فردمعاشرہ اور اخلاق نبویﷺ

تحریر : مفتی ڈاکٹرمحمد کریم خان


’’ (اے حبیب) اللہ تعالیٰ کی رحمت سے آپﷺ لوگوں سے نرمی کے ساتھ پیش آتے ہیں، اگر آپ سخت مزاج اور سخت دل والے ہوتے تو یہ لوگ آپ کے پاس سے ہٹ جاتے‘‘(الانعام:159)حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں، رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’کامل ترین مومن وہ ہے جو اخلاق میں اچھا ہو اور اپنے اہل وعیال کیلئے نرم خو ہو‘‘(مشکوٰۃ المصابیح:3263)

حضور نبی اکرمﷺ کی ذات مبارکہ اخلاق حسنہ و سیرت طیبہ کے اعتبار سے وہ منور آفتاب ہے، جس کی ہر جھلک میں حسن خلق نظر آتا ہے۔ آپ ﷺ کی ذات پاک میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا حلم، حضرت موسیٰ ؑ کا جوش اور حضرت ایوب ؑ کا صبر پایا جاتا ہے۔ آپﷺنے تبلیغ اسلام کیلئے بستیوں اور بیابانوں میں اللہ کا پیغام پہنچایا، مخالفین کی سنگ زنی وسختیاں سہیں۔ حضرت ابراہیم ؑ کی طرح وطن چھوڑا اور ہجرت کی، دنیا انسانیت کو امن و محبت، رحمت اور سلامتی کا پیغام دیا۔ حضرت سلیمانؑ کی طرح اس دنیا میں حکمت کی طرح ڈالی، غرض وہ تمام خوبیاں، اوصاف حمیدہ جو پہلے انبیاء ؑ میں پائی جاتی تھیں۔ وہ سب بدرجہ کمال حضور اکرمﷺ کی ذات میں موجود تھیں۔

 اخلاق انسان کاایک ایسا جزو ہے کہ جس کے اندر یہ صفت پائی جاتی ہے تو سمجھ لیجئے کہ وہ کامل انسان ہے۔ قیامت کے دن مومن کے میزان عمل میں کوئی چیز حسن اخلاق سے زیادہ باوزن نہیں ہوگی۔ اسی طرح مومن اپنے حسن اخلاق ہی کی وجہ سے ہمیشہ روزہ رکھنے اور تہجد گزار کا مرتبہ حاصل کرلیتا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’تم میں کامل ایمان والاوہ شخص ہے جو اخلاق کے اعتبار سے سب سے اچھا ہو‘‘ (جامع ترمذی: 1162)

ایک انسان کے اخلاق معاشرے میں مثبت اور منفی کرداراداکرنے کی قوت رکھتے ہیں۔ا چھے معاشرے کی تشکیل ہمیشہ بااخلاق افراد سے ہوتی ہے۔دین ِ اسلام نے اخلاق کا رول ماڈل نبی کریمﷺ کی صورت میں ہمیں عطا کیا جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’یقیناًتمہارے لیے رسول اللہﷺ(کی زندگی) اچھا نمونہ ہے‘‘۔اورنبی کریمﷺکے اخلاق کے متعلق قرآن ان الفاظ میں گویاہے: ’’اور یقیناً آپ (ﷺ) اخلاق کے عظیم مرتبہ پرفائزہیں‘‘(القلم:4)۔

حضورﷺ کا مزاج گرامی

 حضورنبی کریم ﷺکے مزاج گرامی کے متعلق اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے: ’’(اے حبیب ﷺ) اللہ تعالیٰ کی رحمت سے آپ ﷺلوگوں سے نرمی کے ساتھ پیش آتے ہیں اگر آپﷺ سخت مزاج اور سخت دل والے ہوتے تو یہ لوگ آپﷺ کے پاس سے ہٹ جاتے‘‘ (سورۃ الانعام: 159)۔

