قائد اعظم محمد علی جناحؒ اصول پسندی ان کا خاصہ تھی

تحریر : شریف المجاہد


حضرت قائد اعظم محمدعلی جناح ؒنے ایک زمانے میں خود کوپوری طرح قومی معاملات کیلئے وقف کر رکھا تھا۔ ساتھ ہی مسلمانوں کے مفادات بھی ہمیشہ ان کے پیش نظر رہتے تھے۔ تیسری دہائی کے خاتمے اور اور چوتھی دہائی کے آغاز کے ساتھ ہی یہ امر بھی کسی سے پوشیدہ نہیں رہا تھا کہ لالہ لاجپت رائے (1865ء تا 1928ء ) مدموہن مالویہ (1861ء تا 1946ء ) جیسے سرکردہ ہندو مبلغ اور علمبردار نیشنلسٹ سیاست کی کیا کیا تاویلات اور تشریحات پیش کرتے تھے۔

ان کے برخلاف حضرت قائد اعظم ؒ دو مختلف مقاصد یعنی ہندو فرقہ وارانہ مقاصد اور مسلم مقاصد کو کبھی غلط ملط کرنے پر تیار نہ تھے۔ مثال کے طور پر 1931ء میں حضرت قائد اعظمؒ نے یہ اعلان کرتے وقت کہ ’’میں ہندوستانی ہوں لیکن میں یہ بھی محسوس کرتا ہوں کہ کوئی بھی ہندوستانی، مسلمانوں کے مفادات کو نظر انداز کر کے اپنے ملک کی خدمت نہیں کر سکتا‘‘۔ اس کے بعد انہوں نے بڑی صراحت کے ساتھ ہی اس حقیقت کی بھی نشاندہی کی تھی کہ ’’نمائندہ حکومت کا یہ مطلب نہیں کہ ایک آئین کے ذریعے سات کروڑ مسلمانوں کو ہاتھ پیر باندھ کر ہندوئوں کے ایک مخصوص فرقے کے سامنے ڈال دیا جائے،تاکہ وہ جو جی میں آئے ان کے ساتھ سلوک روا رکھیں‘‘۔ آپ ؒ کا کہنا تھا کہ ’’اس قسم کی کوئی حکومت نمائندہ ہو سکتی ہے اور نہ ہی جمہوری‘‘۔

آپؒ دو صوبوں میں مسلم اکثریت کو اقلیت 

میں بدلنے کی سازش کے خلاف ڈٹ گئے 

1919ء کے ایکٹ میں جب ہندوستانی نظام میں مسلمانوں کی حیثیت تسلیم کر لی گئی تو انہوں نے اپنی تمام تر توجہ اس امر پر مرکوز کر دی کہ مسلمانوں کو ان کے اکثریتی علاقوں میں قانونی اکثریت بھی حاصل ہو جائے۔ 1919ء کی اصلاحات کے تحت مسلم اکثریت جو کہ پنجاب میں 57 فیصد اور بنگال میں 54.7 فیصد تھی ۔مجالس قانون ساز میں اس اکثریت کو کم کر کے علی الترتیب 48فیصد اور 40فیصد کر دیا گیا تھا۔ اب جبکہ اصلاحات کی اگلی قسط میں صوبائی خودمختاری کے امکانات پیدا ہو گئے تھے حضرت قائد اعظم ؒ کی کوششیں بھی انہی امور پر مرکوز تھیں کہ پنجاب اور بنگال میں مسلمانوں کو قانونی اکثریت حاصل ہو جائے۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں اصلاحات نافذ کی جائیں۔ سندھ کو بمبئی(ممبئی) پریذیڈنسی سے الگ کیا جائے اور اختیارات صوبوں کو سونپے جائیں۔ ہندوستان میں سات ہندو اکثریتی صوبوں کے مقابلے میں پانچ مسلم صوبے موجود تھے لیکن حقیقی توازن قائم کرنے کا واحد طریقہ یہی تھا کہ ان اکثریتی صوبوں میں مسلمانوں کو قانونی اکثریت بھی حاصل ہو۔

