نعت خوانی کے شرعی آداب
نعت خوان کا با وضو، با ادب ،با عمل اور اہل علم میں سے ہونا ضروری ہے،نعت خوانی کیلئے پیسے طے کرنایاپیسے لینے کی نیت کرنا شرعاً جائز نہیں
حضور نبی اکرمﷺ کی عظمت و رفعت کا بیان، اوصاف حمیدہ کی تعریف، اخلاق حسنہ کا ذکر، معجزات و کمالات کا بیان، آپﷺ کے شمائل کا تذکرہ ابتدائے آفرینش سے جاری ہے۔ نعت گوئی کی تاریخ کو کسی زمانے کے ساتھ مخصوص نہیں کیا جا سکتا البتہ یہ کہا جا سکتاہے کہ نعت گوئی کا سلسلہ ازل سے شروع ہوا اور ابد تک جاری رہے گا۔ آپﷺ کی آمد سے قبل بھی آسمانی صحیفوں اور کتب میں آپ ﷺکی آمد کی بشارتیں اور اوصاف حمیدہ درج ہیں۔ خود رب قدیرنے قرآن مجید میں مختلف انداز میں آپ ﷺ کی شان (نعت) بیان فرمائی ہے۔ صحابہ کرامؓ نعت رسولﷺ کو اپنا مقصد زندگی سمجھتے تھے۔ دربار رسول ﷺ کے مقبول شاعر حضرت حسانؓ جب نعت پڑھتے تو ان کا کلام سن کر سامعین کے قلب و جگر پر طاری ہونے والی کیفیت اور وارفتگی کا اظہار و بیان ناممکن ہے۔نبی کریمﷺکا تذکرہ نثر میں ہو یا نظم میں، مدح و نعت کی صورت میں ہو یا رہبری و راہنمائی کے حوالہ سے ہو، ہر طرح باعث برکت ہے۔
نعت کامعنی ومفہوم
نعت عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی وصف و خوبی اور تعریف و توصیف کے ہیں۔ عُرفِ عام میں نعت رسول اللہ ﷺ کی تعریف و توصیف بیان کرنے والی نظم کو کہا جاتا ہے،چاہے وہ نظمی ہوں یا نثری۔
قرآن مجیداورحضورﷺکی نعت
اللہ تعالیٰ نے اس مقدس کتاب میں جگہ جگہ اپنی حمد وثنا کے ساتھ اپنے حبیبِﷺ کی نعت و صفات بھی بیان کی ہیں جو کہ نثری نعت کے بہترین نمونے ہیں ۔ چند آیاتِ طیبات خاطر نشین ہوں ، ’’ اور بیشک آپﷺ عظیم الشان خلق پر قائم ہیں‘‘ (القلم:4 )۔ اے نبی (مکرّم) ﷺ بیشک ہم نے آپ کو (حق اور خَلق کا) مشاہدہ کرنیوالا اور (حسن آخرت کی) خوشخبری دینے والا اور (عذابِ آخرت کا) ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہے،اور اس کے اِذن سے اللہ کی طرف دعوت دینے والا اور منوّر کرنے والا آفتاب (بنا کر بھیجا ہے‘‘ (الاحزاب: 45،46) ۔ ’’بیشک اللہ اور ا س کے فرشتے نبیِ (مکرمّ )ﷺ پر درود بھیجتے رہتے ہیں، اے ایمان والو! تم (بھی) اُن پر درود بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کرو‘‘ (الاحزاب: 56)۔ درج بالا آیات نثری نعت کے نمونے کے طور پر نقل کی ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں بہت سی جگہوں پر رسول کریمﷺ کا ذکر بڑے شانداراندازمیں کیا ہے۔
نعت خوانی
