فضائل صحابہ کرام ؓ قرآن و سنت کی روشنی میں
اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو جو مقام و مرتبہ عطا فرمایا ہے اس مقام تک امت کے باقی افراد عبادتیں، ریاضتیں اور محنتیں کر کے بھی کبھی نہیں پہنچ سکتے۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مقام و مرتبے کوقرآن و سنت اور اجماع امت میں بہت خوبصورت انداز میں ذکر کیا گیا ہے، اسی پر ہمارا ایمان ہے۔ اگر کسی تاریخی روایت سے ان کے مقام و مرتبے میں ذرہ برابر بھی کمی آئے تو ہم قرآن و سنت اور اجماع امت کے مقابلے میں ایسی تاریخی روایت کو کسی صورت تسلیم نہیں کرتے کیونکہ یہ ہمارے ایمان کا مسئلہ ہے۔
صحابی کی تعریف:امام احمد بن علی بن حجر العسقلانی ؒ فرماتے ہیں:ہر اس شخص کو صحابی کہتے ہیں جو نبی کریمﷺسے ایمان کی حالت میں ملے اور حالتِ اسلام ہی پر فوت ہو(نزہۃ النظر شرح نخبۃ الفکر،ص:133)۔صحابی کیلئے رسول اللہ ﷺ سے محض ملاقات کافی ہے یہ ضروری نہیں کہ وہ آپﷺکو دیکھے، آپﷺ کی بات کو سنے اور آپﷺسے گفتگو کرے۔ جو شخص رسول اللہ ﷺکی محفل میں ایمان کی حالت میں شریک ہو جائے وہ’’صحابی‘‘ کہلاتا ہے۔
ذیل میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے اہلِ اسلام کے چند عقائد درج کیے جاتے ہیں۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین پکے سچے مومن ہیں۔ قرآن کریم میں اللہ رب العزت فرماتے ہیں: ’’اور جو لوگ (اوّل)مسلمان ہوئے اور انہوں نے(ہجرت نبویہ کے زمانہ میں) ہجرت کی اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرتے رہے اور جن لوگوں نے(ان مہاجرین کو) اپنے یہاں ٹھہرایا اور ان کی مدد کی یہی پکے مومن ہیں ان کیلئے(آخرت میں)بڑی مغفرت اور( جنت میں) بڑی معزز روزی ہے‘‘۔
سابق مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع عثمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ’’آیت میں مکہ سے ہجرت کرنے والے صحابہ، ان کی مدد کرنے والے انصارِ مدینہ کی تعریف و ثنا ان کے سچا مسلمان ہونے کی شہادت،ان سے مغفرت اور باعزت روزی کا وعدہ مذکور ہے‘‘(تفسیر معارف القرآن)
صحابہ کرام ؓ کے عادل ہونے کا معنی یہ ہے کہ ان میں شریعت کے متعلق گواہی دینے کی اہلیت موجود ہے اور ان کی بات کو سچی گواہی کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ دین اسلام کا مدار انہی کی روایات، مرویات اور شہادات پر ہے اور ان کی روایات و شہادات کا انحصار ان کی ذات کے عادل ہونے پر ہے۔ انہیں سچا اور عادل تسلیم کرنے سے دین بچتا ہے اور تسلیم نہ کرنے سے سارا دین بے بنیاد اور باطل ٹھہرتا ہے۔
امام ابو عبداللہ محمد بن احمد بن ابی بکر القرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ’’تمام صحابہ کرام ؓ عادل ہیں، اللہ تعالیٰ کے محبوب اور ولی ہیں، اللہ کے ہاں ان کا بہت بلند مقام ہے۔ انبیاء اور رسل علیہم السلام کے بعد ساری مخلوق میں سب سے زیادہ بہتر اور اچھے انسان ہیں۔ یہ اھل السنۃ کا مذہب ہے جس پر اس امت کے اہل علم کی جماعت متفق ہے‘‘(تفسیر القرطبی، تحت سورۃ الفتح)