 دہلی مسلم تجاویز اور 14نکات کی بنیاد

مرکز میں مسلمانوں کو ایک تہائی نشستیں ملنا تھیں اور اس طرح ایک حقیقی وفاقی آئین ہی بے رحم ہندو اکثریت سے مسلمانوں کے مفادات کے تحفظ کا ضامن ہو سکتا تھا۔ اس طرح مسلمان ہندوستان کی وحدت کے اندر رہتے ہوئے اس کے امور میں شرکت کر سکتے تھے۔ آپ ؒ کایہی انداز فکر دہلی مسلم تجاویز کی بنیاد بنا اور پھر محمد علی جناحؒ کے مشہور 14نکات مارچ 1929ء میں سامنے آئے۔ یہ آپؒ کی طرف سے نیشنل کنونشن میں ہندو رویے کا جواب تھا۔ آپؒ نے اپنے 14نکات پیش کر کے مسلمانوں کو ایک پرچم تلے متحد کرنے کی کوشش کی تھی۔ یہ نکات جہاں مسلمانوں کے مختلف نقطہ ہائے نظر میں ہم آہنگی پیدا کرنے کیلئے تھے، وہیں نہرو رپورٹ کے بارے میں حضرت قائد اعظمؒ کے اور مسلمانوں کے نقطہ نظر کو بھی پیش کرتے تھے۔ دہلی مسلم تجاویز انتخابی مسئلہ پر نیشنلسٹ رجحان کے تقاضوں کے پیش نظر وضع کی گئی تھیں جبکہ14 نکات اس سے قطعی متضاد خالصتاََ مسلمانوں کے نقطہ نظر کے غماز تھے۔ اس لئے یہ نکات گول میز کانفرنس اور اس کے بعد بھی مسلمانوں کے مطالبات کی بنیاد بن گئے۔ یہ گول میز کانفرنس لندن میں بلائی گئی تھی اور اس کا مقصد ہندوستان کیلئے مستقل آئین کی تیاری تھا۔ اس سے بھی اہم بات،آپ ؒ کے ان چودہ نکات میں سے کچھ نکات کو کمیونل ایوارڈ میں شامل کیا جانا تھا۔

نہرو کی رعونت اور 1934ء میں مذاکرات کی ناکامی

بہت سے دوسرے رہنمائوں کی طرح حضرت قائد اعظم ؒ بھی قائل ہو گئے تھے کہ کانگریس صرف نام کی حد تک قومی جماعت ہے ورنہ وہ بھی درحقیقت ہندوئوں کی بالادستی کیلئے ہی کام کر رہی ہے۔  کانگریس کے اس رویے کی مزید تصدیق 1930ء اور1931ء میں اس وقت ہو گئی جب کانگریس نے یہ دعویٰ شروع کر دیا کہ صرف وہی ہندوستانی امنگوں اور خواہشات، ہندوستانی نیشنلزم اور تمام اقلیتوں کی واحد مسلمہ اور مصدقہ جماعت ہے۔ دوسری گول میز کانفرنس منعقدہ 1931ء میں نہرو نے بڑی رعونت کے ساتھ دوسری پارٹیوں اور شرکاء کو غیر اہم اور فضول کہا تھا۔حضرت قائد اعظمؒ جیسے زیرک سیاست دان کیلئے ان حقائق کی گہرائیوں تک پہنچناکچھ مشکل نہ تھا۔ آپؒ نے 1934ء میں پنڈت مدن مدہن مالویہ سے بات چیت کی۔ 1935ء کے اوائل میں کانگریس کے صدر بابو راجندر پرشاد سے طویل مذاکرات کئے۔ہندو لیڈروں سے مذاکرات کے ذریعے یہ مصالحت کی آخری کوشش تھی۔ 

مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی کوششوں کا آغاز

دوسری جانب مسلمانوں کے معاملات میں بھی انہیں ٹھوس کامیابیاں حاصل ہوئیں۔ 1924ء میں انہوں نے مسلم لیگ کو زندہ کیاحالانکہ اس وقت کئی دیگر مسلم جماعتیں بھی قائم تھیں۔ آپؒ نے مسلم لیگ کو مسلم سیاست کا مرکز بنا دیا۔ مسلم لیگ کو از سرنو منظم کیا۔ 1934ء میں جب آپ ؒ نے قیادت سنبھالی تو نہ صرف دیگر جماعتوں ( مثلاًجمعیت علمائے ہند) اور میاں فضل حسین نے بھی خیر مقدم کیا ۔ ان باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ کامیابیاں ان کی منتظر تھیں۔ اب وہ صرف مسلم اتحاد کیلئے سرگرم عمل تھے۔ انہیں ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کیلئے کوشاں تھے۔ ایسی پالیسی بنانے میں مصروف تھے جس پر پورے ہندوستان کے مسلمان پورے خلوص اور یقین کے ساتھ گامزن ہوسکیں۔ یہی وہ کردار تھا جس کی بنا پر وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ انہیں اسلامیان ہند کے غیر متنازعہ رہنما کی حیثیت سے ابھرنا تھا۔ اس قوم کا قائد اعظمؒ بنناتھا۔

مسلم لیگ میں گروہ بندی کا خاتمہ

تیسری دہائی کے اوائل میں پورا ہندوستان تحریک خلافت اور ترکی کے مستقبل کی طرف سے اپنی قدرتی بے چینی اور تشویش کی بناء پر ایک بحرانی کیفیت کا شکار تھا۔ اسلام کے داعی کی حیثیت سے مولانامحمد علی جوہرا سلامیان ہند کے لیڈر کی حیثیت سے ابھرے۔مگر 1922ء میں تحریک خلافت کی ناکامی اور 1924ء میں اس کے خاتمے کے واقعات ایسے ہیں جن سے لوگ ان سے مایوس ہونے لگے۔جب سائمن کمیشن کے معاملے پر 1927ء میں میاں محمد شفیع کے اختلافات ظاہر ہونے لگے تو مولانا محمد علی جوہرنے کھل کر حضرت قائد اعظمؒ کی حمایت کی۔ جن دنوں محمد علی جوہر علیل تھے اور انہیں لندن لے جانے کیلئے سٹریچر پر جہاز میں سوار کرایا جا رہا تھا تو انہوں نے قائد اعظمؒ کی قائدانہ صلاحیتوں کے بارے میں اعتراف کیا تھا۔ 

یاد رہے،گول میز کانفرنس میں کانگریس کے رویے سے انتہائی مایوس ہو کر قائد اعظم ؒ ہندوستان کو خیرباد کہہ کر انگلستان میں آباد ہو گئے تھے۔ مسلم لیگ کی از سر نو شیرازہ بندی کے ساتھ ساتھ اسے پھر سے فعال بنانے کی بھی ضرورت تھی۔ ایک تار میں حضرت قائد اعظمؒ سے درخواست کی گئی کہ وہ واپس آ کر لیگ کا نتظام اور قیادت سنبھال لیں۔ اسے منظم کر کے مسلمانوں کی نمائندہ جماعت کے طور پر اس کی سابقہ حیثیت کو بحال کریں ۔ آپؒ پر ہندوستان کے مسلمان رہنمائوں کو کس قدر اعتماد اور بھروسہ تھا، اس کا ایک اور ثبوت یہ ہے کہ اپریل 1934ء میں جب انہیں متفقہ طور پر مسلم لیگ کا صدر منتخب کر لیا گیا تو مجلس قانون ساز کے کئی مسلم اراکین نے ان کیلے اپنی نشستیں خالی کرنے کی پیشکش کر دی تاکہ وہ بھی مجلس قانون ساز کے رکن بن سکیں۔

