روڈ اور بالی:پاکستان ہاکی کو بہتریں کھلاڑی دینے والے نامور کوچز

تحریر : نوید گل خان


پاکستان میں کراچی شہر کا علاقہ لیاری اپنے فٹ بالرز، سائیکلسٹس اور باکسرز کیلئے مشہور ہے۔ آزادی کے بعد کراچی ہاکی سرگرمیوں کا مرکز بھی بنا۔ سیالکوٹ اور شیخوپورہ نے بھی ہاکی کے معیاری کھلاڑی پیدا کئے تاہم فیصل آباد ڈویژن کے ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کی ایک چھوٹی سی تحصیل گوجرہ جسے 1982ء میں تحصیل کا درجہ دیا گیا تھا میں ہا کی کی کہانی کو سنسنی خیز کہا جا سکتا ہے۔

1960ء کی دہائی کے آخر تک گوجرہ سے کوئی بھی ہاکی پلیئر قومی ٹیم کیلئے منتخب نہیں ہوا تھا۔ گورنمنٹ ایم سی ہائی سکول میں فزیکل ٹریننگ انسٹرکٹر محمد یعقوب ان مسلم خاندانوں میں سے ایک سے تعلق رکھتے تھے جو مشرقی پنجاب سے گوجرہ آئے تھے۔انہیں گوجرہ میں ہاکی کا بانی کہا جاتا ہے۔ وہ خود ہاکی کھلاڑی نہیں تھے مگر انہوں نے تنِ تنہا سکول کی ہاکی ٹیم تیار کی۔ 

1950ء کی دہائی میں اکثریتی طور پر سکول کے طلباپر مشتمل 2 مزید ہاکی کلب ابھرے، ان میں سے ایک کے سرپرست چودھری بشیر تھے جو قومی اسمبلی کے رکن ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ٹرانسپورٹ کمپنی کے مالک بھی تھے۔ 1964ء میں انہوں نے گوجرہ ہاکی کلب قائم کیا اور قومی سطح کا ہاکی ٹورنامنٹ کروانا شروع کیا، جہاں ملک بھر سے بڑی ٹیمیں شرکت کرتی تھیں۔انہوں نے گوجرہ ہاکی کلب کی ملک کے دوسرے حصوں میں ہونے والے ٹورنامنٹس میں شرکت کیلئے مالی امداد بھی کی۔یہا ں سے گوجرہ میں ہاکی کلچر کی جڑیں مضبوط ہوئیں۔ اسلم روڈا نے 1968ء میں پاک جاپان سیریز کیلئے قومی ٹیم میں جگہ بناکر اپنے قصبے کا نام روشن کیا اورآگے چل کر اسلم روڈا نے اپنی زندگی گوجرہ ہاکی کلب میں نوجوانوں کو تربیت دینے کیلئے وقف کردی۔ 

اسلم روڈا کا ساتھ ہاکی کے ایک حیرت انگیز کوچ اقبال بالی نے دیا جو 1970ء کی دہائی کے اوائل اور بالخصوص 1973ء کے ہاکی ورلڈ کپ میں فل بیک پوزیشن پر قومی ٹیم کیلئے کھیل چکے تھے ۔اقبال بالی بعد میں بین الاقوامی امپائر بھی بنے تاہم ہاکی کیلئے اسلم روڈا کی خدمات ان کی خدمات سے آگے رہیں۔محمد یعقوب کے لگائے گئے پودے تناور درخت کی شکل اختیار کرنے لگے اور پھر گوجرہ کے زیادہ سے زیادہ لڑکوں نے قومی ہاکی ٹیم کی وردیاں پہنیں۔ گول کیپر محمد اسلم، گوجرہ کے پہلے لڑکے تھے جنہوں نے تھائی لینڈ میں 1970ء میں ہونے والے ایشین گیمز میں میجر ٹائٹل جیتا تھا، جس کے بعد انہوں نے 1971ء میں سپین کے شہر بارسلونا میں ہونے والے ورلڈ کپ میں بھی پاکستان کی نمائندگی کی اور میجر ٹائٹل جیتا۔

