اختر شیرانی آسمان شعروادب کا تابندہ ستارہ

تحریر : محمد ارشد لئیق


اختر شیرانی کی شاعری کے بنیادی اوصاف میں نغمگی، رچائو،لطافت اور اختراع پسندی شامل ہیں، فطرت نگاری بھی بڑے شاندار انداز میں کی، بہترین نثر نگار بھی تھے

کہ آپ اپنا تعارف۔۔۔۔۔۔۔

 4مئی 1905کو بھارتی ریاست راجستھان کے علاقے ٹونک میں پیدا ہونے والے اختر شیرانی کا اصل نام محمد دائود خان تھا۔ ان کا تعلق افغانستان کے شیرانی قبیلے سے تھا۔ان کے والد حافظ محمود شیرانی عالم دین تھے اور بڑے اعلیٰ پائے کے استاد تھے ۔دائود خان چھوٹی عمر میں ہی لاہور چلے آئے، انہوں نے منشی فاضل اور ادبی فاضل کیا ۔یہ عربی اور فارسی کی ڈگریاں تھیں اپنے والد کی تمام تر کاوشوں کے باوجود وہ اپنی تعلیم جاری نہ رکھ سکے اور کل وقتی شاعر بن گئے۔ شاعری میں مولانا تاجور نجیب آبادی ان کے استاد تھے۔مجموعی طور پر 9شعری مجموعے تخلیق کیے، جن میں ’’اختر ستان ‘‘،’’نگارشات اختر‘‘،’’لالہ طور‘‘، ’’طیور آوارہ‘‘،’’نغمہ حرم‘‘، ’’صبح بہار‘‘اور ’’شہناز‘‘ شامل ہیں۔ وہ کچھ ادبی جرائد کے مدیر بھی رہے جن میں ’’انتخاب‘‘ ،’’بہارستان‘‘ ،’’خیالستان‘‘ اور ’’رومان‘‘ شامل ہیں۔ 9ستمبر 1948کو اختر شیرانی کا رشتہ حیات منقطع ہو گیا۔شاعر رومان نے صرف 43برس کی عمر پائی ۔

