ون ڈے کے فاتح شاہین ٹی 20 میں ڈھیر
پاکستان کرکٹ ٹیم نے 22 سال بعد آسٹریلیا کیخلاف انہی کی سرزمین پر ون ڈے سیریزجیت کر تاریخ رقم کی تھی۔ گرین شرٹس 2002ء میں اپنی پچھلی کامیابی کے بعد آسٹریلیا کیخلاف ان ہی کے ہوم گرائونڈ میں 2 بار ون ڈے سیریز جیتنے والی پہلی ایشین ٹیم بن گئی ہے۔
اس معرکے نے پاکستان کو انگلینڈ اور جنوبی افریقہ کے ساتھ یہ کارنامہ انجام دینے والی تیسری ٹیم کے طور پر جگہ دی ہے۔ ایڈیلیڈ اور پرتھ میں فیصلہ کن جیت کے بعد 3 میچوں کی سیریز کا اختتام پاکستان نے 2-1 کی کامیابی سے کیا۔ ون ڈے سیریز کی یہ فتح انگلینڈ کے خلاف پاکستان کی حالیہ ہوم ٹیسٹ سیریز جیتنے کے بعد ہے۔ جس سے یہ امید پیداہوئی کہ اب شاہینوں کو آسٹریلیا کے خلاف ٹی ٹوئنٹی سیریز میں نفسیاتی طور پر برتری حاصل ہو گی مگر بارش سے متاثرہ پہلے ٹی ٹوئنٹی میچ میں میزبان ٹیم کی 29رنز سے فتح نے پاکستانی شائقین کی خوشیوں کو کسی حد تک ماند کر دیاتھا جبکہ دوسرے میچ میں شکست نے انہیں سیریز جیتنے سے بھی محروم کر دیا ہے۔ ایک روزہ سیریز ہارنے کے بعد آسٹریلیا نے ٹی 20 کی سیریز اپنے نام کر لی ہے جبکہ سیریز کا تیسرا میچ کل ہوبارٹ میں کھیلا جائے گا۔
ون ڈے سیریز میں جس فاتحانہ انداز سے پاکستان نے آسٹریلیا میں سیریز اپنے نام کی، اس نے نہ صرف سابق آسٹریلوی کرکٹرز کے اپنی ٹیم پر تنقید کے در کھول دیئے بلکہ آسٹریلوی کرکٹ اسٹیبلشمنٹ کو بھی اپنے ہی سابق سٹارز سے بہت کچھ سننا پڑا۔ سابق کپتان مائیکل کلارک کی نمایاں ترین آواز اپنے بورڈ کے رویے پر شاکی رہی کہ جس نے انڈیا کے خلاف بارڈر گواسکر ٹرافی کے پانچ ٹیسٹ میچوں کی خاطر پاکستان کے خلاف وائٹ بال سیریز کو یکسر نظر انداز کیے رکھا۔ شائقین کرکٹ حیران ہیں کہ جس عہد میں عموماً ٹی ٹوئنٹی کو ٹیسٹ کرکٹ کی مارکیٹ کھانے پر لتاڑا جاتا ہے، وہاں مایہ ناز آسٹریلوی مبصرین وائٹ بال سیریز کو ٹیسٹ میچز کی نذر کیے جانے پر نالاں ہیں۔ ماضی میں آئی سی سی بھی ون ڈے اور ٹیسٹ کرکٹ کے مستقبل کے بارے میں تفکرات اٹھاتی رہتی ہے مگر حالیہ ون ڈے سیریز میں بھی تماشائیوں کی نامکمل دلچسپی اور بیشتر خالی سٹینڈز اس امر کے غماز ہیں کہ بے تحاشہ کرکٹ کے اس دور میں شائقین کیلئے بھی اتنے زیادہ فارمیٹس کا بوجھ اٹھانا آسان نہیں۔ جو سکواڈ آسٹریلیا نے پاکستان کے خلاف اتارا، اسے اکا دکا بڑے ناموں کے سوا کسی سپر سٹار کی خدمات میسر نہیں۔ مبصرین کا یہ بھی خیال ہے کہ آسٹریلیا کو فیصلہ کن ون ڈے میچ کیلئے اپنے پانچ بہترین کھلاڑی دستیاب نہ تھے، مگر جو مومینٹم پاکستانی بائولنگ اٹیک میلبورن سے لے کے چلا تھا، پرتھ میں اگر اوّلین آسٹریلوی لائن اپ بھی سامنے ہوتی تو بھی جیت رضوان الیون کا مقدر ہی ہوتی۔
ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ میں پاکستان کا آخری ٹورنامنٹ وہی ورلڈ کپ تھا جہاں امریکہ سے شکست نے پاکستان کی قسمت پہ مہر لگا دی تھی اور جو آخری دو میچز پاکستان جیت بھی پایا، وہاں بھی فتح کا انداز کچھ فاتحانہ نہیں تھا۔گو موجودہ سکواڈ میں پاکستان کو محمد حسنین دستیاب نہیں مگر حارث رئوف، شاہین شاہ آفریدی اور نسیم شاہ کی صورت میں رضوان کو وہ تینوں وسائل میسر ہیں جو ون ڈے سیریز میں ان کی برتری کے نمایاں ستون رہے۔
پاکستانی شائقین ون ڈے سیریز میں کامیابی کے جھنڈے گاڑنے والے صائم ایوب کو واپس بھجوانے پر بھی حیران ہیں کیونکہ صائم ایوب کافی عرصہ پاکستان کے مستقبل ٹی ٹوئنٹی پلان کا حصہ تھے مگر اب انھیں اس فارمیٹ سے علیحدہ کر کے ٹیسٹ کرکٹ کیلئے مختص کر دیا گیا ہے۔
