے ہوئے تھے۔ اب ان کے جانے کے بعد افسرشاہی میں بڑے پیمانے پر تبادلوں اور تعیناتیوں کے ریلے کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔سیاسی اور انتظامی امور پرایک جمود سا طاری ہے ۔تمام کام رکے ہوئے ہیںنچلا سرکاری عملہ بھی پریشان ہے، نگران وزراء کی فرمائشیں ہیں کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہیں۔بیوروکریسی اس وقت شدید ذہنی دباو ٔکا شکار ہے۔ اگرآئندہ چند دنوں میں حالات بہتر نہ ہوئے توبڑے پیمانے پر بیوروکریسی میں آوازیں اٹھنے کا خدشہ ظاہر کیاجارہا ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ موجودہ چیف سیکرٹری یہ دباؤ کتنا برداشت کرسکتے ہیں۔

 نگران صوبائی حکومت بھی انتخابات کے انعقاد سے زیادہ سابق حکومت کے احتساب میں دلچسپی لے رہی ہے۔ اس کا اندازہ گزشتہ روز نگران صوبائی وزیراطلاعات کی پریس کانفرنس سے بھی کیاجاسکتا ہے جس میں انہوں نے الزام عائد کیاکہ پی ٹی آئی کی سابق حکومت نے سوشل میڈیا انفلوئنسرز کو ہائیر کیا اور انہیں کروڑوں روپے سرکاری خزانے سے دے رہے ہیں۔ یہ لوگ گھر بیٹھے پی ٹی آئی کی تشہیر کررہے ہیں۔ذرائع کا کہناہے کہ نگران حکومت گزشتہ حکومت کی مبینہ بے قاعدگیوں یامبینہ کرپشن کی تحقیقات کے حوالے سے نیب کو خط لکھ سکتی ہے لیکن کیا اس کا اختیار نگران حکومت کو حاصل ہے؟یہ الگ سوال ہے ۔پی ٹی آئی کی جانب سے خیبرپختونخوا میں نگران حکومت کو پی ڈی ایم کی بی ٹیم کہاجارہا ہے ۔اگرنگران حکومت پی ڈی ایم کی بی ٹیم ہے تو اس کا سہرا خود پی ٹی آئی کے سرہی بندھتا ہے، یہ پرویزخٹک ہی تھے جنہوں نے سابق وزیراعلیٰ محمود خان کو نگران وزیراعلیٰ کیلئے محمد اعظم خان کے نام پر دستخط کرنے کی ہدایت کی تھی اور محمود خان نے ایسا ہی کیاتھا ۔ ابھی تک نگران وزیراعلیٰ غیر جانبدار ہی نظر آرہے ہیں اور ان کی جانب سے ایسا کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے جس سے ظاہر ہو کہ وہ کسی ایک جماعت کے ساتھ ہیں لیکن ان کی کابینہ کے ارکان کامعاملہ مختلف ہے ۔

دوسری جانب سینئر صحافیوں سے ہونے والی ملاقات میں گورنر غلام علی کی گفتگو سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ فوری انتخابات میں دلچسپی لیتے نظر نہیں آرہے۔ اس حوالے سے انہوں نے الیکشن کمیشن کو دوبارہ ایک خط بھی لکھا ہے جس میں کہاگیا ہے کہ خیبرپختونخوا میں امن وامان کی صورتحال بہتر نہیں، آئے روز دہشتگردی کے واقعات رونما ہورہے ہیں ۔ایک بریگیڈیئر بھی شہید ہوچکا ہے، لہٰذا پنجاب کی طرح خیبرپختونخوا میں بھی انتخابات کو ملتوی کیاجائے اور اکتوبر میں دونوں صوبوں میں ایک ہی دن الیکشن کروائے جائیں ۔ گورنر خیبرپختونخوا کا کہناہے کہ سپریم کورٹ کے حکم پر وہ بہر صورت عملدرآمد کریں گے لیکن ساتھ میں امن وامان کی صورتحال کو بھی دیکھیں گے یہ بھی دیکھنا ہو گاکہ الیکشن کے انعقاد کیلئے نگران صوبائی حکومت کی کون کون سی ضروریات،تحفظات اور مطالبات ہیں۔ گورنر خیبرپختونخوا حاجی غلام علی کے مطابق وہ چاہتے تھے کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا کے انتخابات ایک ہی دن ہوں۔ اس سلسلے میں انہوں نے صدر مملکت سے بات بھی کی جس پر انہوں نے ان کی اس تجویز کو سراہا لیکن صرف چند گھنٹے بعد ہی پنجاب میں انتخابات کی تاریخ دے دی گئی۔ گورنرخیبرپختونخوا کے دعوے کے مطابق صدر ملک کا سب سے بڑاآئینی عہدہ ہے ۔ اس کے بعد گورنر کے عہدے کا نمبر آتا ہے جبکہ الیکشن کمیشن آئینی ادارہ ہے ،وہ چاہتے تھے کہ یہ دونوں آئینی عہدے دار اور ادارہ مل بیٹھ کر اس کا کوئی حل نکالیں ۔

 اگردیکھا جائے تو یہ کوئی نئی بات نہیں 2007ء سے 2013ء تک دہشتگرد ان علاقوں پر مکمل طورپر قابض تھے لیکن انتخابات پھر بھی منعقد ہوتے رہے ۔اب تو ان علاقوں سے دہشتگردوں کا صفایاکردیاگیا ہے اگرچہ جنوبی وزیرستان میں ایک انتہائی افسوسناک واقعہ پیش آیا ہے جس میں ایک اعلیٰ سرکاری افسر کی شہادت ہوئی ہے تاہم امن وامان کی صورتحال پھر بھی کنٹرول میں ہی ہے۔ 

 

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

آخرت کی زندگی!

