سیاسی ماحول میں کشیدگی اور محاذآرائی کا کھیل
پی ٹی آئی کے اسلام آباد جلسہ کے بعد سیاسی ماحول کی تلخیوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر ارکانِ اسمبلی کی گرفتاری کے جو مناظر دیکھنے کو ملے ، سے ظاہر ہوتا ہے حالات بہتری کی طرف نہیں بگاڑ کی طرف بڑھ رہے ہیں جو کسی طورملک کے مفاد میں نہیں۔
اس وقت قومی سیاست کو اتحاد اور اتفاق کی ضرورت ہے کیونکہ جو معاشی حالات ہیں وہ کسی بھی طرح سے ہمارے حق میں نہیں۔ آئی ایم ایف سے سات ارب ڈالر قرض معاہدہ کے حتمی نتائج بھی سامنے نہیں آرہے اور وزیر خزانہ کے بقول اس سطح پر ہمیں ابھی کافی مشکلات کا سامنا ہے۔ پی ٹی آئی کے اسلام آباد جلسہ میں جو تقاریر کی گئیں بالخصوص وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور کی ریاستی اداروں اور حکومت مخالف تقریر کافی سخت تھی۔ حکومت اور مقتدرہ کی سطح پر اس پر ردعمل بھی دیکھنے کو مل رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ کچھ لوگ پی ٹی آئی اور مقتدرہ میں مفاہمت کے حامی نہیں اور ایسے لوگ پی ٹی آئی میں بھی ہیں جو چاہتے ہیں کہ ان کی مقتدرہ سے لڑائی جاری رہنی چاہیے۔ پی ٹی آئی کو اسلام آباد میں جلسہ کی اجازت ملنا مثبت بات تھی اور اس سے یقینی طور پر پی ٹی آئی کی قیادت کو فائدہ اٹھانا چاہیے تھا لیکن ایسا لگتا ہے کہ پی ٹی آئی نے اس موقع کوضائع کردیا او را ب حکومت ان کو کسی صورت لاہور میں جلسے کی اجازت دینے کے لیے تیار نہیں ہو گی۔ اب دیکھنا ہوگا کہ کیا پی ٹی آئی لاہو رمیں جلسہ کرسکے گی یا اس کو اس جلسہ کی اجازت مل سکے گی؟ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان او رنئے سیکرٹری جنرل سلما ن اکرم راجہ کہتے ہیں کہ حکومت کی طرف سے اجازت ملے یانہ ملے ہم جلسہ ہر صورت کریں گے۔ یقینی طور پر آنے والے دنوں میں ہمیں حکومت او رپی ٹی آئی کے درمیان کئی سطح پر محاذآرائی دیکھنے کو مل سکتی ہے اور حالات مزید خرابی کی طرف بڑھ سکتے ہیں۔عمران خان نے او رپی ٹی آئی کی کورکمیٹی نے جمعہ کو ملک بھر میں احتجاج کی کال دی ہوئی ہے اور کہا ہے کہ اب کسی بھی سطح پر مقتدرہ سے بات چیت نہیں ہوگی کیونکہ ہم سے جو بھی وعدہ کیا گیا یا یقین دہانی کرائی گئی تھی اس پر عمل نہیں کیا گیا۔ عمران خان نے اعتراف کیا ہے کہ اسلام آباد میں 22 اگست کوہونے والا جلسہ جو انہوں نے منسوخ کیا اس میں مقتدرہ کی خواہش کو مدنظر رکھ کر فیصلہ کیا گیا تھا۔ اب جو کچھ ہورہا ہے عمران خان اس کا الزام حکومت اور مقتدرہ پر عائد کرتے ہیں کہ وہ انہیں سیاسی راستہ دینے کوتیار نہیں۔ عمران خان نے مقتدرہ کے خلاف علی امین گنڈا پور کی تقریر کی حمایت کی ہے اور کہا ہے کہ جو پارٹی ارکان اس تقریر کی مخالفت کررہے ہیں وہ پارٹی چھوڑ دیں۔ان کے بقول جو لوگ وزیر اعلیٰ کے بیانات پر معافی مانگ رہے ہیں وہ بزدل ہیں۔عمران خان کا لب ولہجہ بتارہا ہے کہ وہ مقتدرہ سے مفاہمت کے لیے تیار نہیں اور نہ ہی اپنی سیاسی پوزیشن پر سمجھوتہ کرنے کو تیار ہیں۔دوسری جانب قومی اسمبلی کے سپیکر سردار ایاز صادق نے پارلیمنٹ کے سامنے ارکان اسمبلی کی گرفتاری کی شدید مذمت کی او رآئی جی اسلام آباد سمیت دیگر پولیس افسران کو طلب کیا او رکہا کہ ان معاملات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ پیپلزپارٹی ، ایم کیو ایم اور جے یو آئی نے بھی پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے سے ارکان اسمبلی کی گرفتاری کی سخت مذمت کی اور کہا کہ حکومت کو اس پر ایکشن لینا ہوگاکیونکہ جو کچھ آج پی ٹی آئی کے ساتھ ہورہا ہے کل کویہ سب کسی اور کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے۔