اختر شیرانی اپنے دور کے جدید لہجے کے شعراء کرام میں شمار ہوتے ہیں جنہوںنے شاعری میں کئی نئے تجربات کئے ،اسے نیا لہجہ عطا فرمایا، ان کی انفرادیت کا اعتراف اُس دور کے معروف شعرائے کرام بھی کئے بغیر نہیں رہ سکے۔ ان کی شاعری کو سراہنے والوں میں اس دور کے ممتاز شاعر فیض احمد فیض بھی شامل ہیں۔ بقول فیض، ’’شیرانی کا ان شعرائے کرام میں شمار ہوتا ہے جنہوں نے اپنے دور کی شاعری کو جدت عطا کی، انہوں نے اس دور کی نسل کو حسن و عشق کے سراب سے نکال کے حقیقت کی دنیا میںلانے کی ایک کوشش کی تھی ،وہ اس میں کسی حد تک کامیاب رہے۔ہم میں سے اکثر کو وہ زمانہ یاد ہو گا جب اختر شیرانی پہلے پہل موجودہ شاعری کے میدان میں وارد ہوئے تھے، یوں تو موجودہ دور سے پہلے ہمارے ادب میں حسن و عشق کے مرقعے بھی موجود تھے، اور حالت دل بیان کرنے والے شاعر بھی لیکن ہمارے ہم عصر نوجوان ایک اجنبیت سی محسوس کرتے ہیں، انہیںمحسوس ہوتا ہے کہ ان کے پرانے شعر کا حسن خیالی اور غیر مرئی ہے،یا بالکل سفلی اور غیر دلچسپ، ان کا عشق یا بالکل متین اورحزن آفریں ہے ، یا بالکل اوباش اور آبرو باختہ۔سماج کی عورت یا تو شریف عورت تھی جس کے متعلق عشقی لہجے میں گفتگو کرنابد اخلاقی تھی، یا پھر ایسی عورت تھی جس کے متعلق ساری دنیا میں ایک ہی لہجہ سے گفتگو کی جاتی ہے۔ چنانچہ 20ویں صدی کے نوجوانوں کو عنفوان شباب کی اس خوبصورت اور والہانہ کیفیت کا کوئی ترجمان ملتا نہیں تھا۔جس کے زیر اثر نوجوانوں کی ایک خواہش اپنی پاکیزگی اور خلوص کی وجہ سے عشق بن جاتی ہے۔ اور مادی جسم اپنے حسن کی وجہ سے روح میں مدغم ہو جاتا ہے۔یہ وجدان، یہ والہانہ پن در اصل اس احساس آزادی کے اجزاء تھے، جس کی لذت پرانی سماجی قیود کی شکست اور نئے ذہنی اثرات کے نفوذکی وجہ سے ہمارے دور کے نوجوانوں نے سب سے پہلے محسوس کی۔اس کی ہیجانی دور کے فوری اثرات ایک ذہنی اور جذباتی غیر ذمہ داری ، ایک دنیا مافیہا سے بے خبر رومانیت، اور ایک تند لیکن پاکیزہ محبت ،پسندکی صورت میںظاہر ہوئے۔اختر شیرانی اسی تحریک کے سرکردہ شعراء میں سے ایک ہیں، ان کی شاعری نوجوانی کے احساسات کے گرد گھومتی ہے، یہ مخملیں شاعری ہے،ہر تصویر، ہر مشاہدہ، تخیل کے کف سے آہستہ آہستہ نمودار ہوتا ہے، اور بالکل عریاں نہیں ہوپاتا۔ ان میں کہیں محسوسات کی خوشی ہے، کہیں تصورات کی رنگینی،کہیں اصوات کا ترنم ہے کہیں معانی کی خواب آفرینی‘‘۔ 

شاعر حسن و جوانی اخترؔ شیرانی بلاشبہ ایک بہترین رومانی شاعر تھے۔ اپنے ہمعصر شعراء میں وہ منفرد و ممتاز ہی نہیں بلکہ مقبول ترین شاعر تھے اور ان کی شاعری نے بام عروج کو چھوا۔ ان کی رومانی شاعری کا رنگ ڈھنگ اور آہنگ سب سے الگ ہے۔ انہوں نے شاعری میں کسی کا تتبع نہیں کیا اور نہ کسی کے انداز بیانِ سے اپنے اشعار کو متاثر کیا بلکہ انہوں نے آپ اپنی شاعری کی شاہراہ الگ سے منتخب کی اور اس میں ایسے سنگِ میل قائم کئے کہ پیش روئوں کیلئے نئی راہیں استوار ہو گئیں۔ انہوں نے اسی پر اکتفا نہیں کیا۔ اپنی نظموں اور گیتوں کے طوفانی سلسلے کے دوران انہوں نے مختلف ہئیتی تجربے بھی کئے اور اردو میں غنائیت و نغمگی سے بھرپور نئی بحروں کو مروج کرنے کا شاندار کارنامہ انجام دیا۔ علاوہ ازیں انہوں نے دوسری زبانوں کی بہترین اصناف کو اپنی شاعری کے وسیلے سے اردو میں داخل کیا۔مثال کے طور پر ماہیا گوئی ،پنجابی لوک گیت ماہیا کو منتقل و مروج کرنے کا مہتم بالشان کام وہ پہلے انجام دے چکے ہیں۔ 