 قائد اعظم ؒ کی عدم موجودگی

 میں مسلم لیگ کی بے عملی

محمد علی جناحؒ نے مسلمانوںکو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کے کام کا آغازاکتوبر 1935ء میں برطانیہ سے واپس آنے کے بعد کیا۔ قائد اعظم ؒکی عدم موجودگی میں مسلم لیگ کی بے عملی کا یہ عالم تھا کہ گزشتہ چند برسوں سے اس کے سالانہ اجلاس بھی مسلمانوں میں کسی قسم کی ہلچل پیدا کرنے میں ناکام رہتے تھے۔پھر ان میں حاضری اس قدر کم ہوتی تھی کہ مجبوراً کورم بھی 75سے 50کر دیا گیا تھا۔ عالم یہ تھا کہ صوبائی سطح کی تنظیموں کا وجود بھی صرف کاغذ کی حد تک محدود تھا۔ یہ کاغذی شاخیں بھی قطعی غیر موثر اور غیر فعال تھیں۔ان پرمرکز کا کنٹرول بھی برائے نام تھا۔خود مرکزی مسلم لیگ کے پاس بھی کوئی جامع دستور العمل موجود نہ تھا۔ مختلف مسلم لیڈروں نے اپنی اپنی صوبائی پارٹیاں قائم کر لی تھیں۔  

مسلم رہنمائوں کی مقامی جماعتیں

 اور قائد اعظمؒ کی حکمت عملی 

بنگال کا ہمسایہ صوبہ آسام چھوٹے چھوٹے گروہوں میں بٹا ہوا تھا۔ حد یہ ہے کہ وہاں لیگ بھی دو حصوں میں بٹی ہوئی تھی۔ دیگر صوبوں میں بھی صوبائی جماعتوں کی تنظیم نو یونینسٹ پارٹی کی طرز پر کر دی گئی تھی۔خلافت کانفرنس کے ٹوٹنے سے قائم ہونے والی جماعتیں الگ تھیں۔خیبر پختونخوا میں بھی مسلمانوں کے چار گروپ موجود تھے۔ بہار میں سید عبدالعزیز انتہائی معتبر اور معزز رہنما سمجھے جاتے تھے، انہوں نے یونائیٹڈمسلم پارٹی کی نسبت سے پارلیمانی بورڈ میں کام کرنے سے انکار کر دیا۔سنٹرل صوبہ میں رئوف شاہ نے 13دیگر رہنمائوں کے ساتھ صوبائی پارلیمانی بورڈ سے مستعفی ہو کر اپنی ’’مسلم پارلیمنٹری پارٹی‘‘ بنا لی تھی۔ اسی طرح چوہدری عبدالحکیم نے ’’مدراس پریزیڈینسی مسلم پروگریسو پارٹی‘‘ بنا لی تھی۔ کئی دیگر جماعتیں بھی اپنی اپنی وجوہات کی بناء پر تعاون کیلئے تیار نہ تھیں۔ ان میں سے بیشتر رہنمابعد میں مسلم لیگ میں شامل ہو گئے تھے۔  

اس حوصلہ شکن صورتحال میں حضرت قائد اعظمؒ کیلئے واحد حوصلہ افز ا بات یہ تھی کہ اسلام کے فلسفی شاعرعلامہ اقبالؒ ان کا نہایت عزم و استقامت سے ساتھ دے رہے تھے۔انہوں نے پس منظرمیں رہتے ہوئے ہندوستانی سیاست کی راہیں متعین کرنے میں آپؒ کی مدد کی۔ حضرت قائد اعظم ؒ ان عظیم لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے انتہائی مایوس کن حالات میں بھی مایوس ہونا اور امید کا دامن چھوڑنا نہیں سیکھا تھا ۔ آپؒ نے فوراً ہی ملک کا دورہ کیا اور مسلم رہنمائوں پر زور دیا کہ وہ اپنے اختلافات ختم کر کے مسلم کاز کیلئے سرگرم عمل ہوں۔ انہوں نے مسلمانوں کو اتحاد اور تنظیم کی راہ دکھائی۔ 

