ماسااوکا شیکی جاپان کا عظیم شاعر

تحریر : محسن بھوپالی


جاپانی ادب کے نقاد شیکی کا حوالہ ’’بابائے جدید ہائیکو‘‘کے طور پر دیتے ہیں

ماسا اوکا شیکی کو شاعرو نقاد کے علاوہ ہائیکو اور تنکا صنفِ سخن کے سلسلے میں نئی حقیقت پسندی کی کامیاب وکالت کے باعث جدید جاپانی ادب کا عظیم معمار مانا جاتا ہے۔

شیکی متسویاما قصبے کے ایک معمولی گھرانے میں 14 اکتوبر1867ء کو پیدا ہوئے۔ وہ ایک ذہن طالب علم تھے۔ نصابی تعلیم کے ساتھ ساتھ انہوںنے اپنے نانا اوہاراکنزان سے چینی کلاسک کے ابتدائی اصولوں کی تعلیم محکم بنیادوں پر حاصل کی تھی۔1883ء میں جب شیکی 16سال کا تھا تو وہ قانون یا سیاست کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے ٹوکیو چلا گیا لیکن ٹوکیو یونیورسٹی کے شعبہ ادیبات میں 1890ء میں انرولمنٹ سے قبل کے سات سال کے عرصے میں جاپانی ادب کے دور جدید کی نمائندہ کتابوں اور مغربی ادب کے بیشتر تراجم کے مطالعے کے بعد اس نے اپنا ارادہ بدل دیا اور اس نے اسکالر شپ چھوڑ کر جامعہ کو دو سال بعد ہی خیر باد کہہ دیا۔ شیکی نے اپنی زندگی کے بقہ دس سال ادب کی تنقید کیلئے وقف کر دیئے تھے۔

شیکی نے ہائیکو کی اصلاح کیلئے بھرپور کوششیں کیں اور پے در پے اخبارات و رسائل میں کئی آرٹیکل شائع کرائے، جن میں اس نے نہایت جرأت کے ساتھ اپنے دور کی ہائیکو نظموں کو مصنوعی جمود کا شکار اور موضوع اور ڈکشن کے لحاظ سے محدود قرار دیا۔ اس نے عظیم شاعر باشو کو بھی جو اس کے عہد میں صرف مانا ہی نہیں بلکہ پوجا جاتا تھا، تنقید کا نشانہ بنایا اور اس کے بعض عقائد اور روایتی معیارات کو فرسودہ اور اس کی بے شمار ہائیکو نظموں کو بے قیمت قرار دیا۔ اس کا کہنا تھا کہ موجودہ نئے سیاسی اور سماجی عہد میں یہ دقیانوسی رجحانات ازکار رفتہ ہیں۔ اس نے ڈکشن اور موضوع کی آزادی اور ہائیکو کو ایک نہایت سنجیدہ صنفِ فن کی حیثیت سے برتنے کی وکالت کے علاوہ راستی یا حقیقت پسندی اپنانے کی تلقین کی۔ اس نے ہائیکو کی درجہ بندی کرتے ہوئے بارہ جلدوں پر مشتمل ایک ضخیم مجموعہ بھی مرتب کیا جس میں اس نے اپنے حلقے کے علاوہ نمائندہ ہم عصر شعراء کی تخلیقات بھی شامل کی تھیں۔

جاپانی ادب کے نقاد شیکی کا حوالہ ’’بابائے جدید ہائیکو‘‘ کے طور پر دینا پسند کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک اس کے دو سبب ہیں۔ پہلا یہ کہ شیکی نے سب سے پہلے ایسے ہائیکو لکھے جو موضوع اور مرکزی خیال دونوں کے لحاظ سے جدید تھے۔ دوسرا یہ کہ ہم عصر ہائیکو کی تمام اہم رویں اس کے یہاں سے شروع ہوتی ہیں۔ یہ دونوں نظریے اپنی جگہ مسلم لیکن اس موقف پر زیادہ زور دینے سے شیکی کے فن اور تخلیقی صلاحیتوں کے بعض دیگر بعض دیگر پہلوئوں کے نظر سے اوجھل ہونے کا خدشہ ہے جو غیر جاپانی قارئین کیلئے زیادہ دلچسپی کا باعث ہو سکتے ہیں۔ شیکی بنیادی طور پر ہائیکو شاعر کی حیثیت سے مشہور ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسے اپنے شاعرانہ کریئر کے آغاز سے صرف ہائیکو سے ہی رغبت نہیں تھی بلکہ وہ مجموعی طور پر اس ادب سے دلچسپی رکھتا تھا جو غیر جاپانی قارئین کیلئے زیادہ دلچسپی کا باعث ہو سکتے ہیں۔ 

اس نے جاپانی شاعری کی ایک اور صنف تنکاپر کثرت سے تنقیدی مضامین لکھے اور تنکا نظمیں بھی لکھیں مزید برآں تنکا شاعری کے ایک نئے سکول کی بنیاد رکھی۔ ڈائری اور ایسے مضامین بھی لکھے جنہیں زبان کے ارتقاء اور جدید جاپانی نثر کی لفظیات میں بنیادی حیثیت حاصل ہے۔