صحابہ کرام ؓکے محفوظ ہونے کا معنی یہ ہے کہ اگر ان میں سے کسی ایک سے بشری تقاضوں کے مطابق کبھی کوئی گناہ ہو جائے تو اللہ تعالیٰ ان کے ذمے میں وہ گناہ باقی نہیں رہنے دیتے یعنی دنیا میں اس گناہ سے معافی اور اس گناہ کی وجہ سے ملنے والے اُخروی عذاب سے ان کو محفوظ فرمالیتے ہیں۔ قرآن کریم میں اللہ رب العزت ارشاد فرماتے ہیں: ’’اور اللہ تعالیٰ نے تم سے اپنا وعدہ سچ کر دکھلایا جب تم اللہ کے حکم سے ان (کافروں )کو قتل کرنے لگے یہاں تک کہ جب تم بے ہمت ہو گئے اور ایک معاملہ میںآپس میں جھگڑا بھی کیا اور تم اس بارے پیغمبر کے حکم کی خلاف ورزی کر بیٹھے۔ اس کے بعد اللہ نے تمہیں وہ چیز(میدانِ جنگ میں فتح، دشمن پر غلبہ اور اس سے حاصل ہونے والا مالِ غنیمت) دکھا دی جو تم پسند کرتے تھے۔ تم میں سے کچھ ایسے ہیں جو دنیا(کے اسباب یعنی مال غنیمت ) کا ارادہ کرتے ہیں اور بعض ایسے ہیں جو آخرت(کے ثواب)کا ارادہ کرتے ہیں۔پھر اللہ تعالیٰ نے تمہیں آزمائش میں ڈالنے کیلئے ان سے پھیر دیا ، پکی بات ہے کہ اللہ نے تمہیں معاف فرما دیا ہے اور وہ اہل ایمان پر فضل فرمانے والا ہے‘‘ (سورہ آل عمران: 152)
اللہ تعالیٰ دوسرے مقام پر ان کی معافی کا یوں اعلان فرماتے ہیں: ’’دو فوجوں کی باہمی لڑائی(غزوہ اُحد) والے دن جو لوگ تم میں سے پیچھے ہٹ گئے، شیطان نے انہیں اُن کے بعض (پہلے والے) گناہوں کی وجہ سے بہکایا۔ یقیناً اللہ تعالیٰ نے اُنہیں اس کی بھی معافی دے دی۔ بیشک اللہ تعالیٰ کی ذات بخشنے والی اور بردبار ہے (سورہ آل عمران: 155)
ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ان پر مہربانی کا یوں ذکر فرماتے ہیں: ’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم اور مشکل وقت میں ان کا ساتھ دینے والے مہاجرین و انصار پر نظر رحمت فرمائی وہ ایسا مشکل وقت تھا کہ جب یہ اندیشہ ہونے لگا کہ ان میں سے ایک گروہ کے دل ڈگمگا جائیںگے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے حال پر مہربانی فرمائی یقینا ًوہ ذات ان کے لیے بہت شفیق اور مہربان ہے۔ (سورۃ التوبۃ، رقم الآیۃ:117)
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے انبیاء و رسل علیہم السلام کے علاوہ تمام عالَم سے میرے صحابہ کو پسند فرمایا اور بطور خاص میرے لیے چار صحابہ کوپسند فرمایا یعنی ابوبکر، عمر، عثمان اور علی (رضی اللہ عنہم)،اوران کو میرا بہترین ساتھی بنایا اور میرے تمام صحابہ میں خیر ہی خیر رکھ دی (اصول السنۃ لابن ابی زمنین:191)
اللہ تعالیٰ ہمیں تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سچی محبت، اطاعت اور عقیدت عطا فرمائے، ان کے نقشِ قدم پر چلائے اور قیامت والے دن ہمارا حشر انہی مقدس شخصیات کے ساتھ فرمائے۔آمین
مولانا محمد الیاس گھمن معروف عالم ِ دین اور دو درجن سے زائد کتب کے مصنف ہے