غزوہ بدر یوم الفرقان

تحریر : مولانا رضوان اللہ پشاوری


یہ نبوت کا پندرھواں سال تھا جب تاریخ اسلام کا فیصلہ کن مرحلہ، حق اور باطل کی کھلی جنگ ’’غزوہ بدر‘‘ کے نام سے لڑی گئی۔’’ غزوہ بدر‘‘ کو دیگر غزوات پر کئی اعتبار سے فوقیت حاصل ہے۔ اسے کفرواسلام کا پہلا معرکہ ہونے کا شرف حاصل ہے۔ خود حضور اکرمﷺ نے غزوہ بدر کو ایک فیصلہ کن معرکہ قراردیا اور قرآن مجید نے اسے ’’یوم الفرقان‘‘ سے تعبیرکرکے اس کی اہمیت پر مہرتصدیق ثبت کردی۔

 فرمایا ’’جو ہم نے اپنے ( برگزیدہ) بندے پر (حق و  باطل کے درمیان) فیصلے کے دن نازل فرمائی وہ دن (جب بدر میں مومنوں اور کافروں کے) دونوں لشکر باہم متصادم ہوئے تھے‘‘ (الانفال:41)۔ بلاشبہ یوم بدر غلبہ حق اور باطل کے مٹ جانے کا دن تھا، جس دن حق کو واضح اور دوٹوک فتح حاصل ہوئی اورکفرکے مقدر میں ذلت آمیز شکست لکھ دی گئی۔ مشرکین کا تکبر وغرور خاک میں مل گیا ۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’اور اللہ چاہتا تھا کہ اپنے کام سے حق کو حق ثابت فرما دے اور (دشمنوں کے بڑے مسلح لشکر پر مسلمانوں کو فتح یابی کی صورت میں) کافروں کی (قوت و شان و شوکت)کی جڑکاٹ دے‘‘ (الانفال:7)

اسباب جنگ: ہجرت مدینہ کے بعد جب مسلمان منظم ہونے لگے اورکفار کا یہ خدشہ کہ مسلمان ایک قوت بن کر ابھرے تو ان کا اقتدار ہی نہیں پورا نظام خطرے میں پڑجائے گا، حقیقت میں تبدیل ہونے لگا تو مشرکین مکہ کیلئے مسلمانان مدینہ کے ساتھ مسلح تصاد م کے سوا کوئی چارہ نہیں رہ گیا تھا۔ تاریخ شاہد ہے کہ اعلان نبوت کے ساتھ ہی اسلام کے خلاف اعلان جنگ ہوگیا تھا ۔گو اس تصاد م کا موقع پندرہ سال بعد آیا۔ 

کفار کی اسلام دشمنی :جس دن اعلان نبوت کے ساتھ داعی حقؐ نے کفارومشرکین کو دعوت حق دی تھی، اسلام دشمنی کاآغاز بھی اسی روز ہوگیا تھا۔ آواز حق پر کفارکان دھرنے کیلئے تیار نہ تھے ۔ جب حضور پاکﷺ نے ان کے عقائد باطلہ کو بے نقاب کرکے توحید کا نعرہ بلند کیا اور بت پرستی کے خلاف دعوتی جدوجہد کا آغاز کیا تو پورا عالم عرب اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺ کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا۔ سازشوں کا ایک ایسا جال بنا گیا جس سے نکلنے کا تصور وہی عظیم لوگ کرسکتے ہیں جنہیں اپنے نصب العین کی سچائی پر غیر متزلزل یقین ہو اور ابتلا و آزمائش کے کسی مرحلے پر بھی ان کی جبین شکن آلود نہ ہو۔ حضور ﷺ کے صحابہؓ کی جماعت ہر آزمائش پر پورا اترنے والے انہی نفوس قدسیہ پر مشتمل تھی جنہوں نے قدم قدم پر ایثار و قربانی کی لازوال مثالیں قائم کرکے قیامت تک راہ حق کے سفر پر نکلنے والے مسافروں کو اپنے نقوش پا کی روشنی عطا کی۔ وہ کونسا حربہ تھا جو مسلمانوں کے خلاف نہ آزمایا گیا۔تیرہ سالہ مکی دور اس امر پر گواہ ہے کہ کفار اسلام دشمنی میں اندھے ہوچکے تھے۔