ان کے مجموعہ ہائے کلام ’’شہناز‘‘ (1946ء) اور ’’شہرود‘‘ (1949ء) میں ماہیے دیکھے جا سکتے ہیں۔ ا ن کا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے پنجابی لوک گیت کو اپنا کر اسے ’’مکتوبی‘‘ شکل عطا کی ورنہ لوک گیت سینہ بہ سینہ اور نسل درنسل منتقل ہوتے رہتے ہیں۔ اسی طرح ہندی ادب سے گیتوں کو مستعار لیا تو انگریزی شعریات سے ’’سانیٹ‘‘ کی صنف کو اردو، کا لباس فاخرہ پہنایا۔ اردو میں باقاعدہ سانیٹ نگاری کی ابتدا اختر شیرانی کے ہاتھوں عمل میں آئی،ان کے مجموعہ کلام ’’شعرستان‘‘ (1941ء)، ’’اختر ستان‘‘ (1946ء)، ’’لالہ طور‘‘ (1947ء) اور ’’مشہرود‘‘ (1949ء) میں سانیٹ کی وافر تعداد دیکھی جا سکتی ہے۔

اختر شیرانی نے اپنے 43سالہ مختصر عرصہ حیات میں شاعری کا وافر ذخیرہ چھوڑا۔ ’’پھولوں کے گیت‘‘،’’ نغمۂ حرم‘‘، ’’صبح بہار‘‘،’’ اخترستان‘‘، ’’لالہ طور‘‘، ’’طیور آوارہ‘‘، ’’شہناز‘‘، ’’شہرود‘‘ اور ’’شعرستان‘‘ ان کے وہ شعری مجموعے ہیں جو ’’شہرود‘‘ کے علاوہ ان کی زندگی ہی میں شائع ہو کر مقبول ہو گئے تھے۔ ان کا اوّلین مجموعہ ’’پھولوں کے گیت‘‘ ہے جو 1936ء میں اشاعت پذیر ہوا تھا۔ اس مجموعہ میں صرف بچوں کیلئے نظمیں لکھی گئی ہیں۔ ادب اطفال کے سلسلے میں نامی گرامی شعراء نے کاوشیں کی ہیں لیکن مجموعہ کی شکل میں بچوں کو اشعار کی سوغات پہلے پہل اختر شیرانی نے ہی پیش کی۔’’نغمۂ حرم‘‘ میں بھی انہوں نے جو نظمیں شامل اشاعت کی ہیں وہ سب بچوں اور عورتوں سے متعلق ہیں، اس لئے انہیں ادب اطفال میں بھی امتیاز حاصل ہے۔ 

اس طرح بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ اختر شیرانی مطلع شعر و ادب کے وہ اختر تابندہ تھے جس نے آسمان شعر و ادب کو اپنی چمک دمک سے روشن کیا۔