قیام پاکستان کے مطالبے کا پس منظر

ہندوستان میں مسلمانوں کو نفسیاتی، ثقافتی، سیاسی اور اقتصادی سمیت ہر محاذ پر مختلف چیلنج درپیش تھے۔اگرچہ ابتدائی طور پر وہ ہندوستان کے اندر رہتے ہوئے حقوق کے خواہاں تھے لیکن اس سلسلے میں ان کی ہر کوشش کو ہندو رہنمائوں نے ہی ناکام بنا دیا۔انہیں بے سوچے سمجھے حقارت سے ٹھکرا دیا گیا بلکہ انہیں ہر اعتبار سے ناکام بنا دیا گیا۔باوقار حل کی تلاش کیلئے قائد اعظمؒ نے خط و کتابت اور ملاقاتیں جاری رکھیں لیکن کانگریسی لیڈروں کی جانب سے انہیں ہر بار ٹکا سا جواب دیا گیا۔ کانگریس اقتدار کے نشے میں چورتھی۔اپنی شرائط کے سوا کسی بنیاد پر سمجھوتے کیلئے آمادہ نہ تھی۔کانگریس کی ہٹ دھرمی کی انتہا تو یہ تھی کہ لکھنو اجلاس کے بعد اگرچہ مسلم لیگ نے مسلم نشستوں پر زبردست کامیابی حاصل کی تھی لیکن کانگریس اب بھی اسے مسلمانوں کی نمائندہ جماعت تسلیم کرنے پر آمادہ نہ تھی۔انگریزوں کے خلاف مشترکہ جدوجہد کیلئے حضرت قائد اعظم نے کانگریس سے کسی معاہدے یا سمجھوتے کیلئے جتنی بھی کوششیں کیں انہیں نہ صرف مسلم لیگ کی کمزوری قرار دے کر مسترد کر دیا گیا بلکہ ان کا مذاق بھی اڑایا گیا۔ مثلاًاس نے بندے ماترم کو قومی ترانے کی حیثیت دے دی،سرکاری سکولوں میں اردو کی جگہ ہندی زبان کو نافذکر نے کے علاوہ گائے کے ذبح کے خلاف بھی قانون منظور کرائے گئے۔تعلیم اداروں میں ہندو عقائد پر مبنی مندر سکیم شروع کی گئی اور ملازمتوں میں مسلمانوں کو امتیازی سلوک کا نشانہ بناتے ہوئے ان کے حق سے محروم کر دیا گیا۔کانگریس کے اقدامات کے ساتھ ہی طول و عرض میں مسلم کش فسادات کا سلسلہ شروع ہو گیا۔صرف ایک برس میں 57سنگین اور خونریز فسادات ہوئے جن میں سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے ،مرنے والوں میں مسلمان زیادہ تھے۔