تجارتی قافلے اورجنگی بجٹ میں اضافہ:اہل مکہ کا سب سے بڑا ذریعہ معاش تجارت تھا۔ بڑے بڑے تجارتی قافلے گردوپیش کی منڈیوں میں رواں دواں رہتے۔ مدینہ میں مسلمانوں کو مرکزی حیثیت حاصل ہوجانے کا انہیں بڑا قلق تھا چنانچہ مشرکین مکہ کے سردار عوام الناس کو، خصوصاً نوجوانوں کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکاتے رہتے تھے۔ اسلام، پیغمبر اسلامﷺ اوران کے پیروکاروں کے خلاف یہ نفرت جنون اور دیوانگی کی حد تک پہنچ چکی تھی۔کفار مکہ اسلام دشمنی میں بوکھلائے ہوتے تھے۔کفار نے تجارت کے نفع میں سے ایک مخصوص حصہ لازمی طور پر جنگی تیاریوں کیلئے مختص کرنا شروع کر دیا۔ کفار کی جنگی تیاریوں کے پیش نظر مسلمانان مدینہ بھی چوکنے تھے اور مدینہ منورہ پر کفار کے متوقع حملہ کا جواب دینے کیلئے دفاعی تیاریوں میں مصروف تھے۔ سپہ سالار مدینہ حضور رحمت عالمﷺ نے روایتی انداز اپنانے کی بجائے نئے زاویہ نگاہ سے دفاع مدینہ کے جملہ پہلوؤں کا جائزہ لیا اورنگران گشتی دستوں کی تشکیل کرکے دشمن کی نقل و حرکت خصوصاً اس کی اقتصادی ناکہ بندی پر اپنی توجہ مرکوز کی اور بہت جلد اس کے حوصلہ افزاء نتائج بھی حاصل ہونا شروع ہوگئے۔ 

حضورﷺ نے مدینہ منورہ کے داخلی استحکام اورکسی بیرونی حملہ کے امکانات کے پیش نظر مسلمانوں، یثرب کے عیسائیوں اور یہودیوں کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جسے میثاق مدینہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔

سردجنگ میں سرگرمی:مشرکین مکہ سرد جنگ میں سرگرمی سے مصروف عمل تھے۔ پروپیگنڈے کے محاذ پر جھوٹ کے پلندے اور بہتان تراشیوں کے انبار تخلیق ہورہے تھے، سرد جنگ گرم جنگ کا پیش خیمہ ہوتی ہے، آثار وقرائن بتارہے تھے کہ کفارمکہ کا جنگی جنون گل کھلا کررہے گا ۔ حضور نبی رحمتﷺ مدینہ منورہ میں اپنی آمد کے فوراً بعد داخلی امن اورسیاسی استحکام کی طرف متوجہ ہوئے۔ آپﷺ ابھی مشرکین مکہ سے الجھنا نہیں چاہتے تھے لیکن مذکورہ آیت کے نازل ہونے کے بعد مسلمانوں کو ایک نیا اعتماد ملا۔ اس پس منظر میں مکہ اورمدینہ کے درمیان جاری سرد جنگ میں گرماگرمی کے آثار پیدا ہونے لگے خصوصاً نوجوانوں کا جوش و خروش دیدنی تھا۔ جذبہ شہادت سینوں میں مچلنے لگا۔

دشمن کی اقتصادی ناکہ بندی : عربوں کی معیشت کا زیادہ تردارومدار شام کے ساتھ تجارت پر تھا اس لئے مکہ ایک تجارتی مرکز کے طورپر مشہور تھا۔ یہ تجارت عربوں کی اقتصادیات میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی تھی۔ یہاںاس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ ہجرت مدینہ نہ محض ایک اتفاقی حادثہ تھا اورنہ مکہ سے فرار کی ہی کوئی کوشش تھی بلکہ یہ طویل المیعاد منصوبہ بندی کا ایک حصہ تھا، مکہ اور شام کے درمیان تجارتی شاہراہ پر مسلمانوں کے قبضہ کے بعد دشمن کی اقتصادی ناکہ بندی کرنا نسبتاً آسان ہوگیا تھا۔