محافل نعت میں حمد باری تعالیٰ کے ساتھ خوش الحانی سے نعتیہ اشعار کا پڑھنا اور حاضرین کا نیت نیک سے سننا جائز ومستحسن ہے۔بخاری شریف میں ہے کہ نبی کریمﷺ حسان بن ثابتؓ کیلئے منبر بچھواتے اور وہ اس پر کھڑے ہو کر نعت اقدس سناتے جبکہ حضور نبی اکرمﷺ سنتے تھے۔ان کے علاوہ دیگر صحابہ کرامؓ نے بھی بارگاہِ رسالتﷺ میں کھڑے ہو کر نعت خوانی کا شرف حاصل کیا ہے۔ تا ہم نعت خوانی کیلئے چند آداب کا خیال رکھنا ضروری ہے ۔(1)نعت سادہ، خوش الحانی کے ساتھ ہو، گانوں کی طرز پر نہ پڑھی جائے(فتاویٰ رضویہ جلد 23، صفحہ363)۔ (2)نعت خوانی آلاتِ لہو و لعب اور افعالِ لغو مثلاً مزا میر وغیرہ کے ساتھ نہ کی جائے(فتاویٰ رضویہ جلد 24صفحہ79)۔
دف اور نعت خوانی
دف کا حکم عام آلاتِ لہو و لعب سا نہیں بلکہ خوشی کے لمحات میں اس کا استعمال جائز ہے مگر اس کیلئے چند شرائط ہیں۔امام احمد رضا خاں قادری حنفیؒ لکھتے ہیں ’’اوقات مسرور میں دف جائز ہے بشرطیکہ اس میں جلا جل یعنی جھانج نہ ہو۔نہ وہ موسیقی کے تان سر پر بجایا جائے،ورنہ وہ بھی ممنوع‘‘ (فتاویٰ رضویہ ، جلد25،صفحہ37)
نعت خواں کاباعمل ہونا
نعت خواں کا با وضو، با ادب ،با عمل اور اہل علم میں سے ہونا ضروری ہے۔امام احمد رضا خان قادری ؒسے ایک سوال کیا گیا کہ جو شخص شریعت مطہرہ کا مخالف مثلاً تارک الصلوٰۃ،شارب خمر،داڑھی منڈانے یا کترانے والا، بے وضونعت خوانی کرتا ہو۔ ایسے شخص کا اسٹیج پر بیٹھ کرنعت خوانی کرنا یا بانی محفل و مجلس و حاضرین و سامعین کا ایسے شخص کو خوش آواز ی کی وجہ سے چوکی پر بٹھانا کیسا ہے؟ امام احمد رضا ؒنے فرمایا ’’مذکورہ بالا افعال سخت کبائر ہیں۔ان کا مرتکب فاسق و گناہگار غضب الہٰی کا سزا وار ہے۔خوش آواز ی کی وجہ سے اسے منبر و مسند پر تعظیماً بٹھا کرنعت پڑھوانا حرام ہے۔ان حاضرین ومیلاد(نعت) خوان سبھی کا گناہ بانی محفل پر ہے‘‘ (فتاویٰ رضویہ، جلد23،صفحہ733)
نعت خوانی اورپیسوں کامطالبہ
نعت خوانی کیلئے پیسے طے کرنایاپیسے لینے کی نیت کرنا شرعاً جائز نہیں۔امام احمد رضا خان قادری حنفیؒنے ارشاد فرمایا ’’نعت خوانی کی اُجرت مقرّر کرنا ناجائز وحرام ہے ۔ اس پر واجِب ہے کہ جن جن سے فیس لی ہے یاد کرکے سب کو واپس کردے ، وہ نہ رہے ہوں تو ان کے وارِثوں کو پھیرے ، پتا نہ چلے تو اتنا مال فقیروں پر تصدُّق کرے اور آئندہ اس حرام خوری سے توبہ کرے ،تو گناہ سے پاک ہو گا (فتاویٰ رضویہ، ج23، ص724-725)
محافل نعت اورہماری ذمہ داری
٭…نعت خوانی کی محافل کو نمود و نمائش کا ذریعہ نہ بنایا جائے، نمازوں کی ادائیگی کا خاص خیال رکھا جائے، شرکاء باوضو ہو کر اور سروں کو ڈھانپ کر محافل نعت میں شریک ہوں اور دورانِ محفل مودّب ہو کر بیٹھیں۔
٭محافلِ نعت میں مستند شعراء کا نعتیہ کلام پڑھا جائے، گانے کی طرز پر نعت پڑھنا حرام ہے، محافل میں نعت کے ساتھ حمد بھی پڑھی جائے۔