چند اشعار

کانٹوں سے دل لگاؤ جو تا عمر ساتھ دیں 

پھولوں کا کیا جو سانس کی گرمی نہ سہ سکیں 

٭٭٭

غم زمانہ نے مجبور کر دیا ورنہ 

یہ آرزو تھی کہ بس تیری آرزو کرتے 

٭٭٭

ان رس بھری آنکھوں میں حیا کھیل رہی ہے 

دو زہر کے پیالوں میں قضا کھیل رہی ہے 

٭٭٭

کچھ تو تنہائی کی راتوں میں سہارا ہوتا 

تم نہ ہوتے نہ سہی ذکر تمہارا ہوتا 

٭٭٭

آرزو وصل کی رکھتی ہے پریشاں کیا کیا 

کیا بتاؤں کہ میرے دل میں ہے ارماں کیا کیا 

٭٭٭

چمن میں رہنے والوں سے تو ہم صحرا نشیں اچھے 

بہار آ کے چلی جاتی ہے ویرانی نہیں جاتی 

٭٭٭

کام آ سکیں نہ اپنی وفائیں تو کیا کریں 

اس بے وفا کو بھول نہ جائیں تو کیا کریں 

٭٭٭

زندگی کتنی مسرت سے گزرتی یا رب 

عیش کی طرح اگر غم بھی گوارا ہوتا 

٭٭٭

کچھ اس طرح سے یاد آتے رہے ہو 

کہ اب بھول جانے کو جی چاہتا ہے 

٭٭٭

یاد آؤ مجھے للہ نہ تم یاد کرو 

میری اور اپنی جوانی کو نہ برباد کرو 

٭٭٭

یاد آؤ مجھے للہ نہ تم یاد کرو 

میری اور اپنی جوانی کو نہ برباد کرو 

٭٭٭

دن رات مے کدے میں گزرتی تھی زندگی 

اختر وہ بے خودی کے زمانے کدھر گئے 

٭٭٭

تھک گئے ہم کرتے کرتے انتظار 

اک قیامت ان کا آنا ہو گیا 

٭٭٭

بھلا بیٹھے ہو ہم کو آج لیکن یہ سمجھ لینا 

بہت پچھتاؤ گے جس وقت ہم کل یاد آئینگے 

٭٭٭

مانا کہ سب کے سامنے ملنے سے ہے حجاب 

لیکن وہ خواب میں بھی نہ آئیں تو کیا کریں 

٭٭٭

دل میں لیتا ہے چٹکیاں کوئی 

ہائے اس درد کی دوا کیا ہے 

٭٭٭

محبت کے اقرار سے شرم کب تک 

کبھی سامنا ہو تو مجبور کر دوں 

٭٭٭

مدتیں ہو گئیں بچھڑے ہوئے تم سے لیکن 

آج تک دل سے مرے یاد تمہاری نہ گئی 

٭٭٭

اب وہ باتیں نہ وہ راتیں نہ ملاقاتیں ہیں 

محفلیں خواب کی صورت ہوئیں ویراں کیا کیا 

٭٭٭

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

مصطفیٰ زیدی منفرد اسلوب کا شاعر

مصطفی زیدی بیسویں صدی کی اردو شاعری کے معروف و مقبول شاعروں میں شمار ہوتے ہیں۔اردو ادب کی تاریخ میںبے شمار شعراء ایسے ملتے ہیں جن کی شاعری کے کئی رنگ ہیں۔

سوء ادب :ہمارے جانور شیر

یہ جنگل کا بادشاہ کہلاتا ہے لیکن جب سے ن لیگ نے اسے اپنے انتخابی نشان کے طور پر اپنایا ہے، اِس کا دماغ مزید خراب ہو گیا ہے اور وہ کسی کی پرو ا ہی نہیں کرتا۔

قومی یکجہتی میں ادب کا کردار

ہر ادب، ادیب کے ایک نظریئے کے تحت پیدا ہوتا ہے اور ادیب ایک معاشرے کا جزو ہوتا ہے اور اس معاشرے کا ایک نظریۂ حیات ہوتا ہے۔ اس اعتبار سے ادیبوں اور ان کی تخلیقات یعنی ادب میں جہت اور سمت کا تعین اس اجتماعی شعور یا نظریئے سے پیدا ہوتا ہے۔

پاکستان کو پہلے ٹیسٹ میں بد ترین شکست

پاکستان کرکٹ ٹیم کو تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز کے پہلے مقابلے میں مہمان انگلینڈ کے ہاتھوں ایک اننگز اور 47 رنز سے شکست کا سامنا کرنا پڑا، جسے پاکستان کرکٹ کی بدترین شکست قرار دیا جا سکتا ہے۔

ملتان ٹیسٹ میں بننے والے منفرد ریکارڈز

پہلے ٹیسٹ میچ میں انگلینڈ کیخلاف پاکستان کے متعدد نئے ریکارڈ بنے، جو درج ذیل ہیں۔

چھوٹا پھول

ایک باغ میں بہت سے پودے اور درخت تھے، جن پر ہر طرح کے پھول اور پھل لگے ہوئے تھے۔ وہ باغ بہت بڑا تھا۔ درختوں پر پرندوں کی چہچہاہٹ اور پھولوں کی خوشبو باغ کو خوبصورت بنائے ہوئے تھی۔ ایک دفعہ گلاب کے بہت سے پھول کرکٹ کھیل رہے تھے کہ ایک چھوٹا سا پھول آیا اور کہنے لگا ’’ کیا میں آپ کے ساتھ کرکٹ کھیل سکتا ہوں‘‘۔