شیکی بلاشبہ جدید ہائیکو کا بانی اور جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے۔’’بائے جدید ہائیکو‘‘کے جانے کا مستحق ہے اس نے ہائیکو کو موضوع اور مرکزی خیال کے لحاظ سے ہی جدید نہیں بنایا بلکہ روایتی ہیئت سے انحراف بھی کیا اور مختلف تجربات کے بعد اس نے ہیئت کے بارے میں حتمی نظریہ قائم کیا۔ چنانچہ جدید عہد کے نقاد یا سودا نے اپنی کتاب ’’جاپانی ہائیکو‘‘ میں اس موضوع پر بڑی تفصیل سے اظہار خیال کیا ہے وہ کہتا ہے’’شیکی ایک وقت تک اپنے نظریے پر قائم رہا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب اس نے محسوس کیا کہ ہیئت کے بارے میں جس نئی چھوٹ کی اس نے اجازت دی تھی اس کے سبب ہائیکو اصل ہیئت سے بہت دور ہو گیا ہے۔ شیکی اپنے اصل موقف سے اس لئے ہٹ گیا کہ اس نے شعری ہیئت کے بگاڑ کے پہلو کو محسوس کر لیا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ ان کے نئے اوزان میں کوئی وزن نہیں ہے اور اس طرح ہائیکو نثری آہنگ کے قریب چلا گیا ہے۔

 15ستمبر 1902ء کو اس عظیم شاعر نے اپنی جان جان آفریں کے سپرد کی۔

 

منتخب ہائیکو

جھاڑی کی چڑیا

اپنے چھوٹے سے منہ سے

گانا گاتی ہے

………… 

بارش کا قطرہ

جوں ہی آکر ٹکرایا

گھونگا بند ہوا

………… 

تتلی بیٹھی ہے

اس مندر کی گھنٹی پر

جھپکی لینے کو

………… 

نیچے دیکھتا ہوں

سرما کی اس چاندنی میں

گھر ہیں چار ہزار

………… 

 

سردی کا موسم

کوہستانی نالے سے

گلیوں میں کیچڑ

………… 

 

کاٹی ہی تھی کھجور

ہوری جی مندر کی

گھنٹی بج اُٹھی!

………… 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

مصطفیٰ زیدی منفرد اسلوب کا شاعر

مصطفی زیدی بیسویں صدی کی اردو شاعری کے معروف و مقبول شاعروں میں شمار ہوتے ہیں۔اردو ادب کی تاریخ میںبے شمار شعراء ایسے ملتے ہیں جن کی شاعری کے کئی رنگ ہیں۔

سوء ادب :ہمارے جانور شیر

یہ جنگل کا بادشاہ کہلاتا ہے لیکن جب سے ن لیگ نے اسے اپنے انتخابی نشان کے طور پر اپنایا ہے، اِس کا دماغ مزید خراب ہو گیا ہے اور وہ کسی کی پرو ا ہی نہیں کرتا۔

قومی یکجہتی میں ادب کا کردار

ہر ادب، ادیب کے ایک نظریئے کے تحت پیدا ہوتا ہے اور ادیب ایک معاشرے کا جزو ہوتا ہے اور اس معاشرے کا ایک نظریۂ حیات ہوتا ہے۔ اس اعتبار سے ادیبوں اور ان کی تخلیقات یعنی ادب میں جہت اور سمت کا تعین اس اجتماعی شعور یا نظریئے سے پیدا ہوتا ہے۔

پاکستان کو پہلے ٹیسٹ میں بد ترین شکست

پاکستان کرکٹ ٹیم کو تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز کے پہلے مقابلے میں مہمان انگلینڈ کے ہاتھوں ایک اننگز اور 47 رنز سے شکست کا سامنا کرنا پڑا، جسے پاکستان کرکٹ کی بدترین شکست قرار دیا جا سکتا ہے۔

ملتان ٹیسٹ میں بننے والے منفرد ریکارڈز

پہلے ٹیسٹ میچ میں انگلینڈ کیخلاف پاکستان کے متعدد نئے ریکارڈ بنے، جو درج ذیل ہیں۔

چھوٹا پھول

ایک باغ میں بہت سے پودے اور درخت تھے، جن پر ہر طرح کے پھول اور پھل لگے ہوئے تھے۔ وہ باغ بہت بڑا تھا۔ درختوں پر پرندوں کی چہچہاہٹ اور پھولوں کی خوشبو باغ کو خوبصورت بنائے ہوئے تھی۔ ایک دفعہ گلاب کے بہت سے پھول کرکٹ کھیل رہے تھے کہ ایک چھوٹا سا پھول آیا اور کہنے لگا ’’ کیا میں آپ کے ساتھ کرکٹ کھیل سکتا ہوں‘‘۔