لگتا تھا کہ ہندوستان خانہ جنگی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔مسلم لیگ کے ایماء پر ان فسادات کی تین تحقیقاتی رپورٹیں مرتب کی گئیں، جن میں جامع شہادتوں اور ثبوتوں کے ساتھ کانگریس راج میں مسلمانوں کے ساتھ روا رکھی جانے والی زیادتیوں کی نشاندہی کی گئی تھی۔آپؒ نے اعلان کیا کہ انگریزوں نے جو سلوک روا ررکھا تھا ایک عام ہندو آج مسلمانوں کے ساتھ اس سے بھی برا سلوک کر رہا ہے۔ اکتوبر میں مسلم لیگ وزارتوں سے مستعفی ہو گئی، اور حضرت قائد اعظمؒ نے 22دسمبر 1939ء کو ہندوئوں کے ظالم کے خلاف ’’یوم نجات‘‘ منانے کی اپیل کی۔ آپؒ کی اپیل پر مسلمانوں نے جوش و خروش سے عمل کر کے ثابت کر دیا کہ مسلم لیگ ہی ان کی نمائندہ جماعت ہے۔ اور یہ کہ ہندوستان میں ان پرمظالم کئے جا رہے ہیں۔ کانگریس نے مسلمانوں کو کچلنے کیلئے اس قدر مذموم غیر منصفانہ اور متعصبانہ حربے اختیار کئے کہ قائد اعظم یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے تھے کہ اگر مسلمان الگ نہ ہوئے تو ان کا مستقبل کس قدر بھیانک ہو سکتا ہے ۔انہیں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ایک اقلیت بن کر رہنا ہو گا۔دو سالہ کانگریسی راج کا تجزیہ کرنے کے بعد ان کے یہ خدشات درست ثابت ہوئے کہ کانگریس کامقصد بے رحم اکثریت کے بل بوتے پر ہندو راج کے قیام کے سوا کچھ نہیں۔آپؒ نے فرمایا ’’ہم ایک قوم ہیں، ہماری تہذیب و تمدن، زبان و ادب، اقدار و اخلاقیات، قوانین و ضوابط، نام اور اصول ، ہماری رسوم اور تقویم، تاریخ اور رواج، رویے اور جذبات سب مختلف اور جدا ہیں۔زندگی کے بارے میں ہمارا اپنا نقطہ نظر ہے۔ بین الاقوامی قوانین کے تمام معیارات کے اعتبار سے ہم ایک قوم ہیں ‘‘۔ چوہدری رحمت علی نے اس کیلئے ’’پاکستان ‘‘کا نام تجویز کیا۔قراردادپاکستان اس کی جانب اہم پیش رفت تھی۔

 

’’ میرا کام ختم ہو گیا‘‘!

آل انڈیا مسلم لیگ سے خطاب

قائداعظم ؒنے آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں کہاکہ ’’ میں آپ کے فیلڈ مارشل کی حیثیت میں پاکستان کی جنگ کی قیادت کرتا رہا ہوں، یہ جنگ جیتی جا چکی ہے۔ میرا کام ختم ہو گیا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ فیلڈ مارشل منظر سے غائب ہو جائے‘‘۔( پروفیسر ایمبری : سرظفر اللہ کی یادداشتیں، صفحہ نمبر 182)

’’مجھے اس الزام پر فخر ہے‘‘

الٰہ آباد یونیورسٹی سے خطاب

قائد اعظمؒ نے الٰہ آباد یونیورسٹی میں اپنے خطاب میں کہا: ’’ اگر ملک کے لاکھوں کروڑوں عوام کی حالت بہتر بنانے اور اگر ہندوستان کے مسلمانوں کے سماجی، معاشی اور سیاسی معیار زندگی میں اضافہ کرنے کی جدوجہد پر مجھ پر فرقہ واریت کا الزام لگتا ہے تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ مجھے اس الزام پر فخر ہے‘‘۔

دہلی میں میڈیا سے خطاب

قائداعظمؒ نے 14جولائی 1947ء کو دہلی میں پریس بریفنگ کے دوران کہا کہ ’’میں نے اقلیتوں کے بارے میں جو بات بار بار کہی ہے اس سے ہرگز پیچھے نہیں ہٹوں گا۔ ہر بار جب میں نے اقلیتوں کے بارے میں گفتگو کی تو جو کچھ میرا مطلب تھا وہی میں نے کہا اور جو کچھ میں نے کہا وہی میرا مطلب تھا۔ اقلیتوں کا تحفظ کیا جائے گا۔ ان کا مذہب یا دین یا عقیدہ محفوظ ہوگا۔ ان کی عبادت کی آزادی میں کسی قسم کی مداخلت نہیں کی جائے گی۔

(قائداعظم : تقاریر و بیانات بزم اقبال، صفحہ 350)

اسلام مکمل ضابطہ حیات!