اخلاقی ذمہ داریاں

 اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب مکرمﷺ کی صورت میں ہر مسلمان مومن کیلئے زندگی گزارنے کا بہترین نمونہ مہیا فرما دیا،زندگی کی ہر جہت میں اور ہر کردار میں، انفرادی نشوونما سے لے کر معاشرے کی تشکیل تک ہمیں آقا کریم ﷺ کی سیرتِ طیبہ سے رہنمائی حاصل ہوتی ہے۔ ذیل میں چندایسے اموربیان کیے جارہے ہیں جن میں عصر حاضر کے اندر معاشرے کے ہر فرد کیلئے نبی کریم ﷺکااسوہ موجود ہے۔

باپ کی ذمہ داری

 صاحبِ اولاد ہونا خالقِ کائنات کی بہت بڑی نعمت اور عطا ہے۔ نبی کریم ﷺنے اپنی شہزادیوں اور شہزادوں (نواسوں) کی بہترین تربیت فرما کر ہر والد کو اس کی اخلاقی ذمہ داریوں کو بخوبی ادا کرنے کا مکمل کلیہ عطا فرمایا ہے۔بچپن سے لے کر جوانی تک، اولاد کی تعلیم و تربیت سے لے کر شادی بیاہ کے معاملات تک اور ان کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے سے لے کر انہیں معاشرہ کا کارآمد فرد بنانے تک، غرضیکہ ہر زاویے سے اولاد کی تربیت میں والدین کا کیا کردار ہونا چاہئے، آقا کریمﷺ نے اسے خود کر کے دکھایا اور سمجھایا ہے۔ 

حضرت مقدام بن معدیکرب ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: تم اپنے آپ کو جو کھلائو گے، وہ تمہارے لیے صدقہ ہو گا، تم اپنی اولاد کو جو کچھ کھلائو گے، وہ بھی تمہاری طرف سے صدقہ ہو گا،تم اپنی بیوی کو جو کچھ کھلائو گے، وہ بھی تمہارا صدقہ ہو گا اور تم اپنے خادم کو جو کچھ کھلائو گے، وہ بھی تمہاری طرف سے صدقہ ہو گا‘‘ (مسند احمد: 3662)

ماں کی ذمہ داری

ماں کی گود بچے کی درس گاہ اوّل ہے۔ اسی عظیم درس گاہ سے وہ اخلاق حسنہ، اطاعت و فرمانبرداری اور دنیا میں زندگی گزارنے کے سلیقے، ڈھنگ اور طور طریقے لے کر معاشرے کا حصہ بنتا ہے۔ اس لئے ماں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اولاد کی تربیت اس طرز پر کرے کہ ان کے رگ و ریشہ میں دین کی روح پھونک دے اور معاشرے میں اس کی اولادپرامن ،سلیقہ شعار اوراخلاق حسنہ سے مزین ہوکر زندگی بسرکرے۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ ماں از خود صفات کاملہ کی حامل ہو اس لئے کہ بچہ جیسے ماں کو دیکھے گا ویسا ہی بننے کی کوشش کرے گا۔ والدین کی ذمہ داری ہے کہ ان کی دنیاکوسنوارنے کے ساتھ ساتھ ان کی آخرت کوبھی سنواریں۔ قرآن حکیم اورسنت نبویہ کی تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ ان کوسورتیں اوراحادیث زبانی یاد کروائیں جن کاتعلق معاملات اوراخلاقیات سے ہو۔