اہل مدینہ کو مسلمانوں سے الگ کرنے کی سازش:ادھر میثاق مدینہ کے ذریعہ جس میں مسلمانوں کے علاوہ یہود ونصاریٰ بھی شامل تھے، کا تعاون داخلی استحکام کیلئے بہت ضروری تھا تاکہ مدینہ منورہ کے دفاع کو نہ صرف مضبوط بنایا جائے بلکہ اپنی عسکری قوت کو منظم کرنے کے ساتھ ساتھ دیگر مخالف عناصر کو دشمن کا ساتھ دینے سے باز رکھا جا سکے۔ یہ حکمت وفراست مثبت نتائج بھی پیدا کررہی تھی اورریاست مدینہ کی حالات پر گرفت بھی بتدریج مضبوط ہورہی تھی اورساتھ ساتھ مدینہ کی سماجی اوراقتصادی زندگی میں بھی انہیں پذیرائی نصیب ہو رہی تھی، کفار مکہ کو یہی بات کھٹکتی تھی چنانچہ انہوںنے مدینہ منورہ کے مشرکوں، منافقوں اور یہودیوں وغیرہ کو دھمکی آمیز خط لکھنا اورانہیں مسلمانوں کے خلاف بھڑکانا شروع کردیا ۔ان اشتعال انگیز کارروائیوں کے پس منظر میں مسلمان کمال حکمت سے آہستہ آہستہ تمام معاملات کواپنے ہاتھ میں لے رہے تھے کفارمکہ کی دھمکیوں کا سلسلہ جاری رہا اوروہ مسلمانوں کے خلاف جنگی جنون کو ہوادے رہے تھے ۔

یہ اسباب و محرکات حق و باطل کے درمیان اس فیصلہ کن معرکہ کی وجہ بنے۔ غزوہ بدر کے بعد اسلام اور مسلمان ایک بڑی طاقت بن کر ابھرے۔ کفارِ مکہ اور مشرکین کو مسلمانوں کی سیاسی قوت اور جنگی حیثیت کا بخوبی اندازہ ہو گیا۔ کفار نے ہمیشہ مسلمانوں کو پروپیگنڈہ اور سازشوں کے جال میں شکست دینے کا سوچا تھا لیکن وہ میدان جنگ میں خود شکست کھا گئے۔ درحقیقت غزوہ بدر ہی اسلام اور کفر کے درمیان وہ تاریخی معرکہ تھا جس نے مسلمانوں کی سیاسی قوت کو واضح کیا۔ اس کے بعد اسلام کے سنہری دور کا آغاز ہو گیا اور مسلمانوں کو مزید کامیابیاں و فتوحات ملیں۔

٭…٭…٭

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

با با ناظر اور بونے

بابا ناظر ایک بوڑھا موچی تھا جو سارا دن سخت محنت کر کے جوتے بنایا کرتا تھا۔ایک بار سردیاں آئیں تو بابا ناظر ٹھنڈ لگ جانے کے باعث بیمار پڑ گیا۔اس کی بیماری اس قدر بڑھ گئی کہ وہ کوئی کام کرنے کے قابل نہیں رہا۔

کیمرا کیسے کام کرتا ہے؟

جو لوگ کیمرے سے تصویریں بناتے ہیں، ان میں سے اکثر لوگوں کو اس بات کا علم نہیں ہوتا کہ تصویر کھینچنے کا عمل کس طرح واقع ہوتا ہے۔

ذرامسکرائیے

اُستاد (شاگرد سے): ’’پنجاب کے پانچ دریائوں میں سے کوئی سے چار کے نام بتائو؟ شاگرد: ’’پہلے کا نام بتا کر،جناب دوسرا میں آپ سے پوچھنے والا تھا،تیسرا مجھے یاد نہیں اور چوتھا میری کتاب سے مِٹاہوا ہے‘‘۔٭٭٭

پہیلیاں

ایک بڈھے کے سر پر آگ گاتا ہے وہ ایسا راگ اس کے منہ سے نکلیں ناگجو تیزی سے جائیں بھاگ٭٭٭

ننھا گرمی سے گھبرایا

ننھا گرمی سے گھبرایا اُس دن شدت کی گرمی تھی دھوپ میں ہر اک شے جلتی تھی

حرف حرف موتی

٭…سچائی ایسی دوا ہے جس کی لذت کڑوی لیکن تاثیر شہد سے زیادہ میٹھی ہوتی ہے۔ ٭…سب سے زیادہ جاہل وہ ہے جو گناہ سے باخبر ہوتے ہوئے بھی گناہ کرے۔ ٭…عزت کمانا دولت کمانے سے زیادہ مشکل ہے جبکہ عزت گنوانا دولت گنوانے سے زیادہ آسان ہے۔