حکومتی اقدامات پر یا پولیس کے طرز عمل پر کسی حکومتی اتحادی جماعت نے حکومت کا ساتھ نہیں دیا اور حکومت کو ان معاملات میں کسی قسم کی حمایت دینے سے بھی انکار کیاہے۔ سیاسی حلقوں میں خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ کی کئی گھنٹوں پر مشتمل گمشدگی کی خبریں بھی زیر بحث ہیں کہ وہ کئی گھنٹے تک کدھر تھے اور ان کی کن کن افراد سے ملاقاتیں ہوئیں او رکیا باتیں ہوئیں۔کہا جاتا ہے کہ علی امین گنڈا پور عمران خان کے بہت قریب ہیں اور اسی وجہ سے اسلام آباد کے جلسہ میں کے پی کے سے وہ سیاسی قیادت نظر نہیں آئی جو وزیر اعلیٰ پر تحفظات رکھتی ہے او رایسا تاثر دیا گیا کہ اسلام آباد کا سیاسی شو علی امین گنڈا پور کا شو تھا۔اب سوال یہ بھی ہے کہ اگر عمران خان کی بات مان لی جائے کہ مقتدرہ سے کوئی بات چیت نہیں ہوگی تو اس کا مطلب یہی سمجھا جائے گا کہ اب دوبارہ پی ٹی آئی اورمقتدرہ کے درمیان سیاسی فاصلے بڑھیں گے او رنقصان قومی سیاست کا ہوگا جو پہلے ہی مفاہمت سے بہت دور کھڑی ہے۔ خیبر پختونخوا اسمبلی کی طرف سے اداروں کی سیاسی مداخلت کے خلاف متفقہ قراردادبھی یقینی طور پر اداروں اور پی ٹی آئی کے درمیان تلخیوں کو جنم دے گی۔ دوسری جانب صدر آصف علی زرداری اور وزیر اعظم کی طرف سے ارکان قومی اسمبلی کے اعزاز میں عشائیہ دیاگیا اور ایسا لگتا ہے کہ حکومت اور اس کی اتحادی جماعتوں نے عدلیہ کے حوالے سے ایک خاص قانون سازی کرنے کافیصلہ کیا ہے۔بڑا فیصلہ تو چیف جسٹس کی توسیع کا ہے اور چیف جسٹس نے کہا ہے کہ وہ ایکسٹینشن کے حامی نہیں اور اگر توسیع کا معاملہ انفرادی ہوا تو اسے قبول نہیں کروں گا مگر قانون سازی کا تعلق انفرادی کی بجائے اجتماعی طور پر ہوا تو انہیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔حکومت قانون سازی میں سنجیدہ نظر آتی ہے اور اس کے لیے مولانا فضل الرحمن کو بھی سیاسی طور پر رام کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔مولانا فضل الرحمن کے مطالبات ہیں کہ اگر ان کو کے پی کے کی گورنر شپ ، دو سینیٹرز اور وزارتوں سمیت ان کے بیٹے کے الیکشن ٹریبونل میں مقدمہ پر غور کیا جائے تو وہ حکومت کا ساتھ دے سکتے ہیں۔بظاہر ایسا لگتا ہے کہ حکومت میں شامل دونوں جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی نے مولانا فضل الرحمن کو رام کرلیا ہے اور اگر حکومت نے قانون سازی کی طرف جانا ہے تو یہ مولانا فضل الرحمن کی حمایت کے بغیر ممکن نہیں ہوگی۔اس لیے اس وقت مولانا فضل الرحمن کی سیاسی قسمت جاگی ہے اور وہ ایک ہی وقت میں حکومت اور اپوزیشن دونوں کے لیے اہمیت اختیار کرگئے ہیں۔ اب دیکھنا ہوگا کہ مولانافضل الرحمن کا سیاسی پلڑا کس طرف جھکتا ہے اور کیا پیپلزپارٹی مولانا فضل الرحمن کی خواہش پرکے پی کے کی گورنر شپ کی قربانی دینے کے لیے تیار ہوجائے گی کیونکہ مولانا سمجھتے ہیں کہ اس موقع پر وہ حکومت او ر اتحادی جماعت کو سیاسی طور پر رام کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس لیے دیکھنا ہوگا کہ نئے حالات میں سیاسی اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے اور قومی سیاسی عمل میں جو محاذآرائی اور کشیدگی ہے اس میں کچھ بہتری ہوگی یا حالات مزید بگڑیں گے۔