٭محافل نعت میں شرکاء سے نماز کی پابندی کرنے اور جھوٹ، بد دیانتی، کینہ پروری، حسد، غیبت اور دوسری باقی برائیوں کو چھوڑنے کا حلف لیا جائے، غیر ضروری اخراجات نہ کئے جائیں، محفل کے دوران نعت خواں پر نوٹ نچھاور کرنے سے گریز کیا جائے۔
٭ہر محفلِ نعت میں کوئی دینی کتاب یا پمفلٹ شرکاء میں مفت تقسیم کیا جائے۔
٭نعت پڑھنے اورسننے سے خوف خدا اور عشق رسولﷺ پیدا ہوتا ہے۔ نعت خوانی کو کاروبار اور فیشن نہ بنایا جائے، نعت کو گانے کی طرز پر پڑھنا حُب رسول کی کھلی نفی ہے۔
٭محافلِ نعت کو اشاعتِ دین کا پلیٹ فارم بنانے کیلئے علماء، بانیانِ محافل اور نعت خواں حضرات اپنا اپنا کردار ادا کریں اور محافلِ نعت کو مساجد و مدارس اور روحانی خانقاہوں پر منعقد کرنے کو ترجیح دی جائے۔
٭نقیب حضرات اللہ تعالیٰ اوراس کے حبیب ﷺکے ذکر کو ترجیح دیں۔ خوشامدانہ طرزِ عمل ترک کریں۔
٭سیرت النبیﷺ اوراسوہ حسنہ کے نمایاں اوصاف جن سے آج پاکستانی معاشرے کی اکثریت محروم اورعاری ہے اپنائے جائیں۔
نبی کریمﷺ کونام سے
پکارنے کی ممانعت
حضورﷺ کی تعظیم وتوقیر اور آپﷺ کی بارگاہ میں کلمات ادب سے عرض کرنا تقاضائے ایمان ہے، جس کلمہ میں ترک ادب کاشائبہ ہووہ زبان پرلانا بھی ممنوع و حرام ہے۔ یہی تعلیمات قرآن کاخلاصہ ہے، قرآن حکیم نے ہرمقام پر آقائے دوجہاں کی عزت وتوقیر اورتعظیم و تکریم کا پاس و لحاظ رکھاہے پورے قرآن میں اللہ رب العزت نے کسی بھی مقام پر حضورﷺ کو ذاتی نام سے نہیں پکارا بلکہ مختلف صفات و القاب سے مخاطب کیا، کبھی یا ایھا النبی، یا ایھا لرسول، فرما کر آپ ﷺ کو یاد کیا، کبھی یاایھا المزمل،یاایھالمدثر کے الفاظ سے پکارا اورکبھی طہٰ، یسین کہہ کر مخاطب کیا۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ارشادفرمایا:(اے مسلمانو!) تم رسول کے بلانے کو آپس میں ایک دوسرے کو بلانے کی مثل قرار نہ دو (جب رسولِ اکرمﷺ کو بلانا تمہارے باہمی بلاوے کی مثل نہیں تو خود رسولﷺ کی ذاتِ گرامی تمہاری مثل کیسے ہو سکتی ہے)، بے شک اللہ ایسے لوگوں کو (خوب) جانتا ہے جو تم میں سے ایک دوسرے کی آڑ میں (دربارِ رسالت سے) چپکے سے کھسک جاتے ہیں، پس وہ لوگ ڈریں جو رسول (ﷺ) کے امرِ (ادب) کی خلاف ورزی کر رہے ہیں کہ (دنیا میں ہی) انہیں کوئی آفت آ پہنچے گی یا (آخرت میں) ان پر دردناک عذاب آن پڑے گا‘‘ (سورۃ النور:63)
گویا حضورﷺ کی تعظیم وتکریم اورتوقیر بجالانا تعلیمات قرآن کی تعمیل ہے اور قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے جہاں حضور نبی کریمﷺ کو آپﷺ کے اسم گرامی کے ساتھ خطاب کیا وہاں آپﷺ کی شان رسالت اور دیگر کسی صفت کا ذکر ضرور فرمایا تاکہ آپﷺ کے مقام محبوب خداکی انفرادیت واضح ہو۔