نئی آئینی بحث کا آغاز!
1997ء کے بعد ایک مرتبہ پھرپاکستان مسلم لیگ (ن) اورسپریم کورٹ کے درمیان محاذ آرائی دیکھنے میں آرہی ہے ۔ زہر آلود سیاسی ماحول نے اداروں کو اپنی لپیٹ میں لینا شروع کر دیا ہے۔
درجن بھر جماعتوں پر مشتمل حکومت ہو یا ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت پاکستان تحریک انصاف ،ہر فریق آئین اور قانون کی اپنی اپنی تشریح کر رہا ہے۔ ایک فریق کی نظر میں انتخابات ہی ملک کو موجودہ سیاسی اور معاشی بحران سے نکال سکتے ہیں تو دوسرا فریق کہتا ہے کہ موجودہ صورتحال میں انتخابات بحران کو بڑھاوا دینگے ۔ ایک فریق کی نظر میں انتخابات 90 روز میں نہ کرانا آئین توڑنے کے مترادف ہے تو دوسرے فریق کے مطابق ملک بھر میں نگران حکومتوں کی عدم موجودگی میں انتخابات کرانا غیر آئینی اور ایک سے زائد مراحل میں انتخابات کے انعقاد کا بوجھ ملک کی سسکتی معیشت کیلئے تباہ کن ہے۔
سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کے عام انتخابات کرانے کا حکم دیا تو اس پر عملدرآمد کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے کیلئے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے ایسے عذر پیش کئے گئے جن کی مثال نہیں ملتی ۔ حیران کن طور پر الیکشن کمیشن نے یہ عذر تسلیم بھی کر لیے اور آٹھ مارچ کو جاری کیا گیا اپنا ہی شیڈول منسوخ کر دیا۔ گورنر خیبر پختونخوا نے بھی سپریم کورٹ کے واضح حکم کے باوجود انتخابات کی فوری تاریخ دینے سے انکار کر دیا۔ الیکشن کمیشن اور گورنر خیبر پختونخوا کے فیصلے کے بعد تحریک انصاف نے ایک مرتبہ پھر عدالت عظمیٰ سے رجوع کیا۔ عدالت نے تحریک انصا ف کی درخواست کو سننا شروع کیا تو حکومت نے چیف جسٹس کے ازخود نوٹس لینے کے اختیارات کم کرنے کیلئے قانون سازی کی ٹھان لی۔ انتخابات کے معاملے پر سپریم کورٹ کے اندر سے اختلاف رائے بھرپور طریقے سے سامنے آیا۔ یکم مارچ کو فیصلہ دینے والے پانچ رکنی بینچ کے دو اراکین جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندو خیل کے اختلافی نوٹ نے نئی بحث چھیڑ دی۔ انتخابات کرانے کیلئے عدالت عظمیٰ کے یکم مارچ کے فیصلے کو تین دو کے فیصلے کی بجائے چار تین کا فیصلہ قرار دیا گیا کیونکہ 22 فروری کو بننے والا ابتدائی بینچ 9 رکنی تھا ۔ اختلافی نوٹ کے مطابق جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ کو ان کی مرضی کے بغیر بینچ سے الگ کیا گیا جس کی قانون اجازت نہیں دیتا۔ان دونوں جج صاحبان کے اختلافی نوٹ کو جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل کے اختلافی نوٹ سے ملا یا جائے تو یہ چار ججز کا فیصلہ بنتا ہے جس کے مطابق سپریم کورٹ میں انتخابات کا یہ معاملہ ناقابل سماعت ہے۔
حکومت نے اٹارنی جنرل کے ذریعے یہ مؤقف چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں نئے پانچ رکنی لارجر بینچ کے سامنے رکھا جو الیکشن سے متعلق تحریک انصاف کی درخواست کی سماعت کر رہا ہے۔ موجودہ بینچ نے چار تین سے متعلق حکومتی مؤقف کو مسترد کر دیا۔ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل کے 27 صفحات پر مشتمل اختلافی فیصلے میں چیف جسٹس آف پاکستان کے ازخود نوٹس لینے کے اختیار کو ون مین شو قرار دیتے ہوئے اس پر نظر ثانی کی تجویز دے دی گئی۔ اختلافی فیصلے میں کہا گیا کہ عدالتیں ایک تنہا شخص چیف جسٹس آف پاکستان کے فیصلوں کی محتاج نہیں ہو سکتیں۔ از خود نوٹس ، ریگولر و خصوصی بینچ کی تشکیل رولز کی بنیاد پر ایک سسٹم کے تحت ہونی چاہئے۔ جہاں عدلیہ میں بڑھتی تقسیم پر سیاسی قیادت نے فائدہ اٹھانا شروع کیا ہے ، پاکستان بار کونسل کی جانب سے اس تقسیم پر شدید تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ بار کونسل کے اعلامیے میں کہا گیا کہ الیکشن سے متعلق معاملے پر فل کورٹ بنایا جائے ،فل کورٹ ملک اور عوام کو انارکی سے بچانے کیلئے آئین کی تشریح کرے۔ اختلافی فیصلہ پبلک ہونے کے چند گھنٹوں بعد اچانک حکومت کو عدالتی اصلاحات یاد آئیں اور عدالتی اصلاحات کے نام پر قانون سازی کیلئے بل نے ہفتوں کا سفر منٹوں میں طے کیا۔ ازخود نوٹس کے اختیارات کو محدود کرنے کے بل کو سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا نام دیا گیا۔ مجوزہ بل میں کہا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل ایک سو چوراسی تین کے تحت کوئی بھی کیس تین ججز پر مشتمل کمیٹی کے سامنے رکھا جائے گا جو اس کے قابل سماعت ہونے کا فیصلہ کرے گی۔ از خود نوٹس کیس کے فیصلے کے خلاف اپیل کا حق بھی تجویز کیا گیا ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان کے ازخود نوٹس لینے کے اختیار کے طریقہ کار پر آئین اور قانون خاموش ہے مگر آئین کے آرٹیکل 191کے تحت سپریم کورٹ کی پریکٹس اور پروسیجر سے متعلق رولز بنانا صرف سپریم کورٹ آف پاکستان کا اختیار ہے۔ چنانچہ حکومت کی جانب سے چیف جسٹس آف پاکستان کے اختیارات کو ریگولیٹ کرنے کیلئے قانون سازی عدلیہ کیساتھ کھلی محاذ آرائی دکھائی دیتی ہے۔ یہ قانون منظور ہو بھی گیا تو مستقبل میں یہ معاملہ سپریم کورٹ آف پاکستان میں آسکتا ہے۔ ماضی میں سپریم کورٹ کئی ایسے قوانین کالعدم قرار دے چکی ہے جو آئین پاکستان سے متصادم تھے۔صرف یہی نہیں قومی اسمبلی میں عدلیہ کے خلاف قرار داد متفقہ طور پر منظور کرلی گئی جس میں سپریم کورٹ سے الیکشن کے معاملے میں مداخلت نہ کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ قرار داد میں کہا گیا کہ سیاسی عدم استحکام کی بڑی وجہ سیاسی معاملات میں عدلیہ کی بے جا مداخلت ہے ، عدلیہ سیاسی و انتظامی معاملات میں مداخلت سے گریز کرے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ تمام اسمبلیوں کے انتخابات بیک وقت غیر جانبدارانہ نگران حکومتوں کے تحت ہونے چاہئیں تاکہ حقیقی سیاسی استحکام کی جانب بڑھا جا سکے۔
انتخابات کے معاملے پر صدر مملکت اور وزیراعظم پاکستان کی خط و کتابت نے بھی رہی سہی کسر نکال دی۔ صدر مملکت نے وزیر اعظم کے نام خط میں کہا کہ توہین عدالت سمیت مزید پیچیدگیوں سے بچنے کیلئے وزیر اعظم پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات کیلئے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے حکام کو معاونت کی ہدایات جاری کریں اور ملک میں جاری انسانی حقوق کی پامالیوں کو روکا جائے۔وزیراعظم شہباز شریف نے جواب میں صدر مملکت کے خط کو پاکستان تحریک انصا ف کی پریس ریلیز قرار دیتے ہوئے کہا کہ عارف علوی کاخط صدر کے آئینی منصب کا آئینہ دار نہیں، یہ یکطرفہ اور حکومت مخالف خیالات کا حامل ہے۔موجودہ آئینی اور سیاسی بحران میں عدالت عظمیٰ دو مرتبہ سیاسی قیادت کو یہ موقع فراہم کر چکی ہے کہ انتخابات کا معاملہ مل بیٹھ کر سیاسی طریقے سے حل کیا جائے مگر نہ تو حکومت نہ ہی پاکستان تحریک انصاف اس معاملے پر درمیانی راستہ نکالنے کو تیار ہیں۔