 1975ء کے آس پاس اسلم روڈا اور اقبال بالی کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے اور ان کی راہیں جدا ہوئیں۔ اقبال بالی گوجرہ ہاکی کلب چلانے لگے جبکہ اسلم روڈا نے گوجرہ سپورٹس نامی ایک نئے کلب کی کوچنگ شروع کردی،ان کے اختلافات ایک صحتمند مقابلے میں تبدیل ہوئے اوراسی دوران میونسپل سٹیڈیم کو عوامی پارک میں تبدیل کردیا گیا۔  گوجرہ کے پہلے میگا سٹار کھلاڑی فل بیک منظور الحسن تھے، 1973ء سے 1982ء تک وہ پاکستان کے دفاع کا اہم حصہ رہے اور انہوں نے 100 سے زائد گول بھی کئے۔ منظور الحسن کو گوجرہ سے تعلق رکھنے والا قومی ٹیم کا پہلا کپتان ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ اگلے سٹار منظور الحسن کے چھوٹے بھائی رشید الحسن تھے جنہوں نے 1979ء سے 1987ء تک پاکستان کی نمائندگی کی اوران کی الماری میں اولمپک، ورلڈ کپ، ایشین گیمز، ایشیا کپ، چیمپئنز ٹرافی اور جونیئر ورلڈ کپ کے گولڈمیڈل سجے ہیں۔ انہوں نے بھی پاکستان کی کپتانی کی۔

1980ء کی دہائی کے اوائل سے ہی پاکستان کی کوئی بھی ٹیم گوجرہ سے نمائندگی کے بغیر ملک سے باہر نہیں گئی۔ 1993ء کے جونیئر ورلڈ کپ میں جو ٹیم دوسرے نمبر پر آئی اس میں 6 لڑکے گوجرہ کے تھے اور اس ٹیم نے مقابلے میں ملک کیلئے آخری میڈل حاصل کیا تھا۔ پاکستان کا آخری بین الاقوامی ٹائٹل سڈنی میں ہونیوالا 1994 ء کا ہاکی ورلڈ کپ تھا ،اس 16 رکنی سکواڈ میں 5 کھلاڑی گوجرہ سے تھے۔اسی ٹیم نے اسی سال چیمپئنز ٹرافی بھی جیتی۔ 

اس کے بعد حکومت پاکستان نے گوجرہ شہر کیلئے مصنوعی ٹرف کی منظوری دی اور 2000ء میں ایک نئے سٹیڈیم کا افتتاح ہوا جو آسٹروٹرف سے مزین تھا اور دونوں بڑے ہاکی کلبز تب سے ٹرف کا باری باری استعمال کرتے ہیں۔ 2010ء میں پاکستان کے سابق ہاکی کپتان اور ورلڈ کپ فاتح طاہر زمان نے اپنی اکیڈمی قائم کی، طاہر زمان اولمپیئن ہاکی اکیڈمی گوجرہ میں ہاکی کے تیسرے مرکز کے طور پر سامنے آئی۔گوجرہ کے ہاکی کلبز اور اکیڈمیوں کو حکومت سے کوئی امداد نہیں ملتی اور یہ اب بھی اپنی مدد آپ کے تحت چل رہے ہیں۔ان کے اخراجات سابق طلبا کے عطیات سے پورے ہوتے ہیں جو اب مخیربن چکے ہیں۔ 

خواتین ہاکی بہت عرصے تک پاکستان کے بڑے شہروں تک محدودرہی،پھراسلم روڈا نے 2005ء میں گوجرہ سے تعلق رکھنے والی لڑکیوں میں ہاکی متعارف کروائی،یہاں بھی ردِعمل سنسنی خیز تھا، جلد ہی لڑکیوں نے بھی سبز شرٹس پہننی شروع کردیں اور پاکستان خواتین ٹیم میں ایک وقت میں گوجرہ سے 8 لڑکیاں بھی میدان میں اتریں۔2017ء میں رضوانہ یاسمین ہاکی ٹیم کی کپتانی کرنے والی گوجرہ کی پہلی خاتون بنیں۔