قائداعظم ؒ نے عید میلاد النبی ﷺ کے موقع پر اپنے خطاب میں زور دے کر کہا کہ ’’اسلام رسم و رواج، روایات اور روحانی نظریات کا مجموعہ ہے۔ اسلام ہر مسلمان کیلئے ایک ضابطہ بھی ہے جو اس کی زندگی، اس کے رویے بلکہ اس کی سیاسیات پر محیط ہے۔ اسلام میں ایک آدمی اور دوسرے آدمی میں کوئی فرق نہیں۔ مساوات، آزادی اور یگانگت اسلام کے بنیادی اصول ہیں۔ حضور اکرمﷺ نے تیرہ سو سال پہلے جمہوریت کی بنیاد ڈالی‘‘۔

پاکستان کا نظام حکومت 

قائداعظم ؒنے 1944ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی یونین کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ ’’سوشلزم، کمیونزم، نیشنل سوشلزم اور دیگر ازم کی باتیں خارج از بحث ہیں۔ آپ اس امر کا فیصلہ کر سکتے ہیں کہ آپ کو پاکستان میں کونسا نظام حکومت مطلوب ہو گا؟ یہ سوالات آپ کو فریب دینے کیلئے اٹھائے جاتے ہیں۔ جب آپ اپنے وطن کا قبضہ لے لیں گے تب یہ سوال اٹھے گا کہ آپ کونسا نظام رائج کرنا چاہتے ہیں‘‘۔ 

(قائداعظم : تقاریر و بیانات بزم اقبال، صفحہ 272)

سراپا عزم

سراپا عزم بن جائو بیادِ قائداعظمؒ

دلوں میں آگ سلگائو بیادِ قائداعظمؒ

وفا کے جام چھلکائو بہ نامِ رہ برِ ملت

عمل کے زمزمے گائو بیادِ قائداعظم

بھرو کچھ خوش نما رنگ اور بھی تصویرِ ہستی میں

نقوشِ زیست چمکائو بیادِ قائداعظمؒ

جو صحنِ گلستاں میں نکہتِ اخلاص پھیلائیں

وہ غنچے پھر سے چٹکائو بیادِ قائداعظمؒ

بکھیرو حریت کے نغمہ ہاے آ تشیں ہر سْو

ہر اک محفل کو گرمائو بیادِ قائداعظمؒ

جو آغازِ سفر کرتے ہوئے ہر اک نے باندھا تھا

وہی پیمان دہرائو بیادِ قائداعظمؒ

فسردہ قوم کے سینے میں پھر سے بجلیاں بھر دو

دلِ ملت کو دھڑکائو بیادِ قائداعظمؒ

                       (حفیظ تائب)

٭٭٭٭٭٭

کوہِ گراں

نئی منزل کے جب ابھرے نشاں تھے

وہی بانگِ رحیلِ کارواں تھے

چراغِ راہ تھے منزل نشاں تھے

امیرِ مسلمِ ہندوستاں تھے

وہ ہندی میکدے میں اک اذاں تھے

نوائے خوش سروشِ دلستاں تھے

دماغ و دل تھے وہ سب کی زباں تھے

وہ پوری قوم کی روحِ رواں تھے

ضعیفی تھی مگر بوڑھے کہاں تھے

اولو العزمی کے پہلو سے جواں تھے

بظاہر گو نحیف و ناتواں تھے

بباطن وہ مگر کوہِ گراں تھے

تنِ مسلم میں وہ قلبِ تپاں تھے

رگِ ملت میں وہ خونِ رواں تھے

سوا افروختہ داغِ نہاں تھے

سکوتِ شب میں وہ سوتے کہاں تھے

 (عبدالحمید صدیقی نظر لکھنوی)