اولادکی ذمہ داری

 اللہ رب العزت نے انسانوں کو مختلف رشتوں میں پرویا ہے، ان میں کسی کو باپ بنایا ہے تو کسی کو ماں کا درجہ دیا ہے اور کسی کو بیٹا بنایا ہے تو کسی کو بیٹی کی نسبت عطا کی ہے۔ غرض ر شتے بنانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کے حقوق مقر ر فرمائے ہیں ، ان حقوق میں سے ہر ایک کا ادا کر نا ضروری ہے ، لیکن والد ین کے حق کو اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں اپنی بندگی اور اطاعت کے فوراً بعد ذکر فرمایا۔ یہ اس بات کی طرف اشا رہ ہے کہ رشتوں میں سب سے بڑا حق والدین کا ہے ۔قرآن مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’اور تیرے رب نے یہ حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت مت کرو اور اپنے ماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آؤ، اگر وہ تیری زندگی میں بڑھاپے کو پہنچ جائیں، چاہے ان میں ایک پہنچے یا دونوں (اور ن کی کوئی بات تجھے ناگوار گزرے تو) ان سے کبھی ’’ہوں ‘‘ بھی مت کرنا اور نہ ان سے جھڑک کر بولنا اور ان سے خوب ادب سے بات کر نا، اور ان کے سامنے شفقت سے انکساری کے ساتھ جھکے رہنا اور یوں دعا کر تے رہنا : ’’اے ہمارے پروردگار ! تو اُن پر رحمت فرما، جیسا کہ انہوں نے بچپن میں مجھے پالا ہے۔ تمہارا رب تمہارے دل کی بات خوب جانتا ہے اور اگر تم سعادت مند ہو تو وہ توبہ کرنے والے کی خطائیں بکثرت معاف کرنے والا ہے‘‘(بنی اسرائیل: 23-25)

 حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ: ایک شخص نے پوچھا : اللہ کے رسول ﷺ! لوگوں میں سے ( میری طرف سے) حسنِ معاشرت کا سب سے زیادہ حقدار کون ہے؟ آپ ﷺنے فرمایا: تمہاری ماں ، پھر تمہاری ماں ، پھر تمہاری ماں، پھر تمہارا باپ ، پھر جو تمہارا زیادہ قریبی (رشتہ دار ) ہو ، ( پھر جو اس کے بعد) تمہارا قریبی ہو‘‘ (سنن ابن ماجہ:3658)۔

 حضرت ابو امامہ ؓسے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! والدین کا حق ان کی اولاد پر کیا ہے؟ آپ ﷺنے فرمایا: وہی دونوں تیری جنت اور جہنم ہیں‘‘ (ابن ماجہ: 3662)۔

حضرت عائشہ  ؓ فر ما تی ہیں، ایک شخص رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، اس کے ساتھ ایک بوڑھا آدمی بھی تھا۔ نبی کریم ﷺنے پوچھا کہ یہ بوڑھا کون ہے؟ اس شخص نے جواب میں کہا یہ میرا باپ ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اُن کے آگے مت چلنا، مجلس میں اُن سے پہلے مت بیٹھنا، ان کا نام لے کر مت پکارنا، ان کو گالی مت دینا ‘‘ (المعجم الاوسط، للطبرانی: 4169)

شوہر کی ذمہ داری

 درحقیقت خاندان ایک چھوٹامعاشرہ ہے جو دوافراد یعنی میاں بیوی کے ذریعے قائم ہے۔ قرآن کریم نے ان کے درمیان محبت والفت کا ہدف اطمینان اورسکون کو قرار دیا ہے ۔بیویوں کے حقوق کے بارے میں آپ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پرشوہروں کوتنبیہ فرمائی: ’’لوگو! عورتوں کے بارے میں میری وصیت قبول کرو، وہ تمہاری زیر نگین ہیں، تم نے ان کو اللہ کے عہد پر اپنی رفاقت میں لیا ہے، تمہارا ان پر یہ حق ہے کہ گھر میں کسی ایسے شخص کو نہ آنے دیں جس کا آنا تمھیں ناگوار ہے اگر ایسا کریں تو تم انہیں ہلکی مار، مار سکتے ہو، تم پر انہیں کھلانا اور پلانا فرض ہے‘‘ (صحیح مسلم: 1218)۔ ایک اور حدیث میں آپﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنی بیویوں کیلئے بہترین ثابت ہو اور خود میں اپنے اہل وعیال کیلئے تم سب سے بہتر ہوں‘‘ (مشکوٰۃ المصابیح: 3252)۔

حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے ارشادفرمایا: ’’کامل ترین مومن وہ ہے جو اخلاق میں اچھا ہو اور اپنے اہل وعیال کیلئے نرم خو ہو‘‘۔(مشکوٰۃ المصابیح:3263)

نبی کریمﷺ کے فرمان سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مردوں کو بیویوں کے حق میں سراپا محبت وشفقت ہونا چاہیے اور ہر جائز امور میں ان کی حوصلہ افزائی اور دلجوئی کرنی چاہیے۔ کچھ لمحوں کیلئے دوسروں کے سامنے اچھا بن جانا کوئی مشکل کام نہیں حقیقتاً نیک اور اچھا وہ ہے جو اپنی بیوی سے رفاقت کے دوران صبر و تحمل سے کام لینے والا ہو اور محبت وشفقت رکھنے والا ہو۔

بیوی کی ذمہ داری

 بیوی پر بھی شریعت نے اپنے شوہر کے متعلق کچھ ذمہ داریاں عائدکی ہیں جن کا خیال رکھنا بیوی پر لازم ہے۔ احادیث مبارکہ ان کا ذکر ملتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے نکاح کے بعد حضرت علی ؓ اور حضرت فاطمہؓ کے مابین تقسیم کار اس طرح فرمایا کہ باہر کا کام حضرت علی ؓ کے ذمہ اور گھر کا کام حضرت فاطمہ ؓ کے ذمہ (زاد المعاد)۔ رسول کریمﷺ نے فرمایا: اگر میں کسی کو یہ حکم کر سکتا کہ وہ کسی (غیر اللہ) کو سجدہ کرے، تو میں یقیناً عورت کو حکم کرتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے (مشکوٰۃ المصابیح:3255)۔

آپﷺ سے دریافت کیا گیا کہ بہترین عورت کونسی ہے؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جسے اس کا شوہر دیکھے تو خوش ہو جائے اور جب وہ اسے کسی چیز کا حکم دے، تو اسے بجا لائے اور اس کے مال اور اپنی ذات کے اعتبار سے کوئی ایسا فعل نہ کرے جو اسے (شوہرکو ) ناپسند گزرے‘‘ (مشکوٰۃالمصابیح: 3272)۔ بیوی کے ذمہ شوہر کے سامان و مکان کی نگرانی، صفائی ستھرائی اور سلیقہ مندی سے اسے رکھنا۔ بچوں کی پرورش و تربیت کرنا، شوہر کی دلجوئی و اطاعت کرنا واجب ہے۔

بھائی کی ذمہ داری

 والدین کے بعد بہن بھائی کا آپس کا رشتہ بہت قریبی شمار کیا جاتا ہے، والدین کے مرنے کے بعد عموماً ان کے درمیان تعلقات خراب ہونے کا خطرہ رہتا ہے، لہٰذا بھائی بہنوں کے درمیان ناراضیوں کا دروازہ بند کرنے کیلئے والدین کے بعد گھر کے افراد میں سے جس شخصیت کے مقام و مرتبے کو اسلام نے شان و شوکت سے نوازا اور جس کے ادب و احترام کادرس دیا ہے، وہ ہے’’بڑا بھائی‘‘۔ نبی کریمﷺنے ارشادفرمایا: ’’بڑے بھائی کا حق اپنے چھوٹے بہن بھائیوں پر ایسا ہے جیسا باپ کا حق اپنے بیٹے پر‘‘ (شعب الایمان، حدیث: 7929)