80 سینئر اور جونیئر بین الاقوامی کھلاڑی تیار کرنے والے اسلم روڈا 2013ء میں انتقال کر گئے۔وہ ریلوے ملازم تھے ، دوسرے بڑے بڑے اداروں سے پرکشش ترغیبات ملیں لیکن اپنی مٹی سے لازوال محبت کی وجہ سے گوجرہ کو نہ چھوڑا۔ ان کے بعد ان کی جگہ سابق طالبِ علم خاور جاوید نے سنبھالی جو 1990ء کی دہائی میں پاکستان کے بین الاقوامی کھلاڑی تھے اور تب سے لے کر وہ گوجرہ سپورٹس کے معاملات چلا رہے ہیں۔ اس عظیم شخص کو خراجِ تحسین پیش کرنے کیلئے کلب اب استاد اسلم روڈا اکیڈمی کے نام سے کام کر رہا ہے۔ 

12مارچ 1948ء کوپیدا ہونے والے اقبال بالی 76 سال کے ہوچکے ہیں اور ابھی بھی سرگرمی سے اپنے کلب میں نوجوانوں کی تربیت کر رہے ہیں۔ہاکی کا کھیل گوجرہ سے تعلق رکھنے والے کئی عظیم کھلاڑیوں کیلئے ملازمت کا ذریعہ بھی بنا۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلم روڈا ور اقبال بالی جیسے کوچز اور ہاکی سے پیار کرنیوالے اس کھیل پرتوجہ دیں اورپاکستان کو اس کا کھویا مقام دلائیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

پاکستان کو پہلے ٹیسٹ میں بد ترین شکست

پاکستان کرکٹ ٹیم کو تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز کے پہلے مقابلے میں مہمان انگلینڈ کے ہاتھوں ایک اننگز اور 47 رنز سے شکست کا سامنا کرنا پڑا، جسے پاکستان کرکٹ کی بدترین شکست قرار دیا جا سکتا ہے۔

ملتان ٹیسٹ میں بننے والے منفرد ریکارڈز

پہلے ٹیسٹ میچ میں انگلینڈ کیخلاف پاکستان کے متعدد نئے ریکارڈ بنے، جو درج ذیل ہیں۔

چھوٹا پھول

ایک باغ میں بہت سے پودے اور درخت تھے، جن پر ہر طرح کے پھول اور پھل لگے ہوئے تھے۔ وہ باغ بہت بڑا تھا۔ درختوں پر پرندوں کی چہچہاہٹ اور پھولوں کی خوشبو باغ کو خوبصورت بنائے ہوئے تھی۔ ایک دفعہ گلاب کے بہت سے پھول کرکٹ کھیل رہے تھے کہ ایک چھوٹا سا پھول آیا اور کہنے لگا ’’ کیا میں آپ کے ساتھ کرکٹ کھیل سکتا ہوں‘‘۔

سوچو کبھی ایسا ہو تو کیا ہو۔۔۔؟

پیارے بچو!زمین اپنے محور کے گرد 1 ہزار میل فی گھنٹہ سے زائد کی رفتار سے گھو م رہی ہے،تاہم اس وقت کیا ہو گا جب اس کی گردش اچانک رُک جائے؟

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

چیتے کی تیز رفتاری کی وجہ کیاہے؟ مختصر فاصلے کے اعتبار سے چیتا زمین پر تیز ترین جانور ہے۔چیتے کی تیز رفتاری کی وجہ اس کے جسم کی خصوصی بناؤٹ ہے۔اس کی پشت کی ہڈی بڑی آسانی سے مڑ سکتی ہے۔جس بناء پر یہ بڑی بلی کی طرح کا جانور بڑی چھلانگیں لگا کر آگے کی طرف دوڑ سکتا ہے۔چیتے کے پائوں میں لمبے اور پتلے پنجے ہوتے ہیں۔یہ زمین پر کیل کی طرح گرفت کرکے اُسے بہت تیز دوڑنے میںمدد دیتے ہیں۔

ذرامسکرایئے

ایک صاحب اپنے 6سالہ بچے کو داخلہ دلانے کیلئے سکول لے کر جا رہے تھے۔ انہوں نے بچے کو کہا ’’دیکھو بیٹا میڈم آپ کی عمر پوچھیں تو 4 سال بتانا، اگر 6 سال بتائی تو سکول میں داخلہ نہیں ملے گا‘‘۔