دمِ تقریر یوں معجز بیاں تھے

کہ سب انگشت حیرت در دہاں تھے

خموشی بھی سخن پرور تھی ان کی

کبھی جب بولتے تو د?ر فشاں تھے

نگاہوں سے ٹپکتی تھی ذہانت

متانت کے وہ اک کوہِ گراں تھے

ستائش کیجئے جتنی بھی کم ہے

وہ اپنے عہد کی اک داستاں تھے

نظر رحمت کی ہو ان پر خدایا

وہ پاکستان کے بابا تھے جاں تھے

٭٭٭٭٭

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 

پی ایس ایل 10 کی تیاریاں عروج پر

پاکستان سپرلیگ(پی ایس ایل) کے 10 ویں ایڈیشن کی تیاریاں عروج پر پہنچ گئیں، پلیئرز کی ڈرافٹنگ مکمل،تمام 6 فرنچائزز نے سٹارز پر مشتمل اپنے سکواڈزمنتخب کر لیے تاہم سابق قومی کپتان سرفرازاحمد سمیت دنیائے کرکٹ کے کئی بڑے ناموں کو کوئی خریدار نہ ملا۔سرفراز احمد، نیوزی لینڈ کے تجربہ کار فاسٹ بالر ٹم ساتھی، آسٹریلیا کے عثمان خواجہ، انگلینڈ کے جیسن رائے اور ایلکس ہیلز کو پاکستان سپر لیگ(پی ایس ایل10) کے پلیئرز ڈرافٹ میں کسی نے منتخب نہ کیا۔

کون فاتح،کون شکست کے آگے سرنگوں

پاکستان ٹیسٹ کرکٹ ٹیم کی قیادت سنبھالنے کا اعزازاب تک35کرکٹرز کے نصیب میں لکھا گیا۔ عبدالحفیظ کاردارسے شروع ہونیوالے اس محاذ کی کمان اس وقت شان مسعود نے سنبھال رکھی ہے ،کون فتح کے راستے پر چلا اور کس کو شکست نے سرنگوں کردیا یہ ایک دلچسپ داستان ہے۔

مہمان پرندے

جب سے وہ یہاں آیا تھا بہت خوش تھا۔ یہ اس کا پہلا لمبا سفر تھا۔ وہ پہلی بار ماں کے ساتھ اتنے لمبے سفر پے نکلا تھا۔ ماں کہتی تھی کہ ہر سال جب بھی موسم سرد ہوگا ہمیں اپنے دوسرے گھر جانا ہوگا جو کہ دنیا کے دوسرے کونے پر ہے۔

آئو میلے پر چلیں!

باذل ایک چھوٹے سے گائوں میں اپنے گھر والوں کے ساتھ رہتا تھا۔ اگرچہ وہ لوگ غریب تھے مگر ان کے گھر کا ماحول بہت ہی خوشگوار تھا۔ ان کا گزر بسر سادہ تھا۔

غار کو تراش کر تعمیر کیا گیا شاندار ہوٹل

ترکی میں غار کو تراش کر تعمیر کردہ Yunak Evleriنامی ہوٹل دنیا بھر کے سیاحوں کی توجہ مرکز ہے۔چھ غاروں کو تراش کر گھروں کی طرز پر ڈیزائن کیا گیا یہ ہوٹل 30کمروں پرمشتمل ہے، جنہیں پانچویں اور چھٹی صدی کے انداز میں سجایا گیا ہے۔

ذرامسکرایئے

انکم ٹیکس آفیسر راہ چلتے ہوئے ایک بچے نے سکہ نگل لیا۔ اس کی ماں بڑی پریشان ہوئی۔ کافی کوششوں کے بعد بھی سکہ نہ نکل سکا، پاس ہی سے ایک آدمی گزر رہا تھا۔اس نے بچے کو الٹا کیا اور سکہ نکال لیا۔