رشتہ دارکی ذمہ داری

قرآن کریم نے جہاں دیگرحقوق و ذمہ داریاں بیان کیں، وہیں ’’وات ذا القربی‘‘ فرما کر دیگر اہل قرابت و رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک، صلہ رحمی اور ان کے حقوق کی رعایت کی بھی تاکید فرمائی ہے۔ نوجوانوں کے گھر خاندان میں بھائیوں، بہنوں اور دیگر افرادِ خاندان کے ساتھ اچھے اخلاق وکردار اور آپسی تعلقات میں صلہ رحمی وغیرہ کو بڑی خاص اہمیت دی ہے، انسان کے اپنے گھریلو و خاندانی و قرابتی رشتہ کو حکمت کی اصطلاح میں ’’تدبیر منزل‘‘ کے عنوان سے جانا جاتا ہے۔

حق قرابت اور صلہ رحمی کے متعلق حضرت ابوہریرہؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: رحم (یعنی حق قرابت) رحمان سے مشتق ہے، اللہ تعالیٰ نے اس (رحم) سے فرمایا کہ جو تجھے جوڑے گا، میں اسے جوڑوں گا اور جو تجھے توڑے گا (یعنی قطع تعلق کرے گا) میں (بھی) اس کو توڑوں گا‘‘(سنن الکبری للبیہقی، حدیث13214)۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

پاکستان کا دورہ جنوبی افریقہ:شاہین،پروٹیز کو ہوم گرائونڈ پر کلین سویپ کرنے کیلئے پر عزم

پاکستانی شاہین ون ڈے سیریز میں پروٹیز کو ہوم گرائونڈ پر کلین سویپ کرنے کو تیار ہیں۔ تیسرا اور آخری ون ڈے میچ آج جوہانسبرگ میں کھیلا جائے گا۔ گرین شرٹس نے کیپ ٹاؤن میں کھیلے گئے دوسرے ون ڈے میں مہمان ٹیم کو81 رنز کے مارجن سے شکست دے کر سیریز میں2-0 کی فیصلہ کن برتری حاصل کرلی ہے۔

متوازن غذا ضروری ہے!

’’مما! آج کیا پکایا ہے؟‘‘ عائشہ سکول سے واپس آئی تو آتے ہی بے تابی سے پوچھا، اسے شدید بھوک لگی تھی۔

مغرور اونٹ کی کہانی

کسی جنگل میں ایک مغرور اونٹ رہتا تھا۔ اسے اپنے لمبے قد اور چال ڈھال پر بڑا ناز تھا۔ اس کا دعویٰ تھا کہ میں سب سے اعلیٰ ہوں۔ اس کا جہاں جی چاہتا منہ اْٹھا کر چلا جاتا اور سب جانوروں سے بدتمیزی کرتا رہتا۔ کوئی جانور اگر اسے چھیڑتا تو وہ اس کے پیچھے پڑ جاتا۔ اس کے گھر کے قریب چوہے کا بل تھا اور اونٹ کو اس چوہے سے سب سے زیادہ نفرت تھی۔ وہ اس چوہے کو نہ جانے کیا کیا القابات دیتا رہتا لیکن چوہا ہنس کے ٹال دیتا تھا۔ جنگل کے سب جانور ہی اونٹ سے اس کے تکبر کی وجہ سے تنگ تھے اور چاہتے تھے کہ اسے اس کے کیے کی سزا ملے مگر ابھی تک اونٹ کو کھلی چھٹی ملی ہوئی تھی۔

پہیلیاں

ہو اگر بخار کا مارا کیوں نہ چڑھے پھر اُس کا پارہ (تھرما میٹر)

بکری میری بھولی بھالی

بکری میری بھولی بھالی بکری میری بھولی بھالی کچھ تھی بھوری کچھ تھی کالی

ذرامسکرایئے

ماں : گڈو ! میں نے پلیٹ میں کیک رکھا تھا ، وہ کہاں گیا؟ گڈو : امی مجھے ڈر تھا کہ کیک کہیں بلی نہ کھا جائے ، اس لیے میں نے کھا لیا۔ ٭٭٭