آسٹریلیا کے حالیہ دورے میں ایک روزہ انٹرنیشنل میچز کے دوران نمایاں کارکردگی اور قومی ٹیم کی فتح میں اہم کردار ادا کرنے والے صائم ایوب کو واپس بھجوائے جانے کا فیصلہ رضوان الیون کیلئے مہنگا ثابت ہو سکتا ہے۔ گزشتہ ماہ جب انگلینڈ کے خلاف دوسرے ٹیسٹ کیلئے پاکستان نے بابر اعظم کو آرام دیا تھا تو مبصرین نے خبردار کیا تھا کہ ایسے فیصلوں سے پاکستان کرکٹ کے خریدار کم پڑ جائیں گے اور سپانسرز بھی دوڑ جائیں گے،مگر اس خدشے کے اظہار کے بعد، تاحال پاکستان نے جتنی بھی کرکٹ کھیلی ہے، وہ خریدار بڑھانے اور سپانسرز کھینچ لانے والی رہی ہے۔ بدقسمتی سے جن دونوں فارمیٹس میں وہ فتوحات پا رہے تھے، انھیں اتنی زیادہ مشتاق نگاہیں میسر نہیں ہوتیں جس قدر ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ کو رہتی ہیں۔ اب یہ شائقین کا فیورٹ فارمیٹ ہے اور ورلڈ کپ سے پاکستان کرکٹ کے جو شائقین روٹھے تھے، انھیں واپس منا لانے کا موقع ہے، جو مومینٹم گرین شرٹس نے ون ڈے سیریز میں بنایا تھا اور جیسا سکواڈ آسٹریلیا نے گرائونڈ میں اتارا، یہاں بھی تاریخ بدلنا کچھ مشکل نہ تھا مگر شاہینوں کو اپنے فیورٹ فارمیٹ میں سخت چیلنج درپیش ہے۔
صائم ایوب کی عمر ایک ماہ سے بھی کم تھی جب پچھلی بار 2002 ء میں پاکستان نے آسٹریلیا میں کوئی سیریز جیتی تھی۔ اس جیت کو اپنی دہائی کے مستند ناموں وسیم اکرم، وقار یونس، شعیب اختر، ثقلین مشتاق، سعید انور، شاہد آفریدی اور انضمام الحق جیسے ناموں کی تقویت حاصل تھی۔اس فتح کے بعد اگلی دو دہائیاں بھی پاکستان کے سبھی آسٹریلوی دورے ویسے ہی بے ثمر رہے جیسے اس سے پہلے کئی ہوا کرتے تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان کی ابتری بڑھتی گئی۔محمد رضوان کو پاکستان کی قیادت ملنا ایک بڑا اعزاز تھا مگر اس سے کہیں زیادہ یہ ایک چیلنج تھا جہاں ان کے اس نئے کریئر کی پہلی سیریز ہی اس مشکل ترین سرزمین پہ تھی جہاں جیت کے خواب تو بہت دور، فقط آبرو مندی ہی بڑی بات ہوتی ہے۔ ون ڈے کرکٹ کی تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ تین میچز کی سیریز میں ٹاپ سیون آسٹریلوی بلے بازوں کی بیٹنگ اوسط محض 16 رنز رہی اور تینوں میچز کے اطراف کوئی ایک بھی بلے باز ففٹی بنانے میں ناکام رہا۔ رضوان کا کمال یہ رہا کہ انھوں نے یہ سب آسٹریلیا کے ہوم گرائونڈز میں کر دکھایا۔ آسٹریلوی نقط نظر سے ان اعداد و شمار کا کچھ ملبہ ٹاپ آرڈر میں ٹریوس ہیڈ اور مچل مارش کی عدم دستیابی پہ بھی ڈالا جا سکتا ہے مگر پاکستانی زاوی نگاہ سے یہ پھر بھی زبردست ہیں کہ جس بیٹنگ لائن کے خلاف پاکستانی پیسرز نے یہ اعزاز حاصل کیا، اسے سٹیو سمتھ، مارنس لبوشین، جاش انگلس اور گلین میکسویل جیسے آزمودہ کار نام میسر تھے۔
ماضی میں آسٹریلوی دوروں پہ پاکستانی بائولنگ کا دیرینہ مسئلہ ڈسپلن رہا ہے جہاں اچھے اچھے بائوولر عموماً بائونسرز کے جوش میں شارٹ پچ کے اردگرد بھٹکتے رہتے اور آسٹریلوی بلے بازوں کا خون بڑھاتے رہتے، مگر رضوان کی قیادت میں نہ صرف یہ ڈسپلن شاندار رہا ہے بلکہ بائولرز کی جارحیت کو وہ اعتماد بھی ملا ہے کہ سیریز کی فیصلہ کن اننگز میں22 رنز ایکسٹرا دینے کے باوجود کسی بائوولر کو اپنے کپتان سے کوئی جھڑکی نہیں پڑی۔دورہ آسٹریلیا میں پاکستان کرکٹ ٹیم کی ون ڈے سیریز میں تاریخی فتح کے بعد ٹی ٹوئنٹی سیریز کا چیلنج درپیش ہے،پاکستان اور آسٹریلیا کا ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچز میں جیت کا تناسب تقریباََ ففٹی ففٹی ہے اور ہمیشہ شائقین کو اچھی کرکٹ دیکھنے کو ملتی ہے تاہم یہ کہنا بھی بے جا نہ ہوگا کہ ون ڈے سیریز کے بعد بارش آسٹریلوی ٹیم کی ایک اور عبرتناک شکست سے بچانے کیلئے میدان میں اترآئی۔