قرآن کریم اﷲجل شانہ کی آخری کتاب ہے جو سراپا حق ہے زندگی موت مابعد الموت، زندگی سے پہلے کیا تھا۔ اس زندگی کے بعد کیا ہوگا؟ تمام حقائق کو بڑے واضح آسان اور دل نشیںانداز میں بیان فرماتی ہے، حتمی اور یقینی بات کرتی ہے، جس میں ادنیٰ سا شبہ بھی نہیں۔

اسلام میں یتیموں کے حقوق

’’یتیم‘‘ اُس نابالغ بچے یا بچی کو کہا جاتا ہے کہ جس کے سر پرسے اُس کے باپ کا سایہ اُٹھ گیا ہو۔ اسلام نے مسلمانوں کو یتیم بچوں کے حقوق ادا کرنے اور اُن کے حقوق کی نگہبانی کرنے کی بڑی سختی سے تاکید کی ہے۔ یتیم بچوں کو اپنی آغوش محبت میں لے کر اُن سے پیار کرنا، اُن کو والد کی طرف سے میراث میں ملنے والے مال و اسباب کی حفاظت کرنا، اُن کی تعلیم و تربیت کی فکر کرنا، سن شعور کو پہنچنے کے بعد اُن کے مال و اسباب کا اُن کے حوالے کرنا اور انہیں اِس کا مالک بنانا اور بالغ ہونے کے بعد اُن کی شادی بیاہ کی مناسب فکر کرکے کسی اچھی جگہ اُن کا رشتہ طے کرنا، اسلام کی وہ زرّیں اور روشن تعلیمات ہیں جن کا اُس نے ہر ایک مسلمان شخص کو پابند بنایا ہے۔

سید الشہداء سیدنا حضرت امیر حمزہ ؓ

سید الشہداء سیدنا حضرت امیر حمزہ اسلام کے ان جانثاروں میں سے ہیں جن کی خدمات مینارہ نور اور روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔ جب تک آپؓ حیات رہے آپؓ نے عملی طور پر سرکاردوعالمﷺ کے نائب کا کردار ادا فرمایا۔ غزوہ احد وبدر میں آپؓ اسلامی لشکر کے سالار رہے۔ بعثت کے چھٹے سال سے لے کر 3ہجری تک،اعلان اسلام سے لے کر غزوہ احد میں سید الشہداء کا بلند مقام ملنے تک آپؓ کی پوری حیات مستعار حفاظت مصطفی کریم ﷺ میں بسر ہوئی۔

مسائل اور ان کا حل

باجماعت نماز میں امام کی قرات میں مختلف آیات کا جواب دینے کی شرعی حیثیت سوال :امام صاحب اگرباجماعت نمازمیں اگرایسی آیات تلاوت کریں جس میں دعا کا ذکر ہویااللہ تعالیٰ کی کبریائی بیان ہویاجس میں عذاب الٰہی کا ذکرہواورمقتدی دعاکی صورت میں ’’آمین، سبحان اللہ، یا اعوذ باللہ‘‘ دل میں کہے ،کیاایساکرناجائزہے؟

حکومتی اعتماد میں اضافے کے دلائل

21 اپریل کے ضمنی انتخابات کے بعد حکومت کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ 8 فروری کے انتخابات کے بعد جب مسلم لیگ (ن) اور اس کے اتحادیوں کی حکومت قائم ہو ئی تو شہباز شریف کو ووٹ دینے والوں کو شبہ تھا کہ یہ حکومت زیادہ عرصہ نہیں چل پائے گی کیونکہ مشکل فیصلے کرنے ہوں گے ، معیشت سنبھالنا انتہائی کٹھن ہو گا، بانی پی ٹی آئی کی مقبولیت حکومت کیلئے مسلسل درد سر رہے گی، یہی وجہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے شہباز شریف کو وزارت عظمیٰ کا ووٹ تو دیا مگر اہم ترین اتحادی جماعت وفاقی کابینہ کا حصہ نہیں بنی۔

ضمنی انتخابات کا معرکہ(ن) لیگ نے سر کر لیا

ضمنی انتخابات کے حوالے سے عمومی رائے یہ رہی ہے کہ ان میں حکمران جماعت کو فائدہ ملتا ہے مگر 2018ء کے بعد اس تاثر کو دھچکا لگا ۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اپوزیشن جماعتیں اپنے ووٹرز میں تحریک پیدا کرکے انہیں پولنگ سٹیشنز تک لے آتی تھیں،مگر حالیہ ضمنی انتخابات میں حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) نے ضمنی انتخابات کا معرکہ سر کر لیا۔